متحدہ مجرم ہے۔۔۔ ثقلین مشتاق

کل ایک معاصر سائیٹ پر ایک تحریر کے مطالعہ کا اتفاق ہوا ۔ فاضل دوست نے بہت ہی عمدہ انداز سے متحدہ قومی موومنٹ کے دھرتی ماں سے غداری ، ٹارگٹ کلنگ اور چین کٹنگ کے کارناموں کو محض الزام قرار دیکر مسترد کرنے کے ساتھ متحدہ کو پاکدامنی ، حُب الوطنی اور عوام دوستی کے سرٹیفکیٹ بھی عطا کیا اور کراچی کی عوام کی محرومیوں کا ذمہ دار بھی اسٹبلشمنٹ کو ٹھہرایا ۔اپنی رائے کو تقویت دینے کیلئے مصنف نے مندرجہ ذیل چند سوالات کیے ۔

1 ۔ اگر متحدہ پر الزامات درست ہیں تو لوگ متحدہ کو ووٹ کیوں دیتے ہیں ؟

2 ۔ اگر متحدہ پر الزامات درست ہیں تو مہاجروں کی دل دھڑکن ایم کیوایم ہی کیوں ہے مہاجر قومی موومنٹ اور پاک سر زمین پارٹی اس کی جگہ کیوں نہیں لے سکی ؟

میں تو صرف اتنا عرض کروں گا پہلے کراچی میں الیکشن تھوڑی ہوتا تھاسلیکشن ہوتی تھی ۔ لوگوں کے پولنگ اسٹیشن پر جانے سے پہلے ہی اُن کے ووٹ کاسٹ ہوچکے ہوتے تھے ۔ حیرانگی کی بات یہ ہوتی تھی کہ متحدہ قومی موومنٹ کا امیدوار حلقے میں کُل ووٹوں کی تعداد سے بھی زیادہ ووٹ حاصل کرلیتا تھا ۔ لوگوں کو ڈرا کر ووٹ لینا تو اور بات اُن سے ان کے شناختی کارڈ ہی چھین لیے جاتے تھے اور جو بچارے ان کی بات نہیں مانتے تھے اُن کو کراچی والو کیلئے نشانہ عبرت بنا دیا جاتا ۔ نجانے کتنے ہی اُن معصوم لوگوں کی بوری بند لاشیں سمندر کنارے سے ملیں جن کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ قاٖٖئد تحریک کی تقریر سُننے کیلئے جلسہ گاہ نہ پہنچے۔ یہ تھا خوف اور اس خوف ہی کی وجہ سے لوگ متحدہ کو ووٹ دیتے تھے۔ اس خوف کا اب کا خاتمہ ہوا ہے تو 127-PS کے انتخابات نے یہ بات واضح کردی ہے کہ پہلے سلیکشن ہوتی تھی  اور اب الیکشن۔  یہ بات کہنا قبل از وقت ہے کہ پاک سرزمین پارٹی کو مہاجروں نے مسترد کردیا کیونکہ حال ہی میں مصطفی کمال نے کراچی کی سرزمیں پر کامیاب جلسے کیے ہیں  اور نئی پارٹی کیلیے یہ ایک کامیابی ہی ہے۔

عوام دوستی اور حُب الوطنی میں متحدہ کا کوئی ثانی نہیں ہے ۔ ہندوستان ٹائمز کے سمینار میں قائد تحریک کا خطاب ہو یا 22 اگست کا واقعہ یا پھر امریکہ اور ساوتھ افریقہ میں الطاف صاحب کا بیان، متحدہ کی حُب الوطنی کے اعلی نمونے ہیں ۔ کچھ لوگ سوچیں گے کہ متحدہ اور الطاف کا اب کوئی تعلق نہیں تو پھر متحدہ پر یہ الزامات لگانا درست نہیں ہے۔ اُن حضرات کیلئے عرض ہے کہ یہ واقعات جب ہوئے تب تو الطاف اور متحدہ ایک تھے۔ اگر متحدہ واقعی محب وطن پارٹی ہے تو ہندوستان ٹائمز والے واقعہ پر متحدہ نے الطاف سے کنارہ کشی کیوں نہیں کی ؟ اصل میں متحدہ اورالطاف ایک ہی چیز کے دو نام ہیں اب بھی متحدہ قومی سلامتی کے اداروں کے سامنے مصموم بننے کیلئے مختلف کوششیں کررہی ہے ۔ وہ سیکٹر اور یونین انچارج تو اب بھی متحدہ کا حصہ ہیں جو اینٹی سٹیٹ کاروائیوں کرواتے تھے۔ تو پھر پاکستانی کیسے متحدہ کی حُب الوطنی پر یقین کرے ؟

اگر کوئی دوسرا متحدہ کو ٹارگٹ کلنگ اور کراچی کی بدامنی کا ذمہ دار قرار دہ تو اور بات ہے ۔ لیکن جب متحدہ کا اپنا صولت مرزا، ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل اور وسیم اختر 12 مئی کو کراچی میں خون کی ہولی کھیلنے کا اعتراف کریں تو پھر پنجاب والوں سے کیسا گلہ کیسا شکوہ ؟ تمہیں یا د ہو نہ یا د ہو، مجھے یاد ہے مصطفی عزیز آبادی کا وہ ٹویٹ جس میں موصوف نے پی ایس پی پر امجد صابری کے قتل کا الزام لگایا لیکن مصطفی صاحب کی اپنی پارٹی کے سیکٹر انچارج نے محروم صابری صاحب کے قتل کا اعتراف کرلیا ۔ لوگوں کو قتل بھی کرو اور اپنی مدعیت میں قتل کا مقدمہ بھی درج کروا دو ، قربان جاوْں ایسی سیاست پر، تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو۔

بڑے مصموم ہیں تیرے شہر کے لوگ

قتل کرکے پوچھتے ہیں یہ جنازہ کس کا ہے

اور اب رہی بات کراچی کی محرومیوں کی بات تو اس شہر کو مفلوج کرنے کی ذمہ دار متحدہ خود ہے ۔ فیکٹریوں کو نذر آتش کیا جائے ، دن بھر محنت مزدوری کرنے والوں کو زندہ جلا دیا جائے ، رکشے اور ریڑھی والوں سے اُن کی آمدن سے زیادہ بھتہ لیا جائے ،اپنی سیاست چمکانے کیلئے کراچی میں لسانیت کا خوب پرچار کیا جائے اور نوجوان کو قلم دینے کی بجائے راہزنی ، ٹارگٹ کلنگ ، چین کٹنگ اور بھتہ خوری کے گُر سے آشنا کروایا جائے تو یہ شہر مفلوج نہیں ہوگا تو کیا ہوگیا ؟

اگر یہ تمام کارنامے سرانجام دینے کے بعد متحدہ پاکدامنی ، حُب الوطنی اور عوام دوستی کے سرٹیفکیٹ کی حق دار ہے تو پھر لیاری گینگ ، ٹی ٹی پی اور داعش سے زیادتی کیوں کی جارہی ہے؟ اُن کو بھی پاکدامنی ، حُب الوطنی اور عوام دوستی کا سرٹیفکیٹ دیا جائے اور اُن پر پابندی بھی ختم کی جائے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ کا مصنف کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر کوئی صاحب جواب دینا چاہیں تو مکالمہ کے صفحات حاضر ہیں۔ 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply