• صفحہ اول
  • /
  • مشق سخن
  • /
  • حیدرآباد میں خدمت کا ایک استعارہ ایشین انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس

حیدرآباد میں خدمت کا ایک استعارہ ایشین انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس

کچھ چیزیں وقت اور عمر سے پہلے ہی خود میں نکھار پیدا کرلیتی ہیں۔اس نکھار کوچار چاند لگانے میں ضرور کہیں نہ کہیں انسانوں کا عمل دخل ہوتا ہے۔کوئی بھی چیز اس وقت تک خود کو نہیں منواسکتی یا خود کو متعارف نہیں کراسکتی جب تک کسی انسان کا عمل دخل نہ ہو۔اور یہ بھی اک انسان کا ہی بڑاپن ہے کہ وہ چیزوں کو، اداروں کو اپنی محنت لگن اور جدوجہد سے انھیں مزید بلند کرتا ہے۔اکثر اوقات یہ بلندی اور تیزی سالوں پر نہیں بلکہ پلک جھپکنے پر محیط ہوتی ہے۔کہنے کا مقصد ہے کہ اگر انسان کے حوصلے بلند ہوں تو صدیوں پر محیط کام لمحوںمیں نمٹا دیئے جاتے ہیں۔لیکن ان کاموں کے پیچھے ایک بلند حوصلے کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔
آج اسی محنت اور حوصلے کی ہی کاوش ہے کہ سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں ایشین انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس کے نام سے ایک ادا رہ 2011 میں وجود میں آیا اور اس نے اپنی کم ہی مدت میں وہ کارنامہ ہائے انجام دیئے ۔جسے برسوں یاد رکھا جائے گا۔اس ادارے نے خود کوبحیثیت ہسپتال متعارف کروایا۔یہ ہسپتال شہر سے دور ایک وسیع وعریض علاقے میں واقع ہے جہاں لوگوں کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔یہ سندھ کا واحدپرائیویٹ ہسپتال ہے۔جو ہیپاٹائٹس بی سی کے حوالے سے اپنی ایک الگ شناخت رکھتا ہے۔اس ہسپتال میں روزانہ 300 کے لگ بھگ مریضوں کا معائنہ کیا جاتا ہے۔جس میں اکثریت ہیپاٹائٹس بی سی کے مریضوں کی ہوتی ہے۔اگر اس تعداد کو دیکھا جائے تو یہ تمام ہسپتالوں سے زیادہ ہے۔اس ادارے نے جہاں مریضوں کو علاج معالجے کی سہولت دی ۔وہیں اس ادرے نے سندھ کے لوگوں میں یہ شعور بھی اجاگر کیا کہ اس بیماری سے کیسے بچا جائے؟اور اس سے بچنے کی تدابیر کیا ہے؟اور یہ کس صورت میں نقصان دہ ہے؟اور یہ کب کیونکر نقصان پہنچا سکتی ہے؟اس ادارے نے جہاں لوگوں میں یہ شعور اجاگر کیا ،وہیں اس ادارے کی اور بھی بہت ساری کاوشیں ہیں جنھیں فراموش نہیں کیا جا سکتا۔اس ادارے نے جہاں مریضوں کی خدمت کی۔وہیں ڈاکٹروں کی ایک بہت بڑی کھیپ بھی تیار کی۔اور ان ڈاکٹروں نے اپنے علاقوں میں جاکر لوگوں کی خدمت کا بیڑا اٹھایا اور مریضوں کی خدمت کی۔بیشک اس میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ اس کا سہرا ڈاکٹر صادق میمن کے سر جاتا ہے۔جنہوں نے بہت ہی کم وقت میں اس ادارے کو ان اداروں کے مقابل لا کھڑا کیا۔جس کی ایک دنیا معترف ہے۔
پروفیسرڈاکٹر صادق میمن سندھ میں کسی تعارف کے محتاج نہیں۔
اگر یوں کہا جائے کہ ایشین انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس ڈاکٹر صادق میمن کے بغیر ایک بےجان عمارت ہے تو غلط نہ ہوگا۔یہ بھی صادق صاحب کی ہی کاوش ہے کہ انھوں نےاس ادارے کووہ مقام دیا جو خال خال ہی کسی کے حصے میں آتا ہے۔پروفیسر ڈاکٹرصادق میمن کی شخصیت میں بلا کا سحر ہے۔وہ بہت جلد لوگوں کو اپنا گرویدہ کر لیتےہیں۔یہ صلاحیت بھی کسی کسی میں پائی جاتی ہے۔ڈاکٹر صاحب نے اپنی خداداد صلاحیتوں سے اس بیماری کے خلاف ایسی مہم چلائی کہ اپنے تو اپنے غیر بھی اس مہم میں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ شریک سفر ہوگئے۔پاکستان جیسے ملک میں خصوصاًسندھ میں یہ کام اتنا آسان نہ تھا کہ ایک ڈاکٹر دوردراز علاقوں میں جاکر لوگوں میں شعور اجاگر کرے کہ اس جان لیوا بیماری کا مقابلہ کیسے کرنا ہے؟ اور اس کے بچاو کی تدابیر کیا ہیں؟لیکن یہ بھی ڈاکٹر صاحب کا بڑاپن تھا کہ انھوں نے ان سخت حالات میں بھی سندھ کے لوگوں کو تنہا نہ چھوڑا۔جب سندھ میں ہر طرف ڈاکوؤں کا راج تھا اور خاص کر ڈاکٹرز حضرات بہت ڈرے ہوئے تھے جہاں ہر تھوڑے دن بعد کسی نہ کسی ڈاکٹر کو اغوا کرلیا جاتا تھا۔اس وقت بھی ڈاکٹر صاحب ہمت نہ ہارے ۔یہ بھی ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کا ہی کمال ہے کہ انھوں نے ہمیشہ اپنے ڈاکٹر ساتھیوں کو اپنے ساتھ جوڑے رکھا ۔جن میں قابل ذکر نام ڈاکٹر عامرغوری کا ہے ۔جو کسی تعارف کے محتاج نہیں جو ابھی تک ڈاکٹر صاحب کے ساتھ شریک سفر ہیں۔اور ادارے کو اپنی خدمات وقف کر رکھی ہیں ان ہی ناموں میں کچھ قابل ذکر نام اور بھی ہیں۔ڈاکٹر علی اکبر صدیقی صاحب۔ڈاکٹر اکبر میمن صاحب ۔ڈاکٹر آصف برنی صاحب ۔ڈاکٹر فدا حسین شیخ صاحب۔اور ایسے کئی قابل ذکر نام ہیں۔جنھیں صادق صاحب اپنے ساتھ لیکر چلتے ہیں۔اس ادارے کو ترقی دینے میں جہاں صادق صاحب کی کاوشیں ہیں۔وہیں اس ادرے کو بنانے کا سہرا فرحان عباسی کے سر ہے فرحان عباسی وہ شخصیت ہے جس نے اپنی تمام تر توانائی اس ادارے میں لگادیں۔۔اس ادارے کو اگر فرحان صاحب کے خوابوں کا مظہر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔اس ادارے کو کھولنے کا مقصد پیسہ کمانا یا لالچ نہیں تھی بلکہ وہ خدمت تھی جو صادق صاحب ایک خواب سجا کر بیٹھے تھے کہ صرف اور صرف خدمت۔اور الحمداللہ ادارہ بننے کے بعد بہت کم وقت میں لوگوں کی وہ خدمت کی کہ آج بھی لوگ اس ادارے کو دعاوں میں یاد رکھتے ہیں۔اس وقت یہ ادارہ بیک وقت کافی ساری سہولتیں دے رہا ہے۔یہاں خون کی الٹیوں کا ہنگامی مرکز بھی ہے جہاں بروقت طبی امداد دے کر مریض کی زندگی کو بچایا جاسکتا ہے۔یہ سہولت چوبیس گھنٹے موجود ہے جہاں بروقت اینڈوسکوپی کر کے مریض کو بچایا جاسکتا ہے۔اس کے علاوہ یہ ادارہ گلے کے کینسر کا بھی علاج کرتا ہے ۔جہاں مریض کو خوراک کی نالی میں لوہے کی ایک لچکدار جالی ڈال دی جاتی ہے جس کے ذریعے سے وہ اپنی بقیہ زندگی سکون سے گزارتا ہے۔یاد رکھیں اس جالی سے کینسر کا علاج ممکن نہیں ۔یہ صرف بقیہ زندگی کو سہل بنا دیتا ہے تاکہ کھانے پینے میں کوئی رکاوٹ نہ بنے۔اس ادارے میں پیٹ کا پانی نکالنے کی بھی سہولت موجود ہے۔اس کے علاوہ اس ادارے میں جگر کا کینسر اور چھوٹی آنت کے کینسر کا بھی علاج کیا جاتا ہے اس بیماری میں بھی وہ ہی طریقہ کار ہے یعنی لوہے کا جال۔جسے ڈوڈینل اسٹینٹ کہا جاتا ہے جسے چھوٹی آنت میں لگایا جاتا ہے۔اس کے علاوہ سی بی ڈی اسٹینٹ جسے جگر کے کینسر میں مبتلا مریض کو ڈالا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ یہاں نارمل اینڈوسکوپی بھی کی جاتی ہے ،جہاں بروقت تشخیص کے ذریعے علاج معالجہ کیا جاتا ہے۔یہاں بڑی آنت کا علاج بھی بذریعہ اینڈوسکوپی کیا جاتا ہے۔یہاں بواسیر ۔یعنی پائلز کا علاج بھی بذریعہ اینڈوسکوپی کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ چھوٹے بچوں کے بڑے پیشاب میں یعنی پاخانے میں خون کی شکایت ہونا ۔اس بیماری کو میڈیکل زبان میں پولپ کہتے ہیں۔یہ ایک دانے کی شکل کا ہوتا ہے جو اکثر چھوٹے بچوں میں پایا جاتا ہے ۔اس کا علاج بھی اینڈوسکوپی کے ذریعے ہی کیا جاتا ہے۔یہاں اینڈوسکوپی کے ذریعے فارن باڈی بھی کی جاتی ہے۔یعنی کوئی بھی باہر کی چیز مثلاً سکہ۔ سوئی ۔ہڈی ۔بوٹی۔سیل۔چھالیہ۔ان سب چیزوں کو بھی بذریعہ اینڈوسکوپی نکال باہر کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ یہ وہ واحد ادارہ ہے حیدرآباد میں جس نے ابھی حال ہی میں برونکواسکوپی کا بھی آغاز کیا ہے۔جہاں بذریعہ برونکواسکوپی سینہ پھیپھڑا اور سانس کی نالی کا علاج کیا جاتا ہے۔۔اس کے علاوہ اس ادارے نے آپریشن تھیٹر کا آغاز بھی کردیا ہے ۔کافی سارے لوگ گردے کی پتھری اور مثانے کی پتھری کا علاج کرواکر شفایاب ہو چکے ہیں۔جہاں یہ ادارہ بہت ساری سہولیات مریض کو دے رہا ہے۔وہیں اس ادارے کی سب سے خاص بات مریض کو بہت کم پیسوں میں اچھا علاج معالجہ فراہم کرنا۔اس ادارے کو جو فنڈز بھی دیئے جاتے ہیں۔ وہ بہت ہی خوش اسلوبی سے مریض کے علاج معالجے پر خرچ کر دیئے جاتے ہیں۔

Facebook Comments

Khatak
مجھے لوگوں کو اپنی تعلیم سے متاثر نہیں کرنا بلکہ اپنے اخلاق اور اپنے روشن افکار سے لوگوں کے دل میں گھر کرنا ہے ۔یہ ہے سب سے بڑی خدمت۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply