قیام امام حسین پر سوالیہ نشان ۔۔۔۔ ارشد زمان

کئی حضرات یہ ثابت کرنےاور دوسروں سے تسلیم کرانے پہ تلے ہوئے ہیں کہ حکمران جو بھی ہے اور جس طرح کا بھی ہے، ہر حالت میں اس کی”اطاعت” فرض ہے اور انھیں ہٹانے اور تبدیل کرانے کی کوئی سوچ بھی خروج کے زمرے میں آتی ہے جو ان کے نزدیک “حرام “ہے۔ تاہم اصل مسلۂ ان کا اسلام کے نفاذ سے شدید تر اختلاف کا ہے۔ ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اسلام نفاذ کا نھی بلکہ “نفوذ” کاطلب گار ہے۔ اس لئے اسلام کے نفاذ یا اقامت دین کا تصور ہی درست نھیں ہے۔

آج امام حسین رض کی جدوجہد پہ سوالیہ نشان اسی سوچ اور فکر نے لاکھڑا کیا ہے۔۔۔۔ خروج کے حرام اور حلال کی بحث کا پس منظر یہی ہے۔ ایک محترم نے لکھا ہے کہ “فساق وفجارکے ہاتھوں اقتدا لیکر دیانت دار قیادت کے حوالہ کرنے کو شہادت حق کا فریضہ سمجھ لینا نوآبادیاتی نظام کے خلاف ردعمل کے طورپر جنم لینے والی اسلامسٹ فکر کےحامیوں کا تصور ہے___ اور بڑے بڑے صحابہ سے لیکر آئمہ تک اس سیاسی کشمکش سے دوررہ کر دعوت وارشاد کے کام میں مصروف رہے۔ اس میں خاص طور پرانهوں نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ کے نام لیے ہیں ۔

ہمارے نزدیک ایشو خروج کے حلال اور حرام کا نھیں بلکہ اقامت دین کی جدوجہد کا ہے۔ خروج اگر بالفرض لازمی بھی ٹھہرے تو یہ تو اس جدوجہد کا انتہائی اقدام یا ایک راستہ و ذریعہ ہے جس کی شرائط، آداب اور نزاکتوں پہ بات ہوسکتی ہے اور بہت طویل بحثیں ہو بھی چکی ہیں مگر اصل سوال تویہی ہے کہ کیا کسی بھی قسم کی حکومت اور حکمران کی اطاعت بہر صورت فرض ہے؟ کیا اس طرح کی (فاسق، فاجر، دین سے منحرف اور اسلامی طرز حکومت کے مخالف اور باغی ) حکومت و حکمرانوں کے خلاف کسی بھی قسم کیجدو جہد ناروا ہے؟ کیا حکومت الہیہ، نفاذ اسلام اور اقامت دین کیلئے جدوجہد مسلمانوں کےلئےضروری نھیں؟

ہمیں تو تعجب ہوا کہ ایسے صاحب علم حضرات بھی نہ صرف فاسقین کی جگہ صالحین کو قیادت حوالہ کرنا محض سیاسی محاذ آرائی سے تعبیر کرتے ہیں بلکہ اج کل کی کوئی نئی فکر بهی گردانتے ہیں ____! یہاں تو بنیادی سوالات اٹهتے ہیں __ اگرصالحین کی اقتدار تک رسائی محض سیاسی کشمکش اور اقتدار کا کهیل ہے تو پهر ___اسلامی ریاست، حکومت الہیہ اور اقامت دین کے کیا معنی __؟ قرآنی ایات_:__ دین کے قیام کا حکم__ ان اقیم الدین__ بعثت نبوی صل اللہ علیہ و کا بنیادی مقصد __”دین اسلام کو تمام ادیان پر غالب کرنا”لیظهرہ علی الدین کلہ”اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر ____کا فلسفہ آخر ہے کیا ___؟ کیا یہ سب کچھ صالح قیادت کے بغیر ممکن ہے ___؟ اور یہ جدوجہد کیا محض ایک سیاسی کهیل ہے___؟ اور یہ لفظ سیاست اتنا معتوب ہی کیوں __؟ علمائے دین تو سیاست کو دین اسلام کا ایک اہم جز اور شعبہ گردانتے ہیں اور اگراس سیاسی تصور کو نکال باہر کیا جائے تو پهر تو دین اسلام بهی دیگر مذاہب کی طرح محض پوجا پاٹھ کی محدود ایک رسم رہ جاتی ہے ___! جہاں تک صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ودیگر اکابرین کی اس سیاسی کشمکش سےلا تعلقی ہے وہ بھی محل نظر ہے _ یہ بات علمی و تاریخی طور پر درست نہیں ہے کہ کہ صحابہ نے بقول ان کے “نہ اقتدار کے حصول کی کوشش کی اور نہ دوسرے دعویداروں کی حمایت ___ “۔ اگرچہ انهوں نے ذاتی اقتدار نہیں بلکہ اسلامی ریاست کے تصور کے تحت جدوجہد کی ۔

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا فعل اور قربانی نظروں سے کیوں اوجھل ہے؟ امام کےاس اقدام کوکوئی حقارت سے سیاسی یعنی دنیاوی جدوجہد کیسے کہہ سکتا ہے جبکہ انهوں نے تو یہ سب کچھ دینی فریضہ سمجھ کر کیا۔ اس وقت” بکثرت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین زندہ تهے،اورفقہائے تابعین کا تو قریبا سارا گروہ ہی موجود تھا۔ ہماری نگاہ سے کسی صحابی یا تابعی کا یہ قول نہیں گزرا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ ایک فعل حرام کا ارتکاب کرنے جا رہے ہیں اور جنہوں نے روکا تها تو اس بنیاد پر کہ اہل عراق قابل اعتماد نہیں ہیں۔” (سید مودودی رحمہ اللہ )

اس طرح امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا تذکرہ ہے کہ گویا انهوں نے بهی محض تحقیقی و دعوتی کام کرکے زہدوارشاد کی زندگی گزار کر صالح قیادت کو محض ایک سیاسی شغل جانا! کم ازکم ہم تو اسے ان پرایک الزام سے تعبیر کرتےہیں۔ ظالم اور فاسق حکمرانی کے حوالے سے تو باقاعدہ ان کا مستقل مسلک اور نظریہ موجود ہے۔ ان کے نزدیک ظالم کی امامت نہ صرف باطل بلکہ اس کے خلاف خروج واجب ہے۔ ان کے عہد میں جو خروج ہوئے(زید بن علی،محمد بن عبداللہ اور ابراہیم بن عبد اللہ ) انهوں نے نہ صرف اس کی حوصلہ افزائی فرمائی بلکہ ساتھ بهی دیا اور اسے نفلی حج سے ستر گنازیادہ ثواب کا کام قرار دیا۔

اسی طرح اس معاملہ میں امام مالک رحمہ اللہ کا طرز عمل بهی امام ابوحنیفہ سے مختلف نہیں رہا۔  ظالم اور فاسق سے حکمرانی چهین لینا اور صالحین کے حوالہ کرنا تو باقاعدہ اہل سنت و الجماعت کے درمیان ایک مستقل موضوع چلا ارہا ہے۔ اول صدی ہجری کے اختتام تک تو تقریباً خروج ہی پر اتفاق رہا البتہ اس کے بعد دیگر پر امن ذرایع پر اطمینان اور فتاویٰ موجود ہیں لیکن کسی نے بھی خروج کے عمل کو نص کے خلاف نہی گردانا بلکہ نتائج اور عواقب اور دیگر راستوں کی دستیابی کی بنیاد پر ترجیح دیگر ذرائع کو رہی لیکن ہر دو حوالوں سے معاملہ، اختیارات فساق وفجار سے لیکر صالحین کے حوالہ کرنا ہی ہے۔

سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اگر روائتی مذہبی تصور زندگی اختیار کر لیتے، محض اشاعت دین پر اکتفا کر بیٹھتے تو یزید اور ان کے حواریوں کو شاید اتنا بڑا اعتراض نہ ہوتا لیکن جو چیز ان کی نزدیک قابل اعتراض اور خطرناک تھی وہ امام کا تصور دین، ریاست ، حکومت اور سیاست تھا۔ اسلامی خلافت کی اپنی اصل حالت میں بحالی اور اس کا تحفظ تمام تر جدوجہد کا مرکزو محور تھا اوراسی موقف پہ استقامت اور ڈٹ کر کھڑا ہونے نے معرکہ کربلا کو بپا کیا اور امام حسین اور ان کے ساتھیوں نے لازوال قربانییوں کی تاریخ رقم کی۔

اس عظیم جدوجہد اور لازوال قربانی کے آئینے میں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ سنت حسین رض کو زندہ کرنے والوں کی صف میں یا یزیدیت کے علمبرداروں کے لشکر میں؟ ہر دور کے یزید کی محفل میں بیٹھ کر دیتے ہیں لوگ گالیاں گزرے یزید کو! کربلا کے میدان میں بہتے ہوئے عظیم اور پاکیزہ خون کا یہی پیغام ہے کہ
شہ رگ شبیر سے ہے کربلا کی آبرو
عصر حاضر کے یزیدوں کی طرفداری نہ کر

تاریخ کی گواہی ہے اور وقت کا اعلان کہ
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ سوال بھی کوئی نیا نہیں کہ بیک وقت کئی جماعتوں کی جدوجہد کی کیا پوزیشن ہوگی؟ اہل علم کے نزدیک چونکہ حق اور دین غالب نہیں ہے اس لئے کسی ایک جماعت کو “الجماعت “نہیں گردانا جاسکتا اور جو جماعتیں قرآن وسنت کی تعلیمات کے مطابق کسی بهی طریقہ کار کے مطابق جدوجہد کررہی ہیں، وہ ایک دوسرے کی معاون و مددگار ہیں، اختلاف کے باوجود۔ جس کا بهی کسی بھی طریقہ کار پر اطمینان ہے، وہ شہادت حق ہی کا فریضہ انجام دے رہاہے۔ ہمارا خیال ہے کہ حکومت الہیہ کے قیام کی جدوجہد کو محض سیاسی کشمکش اور اقتدار کا حصول گرداننا سیکولر حضرات کی سوچ، فکر فلسفے اور نظریے کو تقویت پہنچانے کے مترادف ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply