قومہ قصائی۔۔عزیز خان

ایک دن میں تھانہ پر پہنچا تو محرر تھانہ نے بیس عدد ٹیلی گرام میرے سامنے رکھ دیے جوکہ ریلوے حکام کی طرف سے تھے۔جن میں درج تھا کے ریلوے لائن کیساتھ ساتھ ٹیلی فون کے کھمبوں سے تانبے کی تار چوری کرلی گئی تھی۔تھوڑی دیر بعد SSPحسین کرار خواجہ کا بھی ٹیلی فون آیا جنھوں نے مجھے بتایا کہ گھوٹکی (سندھ) سے لے کر خانپور تک ریلوے لائن کیساتھ لگی ٹیلی فون کی تار کھمبوں سے چوری کر لی گئی ہے۔ میں نے ساری ٹیلی گرام آپکو بھجوا دیں ہیں اس کیس پر کام کریں ہر صورت میں ملزمان گرفتار کر یں اور تار بھی برآمد کریں۔میں نے اپنی کوششیں تیز کیں مختلف جرائم پیشہ افراد سے بھی رابطہ کیا لیکن کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کون یہ تار چوری کرسکتا ہے۔دودن بعد مجھے پھر SSPصاحب کو فون آیا اور کہا کے اب خانپور سے آگے بھی ریلوے لائن کیساتھ تانبا کی تار پھر چوری ہوگئی ہے آج DIGبہاولپور رینج بھی پوچھ رہے تھے اب یہ عزت کا مسئلہ ہے کچھ کرنا چاہیے۔

اگلے روز میں اپنے دفتر میں بیٹھا تھا کہ کانجوکانسٹیبل میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ ایک اطلاع ملی ہے کے ٹیڈی کورائی جو کہ سابقہ ریکارڈ یافتہ ہے کو ان چوریوں کے بارے میں کچھ معلومات ہیں۔میں نے ٹیڈی کورائی کو بلوایا ا ور تانبا کی تار کی چوریوں کے بارے میں پوچھا لیکن مذکورہ صاف انکاری ہوگیا کہ اسے کوئی معلومات نہ ہے۔میں نے کانجو اور حاجی رمضان ASIکو ہدایت کی کے ٹیڈی کورائی پر نظر رکھیں۔دو دن بعد حاجی رمضان ASIمیرے پاس آیا اس کے چہرے سے لگ رہا تھا کہ اس کے پاس کوئی اچھی خبرہے۔کہنے لگا کے سر ہم نے یہ وارداتیں ٹریس کرلی ہیں ان میں کوئٹہ کے کچھ بروہی بلوچ ملوث ہیں۔کل رات انھوں نے پھر تار چوری کرنے آنا ہے ان کو پکڑا جاسکتا ہے۔اگلی رات میں اپنے تھانہ کے ملازمین کیساتھ خانپور سے لیاقت پور تک کے ریلوے لائن کے پاس پہنچادیکھا کہ تانباکی تار(کاپر وائر) کے بنڈل ایک جگہ پڑے ہوئے ہیں مگر آس پاس کوئی نہ تھا شاید ملزمان کو شبہ ہوگیا تھا۔ صبح تک ہم وہاں چھپ کربیٹھے رہے مگر وہ تاریں اٹھانے کوئی نہ آیا۔میں نے یہ ساری بات اپنے DSPیا SSPکو نہیں بتائی کیونکہ مجھے اپنی سروس میں اس بات کا اندازہ بھی ہوچکا تھا کہ اگر کوئی ایسی بات اپنے افسران بالا کو بتا دی جائے اور بعد اسکی تصدیق نہ ہو تو بڑی سبقی ہوتی ہے۔ ہم نے ہمت نہ ہاری حاجی رمضان، کانجو کانسٹیبل و دیگر ملازمین سار ادن اسی علاقہ میں موجود رہے ہم نے تاریں بھی وہاں سے نہ اٹھائیں۔رات کو تقریباََ دس بجے کانجو کانسٹیبل میرے پاس آیا بتایا کہ تھانہ فیروزہ کے گاؤں سے اطلاع ملی ہے کہ گھر میں بروہی بلوچ ٹھہرے ہوئے ہیں اور آج رات انھوں نے تاریں لے کر کہیں جانا ہے۔

اس اطلاع پر میں نے فوری طور پر اپنے ملازمین کو اکٹھا کیا اور تھانہ فیروزہ جو کہ لیاقت پور سرکل میں آتا ہے روانہ ہوگیا۔کانجو کانسٹیبل میرے ہمراہ تھا رات تقریباََ تین بجے ہم نے اس گھر کو گھیرے میں لے لیا۔دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوئے تو چار پائیوں پر تین اشخاص سوئے ہوئے تھے۔جن کو قابو کرلیا ان سے انٹروگیشن کرنے پر معلوم ہوا کہ انھوں نے تمام تاریں ایک ٹرک میں لادی ہوئی ہیں اور وہ ٹرک ٹیڈی کورائی نے خانپور میں کھڑا کیا ہوا ہے۔فوری طور پر خانپور پہنچے ٹیڈی کورائی کے گھر کے کچھ فاصلے پر ایک ٹرک مل گیا جس میں دو اونٹ بھی بیٹھے ہوئے تھے اور اونٹوں کے نیچے گھاس پھوس کے اندر تاریں چھپائی ہوئیں تھیں۔ملزمان کی جامع تلاشی پرکچھ کارڈز ملے جن میں سے ایک کارڈ چوہدری عبدالقیوم سکنہ بادامی باغ کا بھی تھا۔انٹروگیشن پر بروہی بلوچ نے بتایا کے وہ یہ تانبا کی تاریں چوہدری عبدالقیوم کو بیچتے ہیں۔جس کا بادامی باغ لاہور میں کارخانہ ہے جو اس تار کو پگھلانے کے بعد آگے بیچ دیتا ہے۔ پہلے بھی چار ٹرک مال اسی طرح ان کو بیچ چکے ہیں۔اگلی صبح میں نے یہ ساری کاروائی SSPحسین کرار خواجہ اور اپنے DSPخانپور کو بتائی اب اگلہ مرحلہ تانبے کی تاروں کی برآمدگی کا تھا جو لاہور سے چوہدری عبدالقیوم کے کارخانے سے ہونی تھی۔

SSPحسین کرار خواجہ نے مجھے کہا کے ذوالفقار چیمہSPسٹی لاہور ہیں آپ ان سے جاکے ملیں وہی آپکو گائیڈ کریں گے۔ میں فوری طور پر تیار ہوا بروہی بلوچ کو ہمراہ لیا میرے ساتھ رمضان ASIاور فضل حسین بخاری SIکار میں تھے جبکہ ملزم بروہی و دیگر ملازمین ایک پرائیویٹ ویگن میں تھے کیونکہ سرکاری گاڑیاں تو اس قابل ہی نہ تھیں کہ لاہور تک کا سفر کر پاتیں۔ رات کے سفر کے بعد صبح ہم لاہور پہنچ گئے ریلوے اسٹیشن لاہور کے نزدیک ایک ہوٹل میں قیام کیاتقریباََ 11بجے میں اور فضل حسین بخاری SP سٹی ذوالفقار چیمہ (جو IGموٹروے ریٹائر ہوئے ہیں) کے دفتر پہنچ گئے جب انھیں چوہدری عبدالقیوم کے بارے میں بتایا تو انھوں نے زور سے ایک قہقہ لگایا اور کہنے لگے کے آپ اس چوہدری عبدالقیوم عرف قومہ قصائی کو پکڑنے آئے ہو جو کہ لاہور کا مشہور بدمعاش ہے اس کی دشمنایاں ہیں اور آج بھی وہ جب گھر سے نکلتا ہے تو دس پندرہ مسلح گن مین اس کے ساتھ ہوتے ہیں۔بکرا منڈی لاہور اور راوی ٹول پلازہ کا ٹھیکہ بھی قومے قصائی کا ہوتا ہے۔آپ کیسے گرفتار کریں گے۔میں نے فضل بخاری کی طرف دیکھا تو مجھے اس کے چہرے کے چہرے سے ایسا لگا جیسے کہہ رہا ہو”عزیزخان بھاگو یہاں سے”۔SPذوالفقار چیمہ بولے میں آپکا مسئلہ حل کرواتا ہوں۔میں واپس ہوٹل آگیا سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کیا جائے۔بغیر برآمدگی کے واپس چلے جانے کو دل نہیں کررہا تھا پر قومہ قصائی کو گرفتار کرنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔رات گزر گئی اگلی صبح میرے ہوٹل کے کمرے کا دروازہ بجا۔دروازہ کھولا تو تین افراد جنھوں نے ہاتھوں میں بڑے بڑے تھیلے اٹھا رکھے تھے نے اندر آنے کی اجازت مانگی اندر آنے پر انھوں نے بتایا کہ وہ چوہدری قومہ قصائی کے آدمی ہیں اور انھوں نے آپکے لیے بھجوایا ہے۔مزید بولے کے چوہدری صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں اور دوپہر کا کھانا آپکے ساتھ کھانا چاہتے ہیں۔

میں نے ناشتہ لینے سے انکار کیا تو انھوں نے کہا کے آپ ہمارے مہمان ہیں دوپہر کو چوہدری صاحب آپکا انتظار کریں گے۔ناشتہ تو ہم سب نے کر لیامگر اب میں یہ سوچ رہا تھا کہ مجھے قومہ قصائی کے گھر جانا چاہیے یا نہیں۔ میں نے فضل بخاری اور حاجی رمضان سے مشورہ کیا SSPرحیم یار خان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر نہ ہوسکا۔اسلم ساہی DSP سی آئی اے لاہور تھے۔موصوف بہاولپور رینج میں بھی تعینات رہے تھے۔میں نے ان سے رابطہ کیا پہلے تو وہ اس بات پہ حیران ہوگئے کہ میں رحیم یار خان سے چار،پانچ کانسٹیبلز کیساتھ قومہ قصائی کو گرفتار کرنے آیا ہوں۔جب میں نے انھیں صبح کے ناشتے اور دوپہر کے کھانے کی دعو ت کے بارے میں تو بولے ملنے میں کوئی حرج نہیں ہے آپ چلے جاؤ۔ان کی اس بات سے میری ڈھارس بندی اور میں نے قومہ قصائی کے گھر جانے کا فیصلہ کرلیا۔

تقریباََ 2بجے دن قومہ قصائی کا آدمی ہمیں لینے کے لیے ہوٹل پہنچ گیا۔میں نے اس کی گاڑی میں جانا مناسب نہ سمجھا میں،فضل بخاری SIاور حاجی رمضان ASIکے ساتھ اپنی گاڑی میں قومہ قصائی کے آدمی کے پیچھے ہولیا۔قومہ قصائی کا گھر شیراں والا گیٹ کے اندر انچائی پر واقع تھا۔باہر سے لاہور کے قدیم گھروں جیسا تھا سڑک پر سات آٹھ افراد بیٹھے ہوئے تھے۔جن کے ہاتھوں میں کلاشنکوف اور جدید اسلحہ تھا۔گھر کے اندر کا حصہ بہت اچھا بنایا گیا تھا۔ڈرائینگ روم میں چوہدری عبدالقیوم عرف قومہ قصائی اور کچھ افرادبیٹھے ہوئے تھے۔قومہ قصائی نے لمبی بوسکی کی قمیض اور لاچاپہنا ہوا تھا بات چیت کا انداز خالصتاََ لاہوری بدمعاشوں جیسا تھا بڑے تپاک سے اس نے ہمارا استقبال کیا۔تھوڑی دیر بعد فون کی گھنٹی بجی قومہ قصائی نے فون پہ کسی سے بات کی اور پھر رسیور میری طرف بڑھا کہ بولا سر! آپکے سنیئر ہیں بات کرلیں۔فون پر SSPمیانوالی تھے جو 1987میں میرے ASPبہاولپور بھی رہے تھے نے مجھے کہا کہ چوہدری عبدالقیوم شریف آدمی ہے اس کے مینجر نے غلطی سے چوری شدہ تانباکی تارلے لی ہے آپ مہربانی کریں اور کوئی حل نکالیں۔ اسی طرح دو تین اور سنئیر پولیس آفسران نے بھی مجھے اسی ٹیلی فون پر قومہ قصائی کی سفارش کی۔بعدمیں مجھے معلوم ہوا کہ وہاں پر بیٹھے ہوئے افرادمیں سے دو وکیل اور ایک DSPلیگل بھی تھے۔

کافی دیر بحث مباحثہ ہوتا رہا جب مجھے یہ محسوس ہوا کہ قومہ قصائی بھی کچھ خوف زدہ ہے تو میری ہمت بھی بڑھ گئی۔میں نے سارے ثبوت وہاں پہ موجود وکلاء اور DSPلیگل افئیر کو دیکھائے کے کس طرح اور کب کب بروہی بلوچ سرقہ شدہ تاریں قومہ قصائی کی فیکٹری میں دیتارہا۔یہ کیسے ہو سکتا ہے کے مالک کے علم کے بغیر اس کامینجر کوئی مال لے سکے۔لیکن قومہ قصائی اس بات پہ بضد تھا کہ اس کے علم میں کچھ نہ ہے اگر اس کا نام چوری کے اس مقدمہ میں آگیا تو اسکی بہت بے عزتی ہونی ہے اوراس پر لوگ کہیں گے کہ” پہلوان چور ہے”۔ قومہ قصائی اٹھ کے گھر کے اند ر چلا گیا۔تھوڑی دیر بعد ایک آدمی مجھے بلانے آیا کہ چوہدری صاحب آپکو ساتھ والے کمرہ میں بلا رہیں ہیں۔میں اس کے ساتھ ہولیا کمرہ میں قومہ قصائی اکیلا موجود تھا۔آدمی کے باہر جانے کے بعد کہنے لگا میں آپکو قرآن پہ حلف دینے کو تیار ہوں کے مجھے بالکل معلوم نہیں تھا کہ میرا مینجر چوری کا مال لے رہا ہے۔میں بدمعاش ضرور ہوں لیکن میری بھی لاہور میں کچھ عزت ہے۔میرے عدلیہ،پولیس اور دیگر محکموں کے بڑے افسران سے تعلقات ہیں کیوں کہ بکرا منڈی لاہور کا ٹھیکہ بھی میرے پاس ہے۔ہر ہفتے ایک ایک بکرا تمام افسران کے گھر پہنچاتا ہوں میری بہت دشمنیاں ہیں۔میرے دشمنوں کو اگر یہ معلوم ہواکہ میں نے چوری کا مال لیا ہے تو میری عزت نہیں بچنی۔قومہ قصائی نے اپنے لاچا (دھوتی )کی ڈب میں سے ہزار روپے کے نوٹوں کی دو گڈیاں نکالیں اور ہاتھ جوڑتے ہوئے بولا میری عزت کا سوال ہے آپ ان پیسوں سے چاہے برآمدگی ڈالیں چاہے خود رکھ لیں بس میری جان چھوڑ دیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس کی اس ہمت پہ میں ششدر رہ گیا سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں؟ان حالات میں نہ تو قومہ قصائی کو گرفتار کر سکتا تھا میرے پاس کوئی ایسا ثبوت بھی نہیں تھا صرف ملزم کا بیان تھا مال مقدمہ بٹھی میں پگل کر تانبا بن چکا تھا اور پتہ نہیں کہاں بک گیا تھا۔اگر میں کوئی ایسی حرکت کرتا تو پھر ہمیشہ کی طرح میرے افسران نے یہی کہنا تھا کہ آپ حالات کو بہتر طریقے سے سنبھال کیوں نہ سکے؟اب فیصلہ مجھے کرنا تھا اور اسکا ذمہ دار بھی مجھے ہونا تھا۔میں نے بہتر یہی سمجھا کہ پیسے لے لوں چنانچہ میں نے پیسے پکڑلیے قومہ قصائی بولا آپکا اور میرا اللہ ضامن ہے میں اسکے بارے میں کسی کو نہیں بتاؤں گا کیونکہ اگر میں نے یہ بھی بتادیا کہ پیسے دے کر اپنی جان چھڑائی ہے تو بھی میری بے عزتی ہے۔ہم دونوں واپس ڈرائنگ روم میں آگئے قومہ قصائی نے وہاں بیٹھے وکلاء کو کہا کہ خان صاحب نے میری منت مان لی ہے اب پریشانی کی کوئی بات نہیں۔کھانا بڑا پرتکلف تھا مگر میں تذبذب کا شکار تھا کہ میرا کیا ہوا فیصلہ درست ہے یا نہیں؟کھانے کے بعد ہم وہاں سے روانہ ہوئے قومہ قصائی باہر دروازے تک ہمیں چھوڑنے آیا میں یہ بھی سوچ رہا تھا کہ اگر یہاں سے اسے گرفتار کرنا ہوتا تو کیا حالات بنتے؟
ہوٹل واپس پہنچنے پر میں نے SSPصاحب کو بذریعہ ٹیلی فون تمام حالات بتائے جنھوں نے مجھے بتایا کہ ان کے پاس بھی بہت سی سفارشیں آئیں ہیں مگر اب آپ نے جو بھی فیصلہ کر لیا ہے ٹھیک ہے واپس آجائیں۔محکمہ پولیس میں ایسا کوئی فنڈ نہیں ہے جس میں سے SHOیا دیگر تفتیشی افسران کہیں بھی ضلع میں یا ضلع سے باہر جاتے ہوئے پیسے لے کہ جاسکیں۔رحیم یار خان سے لاہور آنا پرائیویٹ ویگن کا کرایہ ملازمین کی رہائش یا کھانا یہ سب کچھ مجھے اپنی جیب سے کرنا پڑاتھا۔اب بھی یہی حالات ہیں یہ خرچہ یا تو مدعی مقدمہ کرتا ہے یاپھر وہ پولیس آفیسر جوکے ان تمام ملازمین کو لے کر کہیں جاتاہے۔وہ یہ پیسے اپنی تنخواہ سے خرچ نہیں کرتا بلکہ ان ذرایع سے حاصل کرے گا جس کو افسران اور سب لوگ کرپشن کہتے ہیں۔لاہور کے تمام اخراجات نکال کر بقیہ رقم کی برآمدگی ڈال کر ملزمان کو چالان عدالت کردیا گیا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply