سماج (23) ۔ طاقت/وہاراامباکر

بڑی آبادی والی ریاستوں کی سماجی جدتوں کا ایک اہم عنصر پیشہ ور افواج رہی ہیں۔ بغاوتیں کچلنا، علاقوں کو اپنے دسترس میں کرنا معاشروں کے لئے اہم رہا ہے۔ جنگ قدیم طرزِ زندگی رکھنے والے اور قبائل بھی کرتے رہے ہیں لیکن طریقے اور مقاصد کا فرق ہے۔ چھوٹے معاشروں کی صورت میں غیرمنظم حملے کئے جاتے ہیں جن میں چیف خود عسکری قیادت کرتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جب کہ ریاست میں جنگ پلان کرنے والا میدانِ جنگ سے بہت دور دارالحکومت میں یہ کام کر سکتا ہے۔ لڑنے والے تربیت یافتہ پیشہ ور لوگ ہو سکتے ہیں۔ اور یہ حکمتِ عملی بنائی جا سکتی ہے کہ جیتنے کے بعد کیا کیا جائے گا۔ افرادی قوت ہی نہیں بلکہ بہتر ہتھیار، حکمتِ عملی اور کمیونیکیشن سے اپنے حریفوں کو زیر کیا جا سکتا ہے۔
عسکری تربیت میں ہمیشہ مضبوط شناخت اور اس کے ساتھ وفاداری کا سبق پڑھایا جاتا ہے۔ نوجوان فوجی کو کم عمری میں حب الوطنی کی علامات میں بھگو دیا جاتا ہے۔ انفرادیت کو ختم کیا جاتا ہے۔ اور اس وجہ سے بڑی ریاستوں کے درمیان جنگ اس طرز کی ہے جیسے چیونٹیاں کرتی ہیں۔ بڑے مقصد کے لئے جان کو قربان کرنے پر تیار افراد یہ کام پوری جانفشانی سے کرتے ہیں۔
ریاستوں کی توسیع اور انہیں برقرار رکھنے کے لئے یہ ایک بڑی جدت رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیٹ فیلڈ کہتے ہیں۔ “آپ دنیا میں جہاں پر بھی رہتے ہیں، یہاں پر رہنے کا حق آپ کو کیسے ملا ہے؟ زمین خریدنے کا، اس کو بیچنے کا۔ اپنی فصل اگانے کا، اپنے بچوں کی پرورش اس جگہ پر کرنے کا، جو آپ کے خیال میں آپ کی ہے؟ اس کا جواب شاید پیچیدہ لگے لیکن یہ بہت ہی آسان ہے۔ طاقت اور بندوق۔ ہم نے آج تک جتنے قوانین آج تک بنائے ہیں، جتنے معاہدے کئے ہیں، مٹی پر قومی سرحدوں کی جو لکیریں کھینچی ہیں۔ ان کے پیچھے بندوق ہے۔ آپ کی قوم خواہ جتنی بھی پرامن ہو، اس کے ہونے کی سب سے بڑی وجہ بندوق ہے”۔
چارلس ٹلی تاریخ کے بارے میں یہ اپنے تاثرات میں لکھتے ہیں۔ “جنگوں سے ریاستیں بنتی ہیں اور ریاستیں جنگیں کرتی ہیں۔ کبھی بھی کوئی مکمل پرامن ریاست نہیں رہی۔ امن کا وقت طاقت کے کھیل کے دورانیوں کو چھپاتا ہے”۔
چارلس ٹلی کی بات ایک حد تک درست ہے۔ ہر معاشرہ کسی وقت میں آزاد اور الگ تھلگ آبادیوں پر مشتمل تھا۔ ان کو طاقت کے زور پر اکٹھا کیا گیا تھا۔ تاریخ اس بارے میں واضح ہے۔ آج کی دنیا کو دیکھا جائے تو لگزمبرگ اور آئس لینڈ میں طویل عرصے سے امن ہے لیکن جب زیادہ پہلے جائیں تو یہاں پر بھی ایسا نہیں تھا۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply