مکالمہ اور بے جا معترضین

انیسویں صدی کے آخری عشرے کے دوسرے نصف کے بالکل آخر میں ایک بحث بڑی شد و مد سے چلتی تھی جسے ہم اپنے بچپنے کی وجہ سے فقط روزن اور درز سمجھتے تھے بعد میں پتہ چلا کہ وہ تو ایک ایسی دراڑ اور خلیج ہے جسے ابھی تک ہم لوگ پاٹ سکے نہ عبور کر سکے۔ اس وقت یہ بحث ملا اور مسٹر کے نام سے چلتی تھی ۔جدید زمانے کے چلن نے اب اس بحث کو جدت پسند اور شدت پسند کا جامہ پہنا کر مزید دوریاں پیدا کر دی ہیں ۔پرامن بقائے باہمی کے لیے جہاں اسلام نے ، رواداری ، ایثار، قربانی، ودیگر اوصاف حمیدہ کی تعلیمات دی، وہی مواخات مدینہ کا عملی نمونہ بھی پیش کیا جو ہنوز کوئی بھی ازم ابھی تک پیش کرنے سے نہ صرف قاصر ہے بلکہ آئندہ بھی پیش کرنے سے تہی دامن ہے اور من جملہ انہی اوصاف حمیدہ میں سے ایک وصف جس کا احتیاج آج کل اور بھی شدت سے ناگزیر ہے وہ ہے “مکالمہ”۔
ختم قرآن کے موقع پر ایک بڑے مولوی صاحب تقریر فرما رہے تھے کہ اچانک جوش خطابت یا مجمع کو گھیرنے واسطے کہنے لگے قیامت کے دن جب کوئی ڈاکٹر یا انجینیر آقا علیہ السلام کے سامنے آئے گا تو آقا ان سے منہ موڑ لیں گے اور اسی حافظ قرآن کو گلے لگائیں گے کہ یہ میرا غلام ہے، خدا شاہد ہے یہ بات سن کر فوراً ساتھ بیٹھے دوست کے سامنے احتجاج کیا کہ بلا شبہ حافظ قرآن کے فضائل واخروی مراتب سے انکار قطعی نہیں لیکن اس میں غیر حافظ اور خصوصاً ڈاکٹر انجینیر کو رگید نا ،کہاں کا انصاف ہے۔ کیا نبی کی امت فقط قرآن سیکھنے سکھانے والے ہیں بس باقی سب! کیا نبی آخر الزماں رحمۃ للعالمین نہیں تھے! کیا وہ فقط رحمت مدرسے والوں کے لیے ہیں!
ہمارا المیہ یہی ہے کہ کسی ایک چیز کی تعریف و توصیف میں دیگر اشیاء کو رگڑ دیتے ہیں۔ میں یہ نہیں مان سکتا کہ خوبصورتی آنکھ میں ہوتی ہے بلکہ منظر کی خوبصورتی یا بد صورتی اصل ہے اور بقول حافظ صاحب کے ہماری آنکھ اچھائی دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں وگرنہ مکالمہ کانفرنس کراچی کے آغاز میں تلاوت کلام اور اس کے بعد میری حمد باری تعالی ٰسب کو نظر آتی ،لیکن نہیں وہاں تو صرف شاد کا تھری پیس ہی سبھی کی آنکھوں کا شہتیر بنا ہوا تھا ۔سوال یہ ہے کہ کیا ہم ایک دوسرے کو بیٹھ کر سننے کے حق سے بھی محروم ہیں؟ یا مجھ سمیت جو جو مولوی اس کانفرنس میں شریک تھے کیا ہم سبھی آپ کے تازیانہ کافر شود کی زد میں آگئے؟ اگر آپ کا حسن کرشمہ ساز کہتا ہے کہ ہاں تو پھر یاد رکھیں غیروں کو اپنے پاس بلانا تو کجا آپ کا یہی رویہ اپنوں کو دور کرنے کا سبب ہے اور بنے گا ۔اور جیسا کہ میں دیکھ بھی رہا ہوں کہ اپنے ہی گراتے ہیں “پینٹ شرٹ”پہ بجلیاں شاد نے اپنا گلہ بارگاہ رسالت میں پیش کردیا ہے ۔
تصلب کا ادھورا شکوہ بحضور سید کونین از عبد عاصی شاد مردانوی
میں عرضِ ذاتِ المناک لے کے آیا
تمہارے در سے مگر مجھ کو روکا جاتا ہے
میں اک فسردہ و ٹھکرایا امتی جس کو
جلایا جاتا ہے گاہے ستایا جاتا ہے

یہ جبہ اور یہ دستار، یہ عبا والے
تمہارا نام ہی لیکر کماں بدست ہوئے
قرآں سناتے تھے، دشنام اب سناتے ہیں
بلند و بالا تھے لیکن یہ آج پست ہوئے

Advertisements
julia rana solicitors

میں کہنے آیا ہوں آقا جو مجھ پہ بیتی ہے
تمہیں خبر بھی ہے آقا جو رسمِ گیتی ہے
یہ کہہ رہے ہیں کہ تم راہ سے بھٹکتے ہو
کھٹک رہی ہے تری بات، تم کھٹکتے ہو

Facebook Comments

معراج دوحہ
طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply