• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ڈے کیئر سینٹر ز: بچوں کی نگہداشت اور استحصال۔۔۔۔۔راحیلہ کوثر

ڈے کیئر سینٹر ز: بچوں کی نگہداشت اور استحصال۔۔۔۔۔راحیلہ کوثر

میں ایک ورکنگ وومن اور اس کے بچوں کو پیش آنے والے مسائل کا بخوبی اندازہ لگا سکتی ہوں کیونکہ میری والدہ بھی ایک ہاؤس وائف پلس ورکنگ وومن ہیں۔مگر ہم ان کی غیر موجودگی میں ان سے بھی زیادہ شفیق، مہربان اور ذمہ دار ہاتھوں میں تھے۔ میری پیاری نانی جان رحمت بی بی جن کو سب کی طرح ہم بھی اماں ہی کہتے تھے، کسی باڈی گارڈ سے کم نہ تھیں، وہ ہماری وکیل بھی خود تھیں اور قاضی بھی۔الغرض ہماری تربیت کے لیے کوئی بھی سختی کرنے کے کاپی رائٹس صرف اماں جان کو ہی حاصل تھے۔ہمارے والدین کو بھی ان کی موجودگی میں ہم پر کسی قسم کی سختی کی اجازت نہ تھی۔

ہمارے گھر آنے پر  وہ ہمیں فریش ہوتے ساتھ  ہی کھانا کھلاتیں اور پھر پاس بٹھا کر پوچھتیں کہ سکول میں کیا پڑھا،کیا کچھ سیکھا، کون کون سی ٹیچر آئی کس نے کیا پڑھایا ،ان کو سبق سناتے سناتے ہم یاد بھی کر لیتے تھے۔ وہ یہ بھی دریافت کرتی تھیں کہ کسی نے ہمیں مارا تو نہیں،اگر کسی نے ڈانٹا ہو تو بھی بتاؤ؟ الغرض اس پیار پیار سے وہ ہمارے سکول والوں کی اور ہماری مکمل روداد جان جاتی تھیں۔سب کلاس فیلوش مجھے اس لیے کچھ کہنے کی جرات بھی نہ رکھتے تھے کہ ان کی اماں سکول میں شکایت لے کر آجائیں گی اور تو اور ہمارے والدین سے بھی ملنے میں دیر نہیں کریں گی۔ہم ان کی اجازت سے ہی ٹی وی دیکھتے تھے، کھیلتے تھے،اندر باہر آتے جاتے تھے اور ان کے حکم پر رات نو بجے ہمیں ہر حال  میں سونا ہوتا تھا۔

مگر ہر کوئی اتنا خوش نصیب نہیں ہوتا کہ اس کو دودو مائیں ملیں اور ان کی زندگی مکمل نگرانی میں ہو یا ان کے نگران در حقیقت اپنے فرائض درست انداز میں  نبھا رہے ہوں۔جب خاندانی نظام میں تبدیلیاں آئیں تو جاب کرنے والی خواتین اوران کے بچوں کو بھی نگہداشت کے مسائل درپیش آنے لگے۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے مغربی پروڈکٹ ڈے کیئر سینٹر ز متعارف ہوئی۔ والدین نے ان سے استفادہ حاصل کرنا شروع کر دیا مگر یہ استفادہ ان کو کس حد تک حاصل ہوا یہ ایک الگ سوال ہے اور میرا آج کا موضوع بھی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

چونکہ یہ مغرب کی ایجاد ہے تو آغازبھی وہیں سے کرتے ہیں۔
13مارچ 2016 میں ایک مغربی خاتون نے اپنے ڈے کیئر سینٹر میں پانچ ماہ کی  نوکری  کی روداد کچھ اس طرح بیان کی کہ۔۔مجھے پا نچ ماہ ایک ڈے کیئر سینٹر کے بے بی روم میں نوکری کرنے کا اتفاق ہوا۔یقین کیجیے کہ میں نے وہاں منافقت کی انتہا دیکھی۔ جب مائیں روتا بچہ تھما کر جاتیں تو سب اس کو پیار کرتے خاموش کروانے کے لیے جی جان لگاتے، جیسے ہی ماں کی گاڑی نظروں سے اوجھل ہوتی بچے کو نیچے رکھ دیا جاتا یا جھولے میں ڈال دیا جاتا ،اب چاہے تو وہ روتا رہے یا چپ ہو جائے اس کی مرضی۔بچہ جتنا چاہے سوتا رہے کوئی نہیں اٹھائے گا ان کو زبردستی اور جلدی جلدی کھانا کھانے پر مجبور کیا جاتا چاہے ان کو قے ہی کیوں نہ آجائے۔بچوں کے ڈائپرز  نہیں بدلے جاتے تھے نہایت سرد مہر اسٹاف تھا،حتی کہ روتے ہوئے بچے کو چپ کروانے کے لیے کھیلتے ہوئے بچے کے ہاتھ سے کھلونے چھینے جاتے۔والدین کے آنے سے دس منٹ پہلے بچوں کو صاف کیا جاتا، ڈائپر بدلا جاتا اورپیار جتا تے ہوئے بچوں کو ماں باپ کے حوالے کر دیا جاتا۔آخر میں یہ خاتون بچوں کو ڈے کیئر سینٹر ز کی بجائے رشتہ داروں کے حوالے کرنے کی تاکید کرتی ہیں۔
23جون2016 میں kiddie land ڈے کیئر سینٹر اور پری سکول Meridianvilleکی ویڈیو منظر عام پر آئی جہاں میڈ بچوں کو نہایت ہی درشت انداز  میں سنبھال رہی تھیں۔اسی سال 25نومبر کو منظر عام پر آنے والی ویڈیو نے سب کے دل پسیج دیے جب نئی ممبئی کے علاقہ کھاگھر میں پوروا نامی ڈے کیئر سینٹر میں دس ماہ کی بچی کو میڈ نے پٹخ پٹخ کر زمین پر مارا، اسے گھوسے مارے اور پاؤں سے بھی دھکیلا۔ماں نے بچی کی آنکھ کے قریب ناخن کا نشان دیکھا اور چہرے پر بھی کئی نشانات دیکھے ،بچی بیہوشی کی کیفیت میں تھی۔ ماں اس کے بخار کے سبب اسے ڈاکٹر کے پاس لے گئی جہاں انکشاف ہوا کہ بچی کی کھوپڑی میں فریکچر ہے اور اندرونی چوٹ آئی ہے۔والدین نے جب پولیس کو اطلاع دی اور سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھی گئی تو فوراً ادارے کے خلاف ایف۔آئی ۔آر کاٹی گئی۔بعد ازاں میڈ کا دوسرے بچوں کے ساتھ بھی ایسے سلوک کا انکشاف ہوا۔
ابھی حال ہی میں پاکستان پی۔آئی۔اے کے ڈے کیئر سینٹر کی ویڈیو منظر عام پر آئی ،جسے ایک سال پرانا قرار دیا گیا۔کیا ایک سال پرانا ہونے پر جرم کم ہوجاتا ہے؟ اور الٹا پی۔ آئی۔ اے ترجمان نے ویڈیو وائرل کرنے والی خاتون کے خلاف کاروائی کرنے کا بیان جاری کر دیا کہ اس خاتون نے ادارے کی ساکھ  کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔پی۔ آئی۔ اے ترجمان کا مزید کہنا ہے کہ ان میڈزکو نکال دیا گیا تھا اور ان ڈے کیئر سینٹرز میں سی۔سی۔ٹی۔وی کیمراز نصب کر د یے گئے ہیں جن کی رسائی والدین تک ہوگی۔۔
6 جنوری2018کو 92 نیوز  کے ایک  پروگرام اندھیر نگری میں ایک اور دلخراش واقعہ منظرعام پر آیا جہاں شیخ زاہدکے ڈے کیئر سینٹر میں دو سال کی بچی کا میڈ کے ہاتھوں جنسی و جسمانی استحصال بے نقاب کیا گیا ،اس کے علاوہ وہاں بچوں کو ٹھنڈے فرش پر لٹایا جاتا اور مارا پیٹا بھی جاتا۔اس کیس کی ایف۔ آئی۔آر ایوبیہ مارکیٹ مسلم ٹاؤن تھانہ میں تب کاٹی گئی جب بچی اپنی زبان سے اپنی آپ بیتی سنانے کے قابل ہوئی۔ آپ اس کی تفصیلات یوٹیوب پر سرچ کر سکتے ہیں۔
ڈے کیئر سینٹر کا مقصد بچوں کو تحفظ فراہم کرنا اور ایسی توجہ بھرا ماحول دینا ہے جہاں مائیں اپنے بچوں کو چھوڑ کر تسلی سے اپنے کاموں پر جا سکیں۔اس کے علاوہ بچوں کی جذباتی،ذہنی اور سماجی نشوونما میں مثبت کردار ادا کرنا ہے۔ والدین جوملازمت کی وجہ سے اپنے جگر گوشوں کو ڈے کیئر سینٹرز میں چھوڑنے پر مجبور ہیں، ڈے کیئر سینٹر کا انتخاب نہایت ذمہ داری سے کریں۔اور جہاں والدین کو سی۔سی۔ٹی وی تک رسائی ہو وہیں اپنے بچے کو چھوڑ کر جائیں۔ کیونکہ یہی بچوں کی خود ارادی کے بڑھنے گھٹنے یا احساس محرومی پیدا ہونے کا دور ہے۔اگر اسی دور میں بچوں کا کسی بھی نوعیت کا استحصال ماں باپ کی عدم توجہی کی وجہ سے ہوتا ہے تو بچے تمام عمر اس کا ذمہ دار ماں باپ کو ہی ٹھہراتے ہیں۔بچہ تمام عمر اس وحشت زدہ دور کے زیرِاثر گزار دیتا ہے۔اگر آپ نے اپنے بچے کو توجہ نہ دی ان کو اہم نہ سمجھا اور اس کو سمجھنے میں دیر کر دی تو آپ اس کو ہمیشہ کے لیے کھو بھی سکتے ہیں۔
اول تو قریبی یا خونی رشتہ داروں کو بچے  کی ذمہ داری اٹھا لینی چاہیے اگر کسی صورت ایسا ممکن نہیں تو ہی نہایت ذمہ داری سے ڈے کیئر سینٹر کا انتخاب کرنا چاہیے۔اس سے بھی بہترین حل یہ ہے کہ ہر اسادارے کا اپنا ڈے کیئر سینٹر ہونا چاہیے جہاں خواتین کام کرنے جاتی ہیں جہاں کے سی۔سی۔ٹی وی فوٹیج تک ہر ماں کو رسائی ہو، علاوہ ازیں ان کو وقتا ًفوقتاً بچوں کے پاس خود بھی جانے کی اجازت ہونی چاہیے،ان اوقات کا تعین ادارہ خود کرے تاکہ ہر وقت کوئی نہ  کوئی ماں ادھر موجود رہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply