باس۔۔۔طارق احمد

انتہائی شریف آدمی تھے،اور سادہ دل شخص۔ ساری عمر سائیکل پر کالج آئے۔ اپنی جاب کے آخری سالوں میں فل پروفیسر بھی ہو گئے۔  دھان پان   سا بدن ، منحنی ڈھانچہ۔ کہیں کہیں تھوڑا بہت گوشت بھی نظر آ جاتا۔ ورنہ سوکھا کبھی ختم نہیں ہوا۔ سائیکل یوں چلاتے جیسے ہوا میں کوئی مست ناگ لہرا رہا ہو، اور کانوں میں بین بج رہی ہو۔ ایک بار ایک بکری چھن چھن کرتی سڑک پار کر رہی تھی۔ سائیکل روک کر ایک جانب کھڑے ہو گئے۔ نجانے یہ بکری کا احترام تھا، یا اپنے احترام کے لیے اسے راستہ دے رہے تھے۔ لیکن ایک بات طے تھی ان کی زندگی میں مسابقت نہ تھی۔ ناک کی سیدھ میں چلتے،اگر کہیں مڑنا پڑ جاتا، تو ناک کو اس جانب موڑ لیتے۔ صراط مستقیم نہ چھوڑتے۔ کالج ڈیپارٹمنٹ میں کوئی فنکشن ہوتا ،بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ لیکن جونہی فنکشن میں حصہ ڈالنے کا وقت آتا،سائیکل پکڑتے اور یہ جا وہ جا۔ ہم ڈھونڈتے ہی رہ جاتے۔ اگلے دن ہم پوچھتے۔ صاحب آپ کہاں چلے گئے تھے۔ ۔تو شرما کر کہتے، آپ کی بھابھی کا فون آ گیا تھا۔ ایک تو بھابیاں ایسے شوہروں کو کھلا چھوڑے رکھتی ہیں۔۔ کہ جہاں بھی گیا لوٹا تو میرے پاس آیا۔ یعنی اتنے بے ضرر کہ بھابھی بھی خواہش کر اٹھے،کبھی تو کچھ نقصان پہنچا او ظالما۔ ۔اور دوسرے ہم کولیگز نے کئی ماہ ان کی جاسوسی کرکے دیکھ لیا تھا۔ ان کے پاس موبائل فون نہیں۔ اچھا دنیا کی نمبر ون خفیہ ایجنسی کو مغالطہ ہو سکتا ہے،لیکن ہمارا نیٹ ورک بہت کائیاں واقع ہوا تھا۔ ڈیپارٹمنٹ کا ایک ہی نائب قاصد تھا،اور وہ بھی ٹرپل ایجنٹ تھا، گویا ہم نے بھی ہتھیلی پر سرسوں جما رکھی تھی۔

ایک بار ہم نے اپنے اس کولیگ کو عجب حالت کزائی میں دیکھا۔ انہوں نے پہلی بار ہال روڈ سے ایک فریج خریدا۔ پہلے تو انہوں نے اس فریج کی قیمت ایک ماہ کے حساب سے لگائی۔ جو کہ بہت زیادہ پڑی۔ پھر ایک سال کے حساب سے اور پھر اپنی پوری مدت ملازمت پر انہوں نے قیمت کو پھیلا دیا،یہ کچھ ریلیف ملنے کے برابر تھا۔ لیکن بے قرار دل کو چین نہیں آ رہا تھا۔ گرمیوں کی برف کو بھی منفی کیا۔ بکر عید کے گوشت کو بھی فوائد میں شامل کیا۔ یہ پلان بھی بنا لیا، کچھ ہمسائیوں کو برف قیمتاً  دیں گے۔ پرانے بچے کچھے سالنوں کے معاشی فائدے بھی شامل کر لیے۔ تب کہیں جا کر چند سو روپوں کا فرق رہ گیا۔ اس فرق کو پورا کرنے کی خاطر انہوں نے دکاندار سے کہا۔۔ بھئی ہماری یہ فریج تم ہماری اس سائیکل سے باندھ دو۔ ہم اسے کھینچ کر گھر لے جائیں گے۔

دوکاندار نے ایک نظر اس لحیم شحیم فریج کو دیکھا۔ دوسری نظر سے ان منحنی شخص کو دیکھا۔ اور تیسری آنکھ سے چوں چاں پھٹک کرتی اس سائیکل کو دیکھا۔ جس پر بیٹھ کر کولمبس نے امریکہ دریافت کیا تھا۔ ٹروجن ہیروز نے ہیلن آف ٹرائے کے لیے دس سال جنگ لڑی تھی۔ فرعون مصر نے دریائے نیل پار کرنے کی کوشش کی تھی۔ جس پر بیٹھ کر نپولین میدان جنگ سے فرار ہوا تھا۔ جس کو مسلسل سات دن چلا کر شاہ جہاں نے تاج محل بنانے کے لیے پیسے اکھٹے کیے تھے،اور جس پر بیٹھ کر ہٹلر تاریخ کی راہوں میں گم ہو گیا تھا، اور اب جس کے ساتھ باندھ کر فریج گھر پہنچائی جا رہی تھی۔ راوی اس کے متعلق مکمل خاموش ہے،اور تاریخ اس اندوہناک واقعے کو مکمل بھول چکی ہے۔ بس اتنا یاد ہے، اس کے بعد ہمارے یہ کولیگ کافی دن کالج نہیں آئے۔ ۔اور جب آئے تو سائیکل کے بغیر آئے، اور اکثر یہ شکوہ کرتے پائے گئے۔ ۔اس دن دکاندار نے ہماری سائیکل کے ساتھ فریج ٹھیک طریقے سے باندھا نہیں تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب خدا کا کرنا کیا ہوا، اور خدا کی رمزیں خدا ہی جانے۔ یہ صاحب محکمانہ ترقی پاتے پاتے اس قابل ٹھہرے   کہ انہیں انگلش ڈیپارٹمنٹ کا ہیڈ یعنی باس بنا دیا گیا۔ ہیڈ بنتے ہی پتہ نہیں انہوں نے کہاں سے جھاڑ پونچھ کر کے اپنی کوئی خود ساختہ ڈاکٹرائن نکالی، اور پورے ڈیپارٹمنٹ پر نافذ کر دی، اور ساتھ ہی حاضری رجسٹر پر قبضہ کر لیا۔ نوکری کے ان سالوں میں ہمیں اندازہ ہو گیا تھا، حاضری رجسٹر باس کے ہاتھ میں ایک موثر ہتھیار ہے۔ جیسے غوری میزائل یا غزنوی میزائل ،اور جسے ڈیپارٹمنٹ کی سکیورٹی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، یا ان نوجوان اور اکھڑ لیکچراروں کو ہاؤ کہہ کر ڈرایا جاتا ہے۔ جو باس کی ڈاکٹرائن کا مذاق اڑاتے ہیں،یا کسی طور قابو نہیں آتے۔ اس دن تو حد ہو گئی۔۔ ہیڈ صاحب نے رجسٹر چیک کیا  تو حاضری مکمل تھی۔ ہیڈ صاحب پھولے نہیں سما رہے تھے۔ پہلی بار انہیں اندازہ ہوا۔ وہ بطور ہیڈ کامیاب ہو چکے ہیں  اور ڈیپارٹمنٹ پر ان کا ٹہکا تسلیم کیا جا چکا ہے،کہ ہمارا ایک کولیگ اندر داخل ہوا اور رجسٹر اٹھا کا ہیڈ کے پاس چلا گیا۔ دیکھیں حضور آپ کے دور حکومت میں کیا ہو رہا ہے۔ میں ابھی کالج آیا ہوں لیکن میری حاضری پہلے ہی کسی نے لگا دی ہے۔ جب فائنل حساب ہوا تو پتہ چلا جن کی کلاسسز نہیں تھیں۔ وہ ابھی نہیں آئے۔۔ لیکن سب کی حاضری لگی ہوئی ہے۔ ہیڈ صاحب کے چہرے پر باقاعدہ ہوائیاں اُڑ رہی تھیں، اور ہمارے قہقہے رُک نہیں رہے تھے۔ فوری طور پر ایک ایمرجنسی میٹنگ کال کی گئی،جس کا لب لباب یہ تھا۔۔ سر آپ کو سچ مچ کا باس بننے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم پڑھے لکھے اور مہذب لوگ ہیں۔ جب آپ اپنی ڈاکٹرائن سمیت جلوہ گر ہوتے ہیں، تو مہذب دنیا ہمارا مذاق اڑاتی ہے۔ آپ اپنا کام کریں۔ ہمیں اپنا کام کرنے دیں۔ اس سے آپ کی زیادہ عزت ہو گی، اور احترام ہو گا۔ آپ خود بتائیں آپ بھی ایک مہذب آدمی ہیں، یہ ہر وقت ڈنڈے کے زور پر آپ اپنی جس ڈاکٹرائن کا نفاذ کرتے رہتے ہیں۔ ۔کیا یہ اچھا کام ہے؟ خدا کا شکر ہے۔۔ اس سائیکل سوار کو یہ بات سمجھ آگئی اور ڈیپارٹمنٹ سکون سے چلنے لگا۔

Facebook Comments

طارق احمد
طارق احمد ماہر تعلیم اور سینیئر کالم نویس ہیں۔ آپ آجکل برطانیہ میں مقیم ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply