اِک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا۔۔ظریف بلوچ

صبج جب نیند سے بیدار ہوا تو حسب ِ معمول موبائل کو ٹٹول کر دیکھا کہ گزری ہوئی رات میں کیا کیا  بیت گیا، ابھی مہروان کی ماں نے چائے کا کپ بھی نہیں لایا تھا کہ پہلی نظر کسی دوست کے وٹس ایپ اسٹیٹس پر پڑی، جہاں یہی معلوم ہوا کہ فقیر داس اب ہم میں   نہیں رہے۔

داس کی جدائی کا سن کر میرے ذہن میں سب پرانی  یادیں ایک بار پھر کسی  فلم کی    طرح گردش کرنے لگیں ، جب ہم گاؤں سے پسنی شہر منتقل ہوئے تو آٹھویں جماعت کے بعد میں نے بھی اپنے دوسرے ہم عصروں کے ساتھ گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول میں داخلہ لیا، کیونکہ اس وقت گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول پسنی کا واحد تعلیمی ادارہ تھا جہاں میٹرک تک تعلیم میسر تھی۔ جہاں مجھ جیسے نکمے طالب علم کو فقیر داس صاحب کی شاگردی نصیب ہوئی اور ہم اُن   کے گرویدہ ہوکر رہ گئے۔ہم اپنی  مادری زبان بلوچی سے ناواقف تھے اور داس صاحب ہمیں انگریزی پڑھاتے تھے۔ اور آج تک یہ انگریزی میری سمجھ سے باہر ہے۔ داس صاحب کو انگریزی اور اردو پر کافی گرفت حاصل تھی ۔ یہ استادوں کا پیار تھا کہ نویں جماعت کے ایگزام میں مجھے کلاس میں دوسری پوزیشن ملی( کیونکہ اس زمانے میں صرف دسویں کے ایگزام بورڈ لیتا تھا)۔

پھر دسویں جماعت میں فقیر داس  صاحب ہمارے  انچارج تھے، اور اردو پڑھاتے تھے۔ ہم بچے پتہ نہیں کیا پڑھتے تھے مگر مجھے اتنا اچھی طرح یاد ہے کہ  داس صاحب ہمیں اپنے بچوں کی طرح شفقت سے پڑھاتے۔

ہم میٹرک کے بعد سکول سے فارغ ہوئے اور زندگی کی گاڑی کو دھکا دیتے رہے، داس صاحب کو علم سے عشق تھا اور ہمارے  بعد بھی آنے والے سینکڑوں طلبا داس صاحب سے سیکھتے  رہے  ۔۔ پڑھ کر سیکھنے والے،عملی زندگیوں میں داخل ہوکر مصروف ہوگئے۔ہم بھی یہی سوچتے رہے کہ زندگی رہی  تو سب سے  پھر ملیں گے۔ کسی کو کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ کون پہلے  ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہم سے بچھڑ جائے گا،کیونکہ ہر ایک اس عارضی دنیا میں اپنے طور پر ایک بہتر مستقبل کے خواب کی تمنا لیکر جینے کی کوشش جاری رکھے ہوئے  ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک ہی شہر میں رہتے ہوئے داس صاحب کا دیدار ہوتا رہا کبھی کسی پروگرام میں کبھی شہر کے کسی کونے میں ۔۔ ڈیڑھ سال پہلے جب داس صاحب گورنمنٹ ہائی سکول مستانی ریک بازار میں بطور ہیڈماسٹر  اپنی خدمات سرانجام دے رہے تھے، تو ایک سیمینار میں شرکت اور خطاب کرنے کے لئے مجھے داس صاحب کے سکول میں جانا نصیب ہوا۔ داس صاحب نے سکول میں ایک بہتر ماحول قائم کیا تھا اور سکول کا نظم و نسق بہتر انداز میں چلا رہے تھے۔اسی روز مجھے اپنے استاد سے کھل کر گفتگو کرنے کا موقع ملا اور ہم کافی دیر تک پسنی میں تعلیم کے حوالے سے بات کرتے رہے اور داس صاحب ایک پڑھا لکھا پسنی دیکھنے کے خواہش مند تھے ۔ داس صاحب خود تو اس دنیا سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چلے گئے مگر انکے ہزاروں شاگرد اس شہر میں موجود ہیں اور مختلف شعبوں سے وابستہ ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply