حال کچھ موسم کا۔۔عبدالله رحمانی

ملک پاکستان کے بیشتر علاقوں میں اس وقت موسم اپنے تیور بدل رہا ہے۔ بالخصوص میدانی علاقے، جہاں چاروں موسم سال بھر میں آتے ہیں، اب آہستہ آہستہ گرمی کو خیر باد کہہ کر سرما کی چادر اوڑھ رہے ہیں۔ ان علاقوں میں درجۂ حرارت دن میں معتدل اور رات کے اوقات میں قدرے خنک ہو چکا ہے۔ آلات تبرید اب تقریباً بند ہی ہو چکے۔ اور سرمائی پہناوے اور اوڑھنے بھی رفتہ رفتہ طاقوں سے نکالے جا رہے ہیں۔ جب کہ آئندہ وقتوں کیلئے مناسب کھاجوں کی تیاری بھی جاری ہے۔

پہاڑی علاقے، جہاں موسم سال بھر میں بھی گرمی کی حد کو نہیں پہنچتا، اب مزید سرد موسم کا استقبال کر رہے ہیں۔

پسِ تمہید کراچی کا حال بیان کرنا ہے۔

سرِ شام جب سورج اندھیری چادر میں لپٹا آکاش میں چھپ جاتا ہے۔ اسی دم فضا میں خنکی جنم لیتی ہے۔ جو آسمان تلے ہوتا ہے، وہ چھت ڈھونڈتا ہے اور چھت تلے جو ہوتا ہے وہ عافیت کا راستہ برقی ہوا دہندہ بند کرنے میں دیکھتا ہے۔

لیکن عافیت کہاں ملے۔۔

پنکھا بند کرنے کے متصل بعد سوچ شکتی کام چھوڑ دیتی ہے۔ سوچ کا ایک حصہ اس کے بند رکھنے کے لئے پُرزور دلیل بازی کرتا ہے، تو دوسرا فریق اس برقی آلے کی تشغیل پر مُصر رہتا ہے۔

یہ معرکۂ اغلاق و تشغیل (نا صرف درونِ ذہن، بلکہ دو افراد کے درمیان بھی) سرِ شام جو چھڑتا ہے، تو صد ہزار انجم کا اسی میں خون ہو جاتا ہے۔ سحر کے پیچھے جب سورج پورب سے سر اٹھاتا ہے تو فریقین جنگ بندی اس نکتۂ اتفاق پر کرتے ہیں کہ اب اس آلۂ ہوا دہندہ کو چلانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔

اس معرکۂ کارزار کے علاوہ دوسرا محاذ سرمائی اوڑھنے کے حق اور مخالفت میں گرم رہتا ہے اور اس محاذ کی تفصیل کو بھی گذشتہ پر قیاس کیا جائے۔

غروب سے طلوع کے درمیان وقت کو اگر موسم گرما اور سرما کا برزخ یا اعراف کہہ لیا جائے تو اقرب الی الفہم ہوگا، کہ اس دوران مشروب ٹھنڈا مطلوب ہوتا ہے، لیکن نہانے کے واسطے ٹھنڈا پانی دشمنِ جاں گیر لگتا ہے۔

کھلے آسمان تلے جاؤ تو خنکی کا احساس ہو اور چھت تلے ایک گونہ گرمی۔۔۔ اور اس پر خشکی مستزاد، کہ ہونٹ اور جلد جا بجا خشکی سے سفید پڑی ہو اور جلد ہر وقت چاہتِ ناخون میں بضد ہو۔

پورب کی طرف سے روشنی پڑتے ہی جوں جوں ٹکیا بلند ہوتی جاتی ہے، توں توں صحرا کی یاد تازہ ہوتی جاتی ہے۔نصف النہار سے تیسرے پہر تک دھوپ میں نکلنا صحرا نوردی سے کم نہیں ہوتا۔ دھوپ کی شعاعیں تن کے بند بند کو پگھلانے کا کام کرتی ہیں۔

تیسرے پہر کے بعد سورج کی حدت کا زور ٹوٹتے ہی، جب شہرِ آشوب کے باسیوں کے تن  کا درجۂ حرارت نقطۂ اعتدال کی جانب گامزن ہوتا ہے تو اتنے میں حضرتِ شمس پھر سے رداء ظلمت اوڑھ کر غائب ہو جاتے ہیں اور بندگانِ خدا پھر اسی تذبذب اور کشمکش کی کیفیات سے نبرد آزما ہو جاتے ہیں۔

غالباً کراچی کے موسم کی ان بے کل نازوں نے ہی داغ دہلوی سے کہلوایا تھا:

Advertisements
julia rana solicitors london

خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں“

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply