مشترکہ خاندانی نظام:نقصانات کم ہی ہیں ۔۔۔مہنازنعیم

کیا وجہ ہے کہ آج کی نسل مشترکہ خاندانی نظام( جوائنٹ فیملی سسٹم) سے نفرت کرنے کی حد تک بیزار ہے ۔۔ ہم اپنے اردگرد دیکھتے ہیں تو ہر لڑکی شادی کے بعد سسرالی رویوں سے نالاں ہوکر گھر سے الگ ہونےکی بات کررہی ہے۔
ساس سسر اپنے بیٹے سے جدا ہوجانے کے خوف میں مبتلا ہیں۔۔
لڑکی کے والدین رشتہ دیکھتے وقت کم سے کم افراد کی فیملی میں بیٹی بیاہنے کی تمنا کررہے ہیں۔۔
آج کی لڑکی کم سے کم بچے پیدا کرنا چاہ رہی ہے تاکہ کل بہوؤں اور دامادوں کے جھنجھٹ کم ہی دیکھنے کوملیں۔۔
ایسے حالات میں اس وقت جوان ہوتے بیٹوں کی مائیں سب سے زیادہ کنفیوز ہیں۔

ایک وقت تھا کہ بیٹے کا گھر سے الگ ہونا بہت زیادہ برا سمجھا جاتا تھا یہ آج سے تقریباً  بیس سال قبل کی بات ہے۔ ۔ پھر چند سال بعد بیٹے بہو باآسانی الگ ہونے لگے مگر بہرحال ہمارا معاشرہ علیحدہ ہونے کے عمل کو ناپسندیدگی سے دیکھتاتھا۔
مگر اب ناپسندیدگی بھی ختم ہوتی جارہی ہے۔ ۔ سسرال سے الگ ہونا نارمل سمجھا جارہا ہے

یہ تو ہم سب ہی جانتے ہیں کہ بیٹا بہو الگ کیوں ہوناچاہتے ہیں ۔۔
کچھ جگہوں پہ بہو پہ بلاوجہ روک ٹوک بہو کے سونے جاگنے چلنے پھرنے حتی کہ کھانے پینے تک کے طریقے میں کیڑے نکالے جاتے ہیں یہ تک کہہ دیا جاتا جاتاہے کہ ” تم روٹی کا نوالہ ٹھیک سےنہیں توڑتی ہو۔۔”

سسرال میں یہ بھلادیا جاتا ہے کہ شادی سے پہلے بھی بہو کی کوئی زندگی کچھ روٹین تھی اس بیچاری کی اپنی بھی پسند ناپسند تھی۔

اور کچھ جگہوں پہ جہاں بہو پہ روک ٹوک نہیں اپنی مرضی سے سوؤ ،اٹھو جہاں دل چاہے میاں کے ساتھ جاؤ وغیرہ وغیرہ ۔وہاں بہو صاحبہ  ذرا سی ساس نندکے لبوں سے نکلی نارمل بات کا فسانہ بناکر گھر کا ماحول تلخ کردیتی ہیں۔

بہر حال یہ الگ موضوع ہے کہ کس کی غلطی ہوتی ہے۔ ۔
مگر شادی کے شروع کے دو تین سال اصل امتحان ہوتے ہیں لڑکی کے لیے بھی لڑکے کے لیے بھی اور سسرال والوں کے لیے بھی۔ ۔
کیونکہ لڑکی نئے ماحول میں نئے رویوں میں آئی ہے جنہیں اپناتے اپناتے کچھ وقت لگتا ہے مگر اپنانے سے پہلے ہی اس پر ہوئی کڑی تنقید اسے سب سے بدظن کردیتی ہے۔ ۔
سسرال والوں کے لیے بھی بہو کڑی آزمائش کی طرح ہوتی ہے۔ ۔ بیٹے کے وقت پیسے محبت سب کی برابر کی حقدار گھر میں آگئی۔ گھر میں ایک فرد کااضافہ ہوگیا جس کے طور طریقے رہن سہن باتیں اور سوچ بھی سسرال والوں سے جدا ہوتی ہے۔ ۔۔ کام کاج کا طریقہ بھی جدا ہوتا ہے۔ ۔۔ وغیرہ وغیرہ۔

اگر ہم ایک دوسرے کی زندگیوں میں زیادہ دخل اندازی نہ کریں تب باآسانی جوائنٹ فیملی سسٹم چل سکتاہے مگر ایک گھر میں رہ کر ایسا کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ۔

پھر کیا کِیا جائے ؟کیا والدین کو بڑھاپے میں تنہا چھوڑ دینا مناسب ہے۔ ۔ وہ والدین جنہوں نے اپنے حلق کے نوالے ہمیں کھلائے کیا انہیں بزرگی کی حالت میں صرف اس بناپہ بیٹا بیماری میں سسکتا چھوڑدے کہ میری بیوی نہیں رہنا چاہتی ساس سسر کے ساتھ۔۔
نہیں۔ ۔
جب ہماری گود میں ہمارا بیٹا آتا ہے تو اس سے جدا ہونے کاخیال بھی سوہان روح ہوتا ہے۔ ۔۔ یقین کیجیے جتنی محبت آپ اپنی اولاد سے کرتے ہیں اتنی ہی محبت آپ کے والدین آپ سے کرتے ہیں۔ ۔ آپ کے ساس سسر آپ کے شوہر سے کرتے ہیں۔
جتنے پیار سے آج آپ اپنی اولاد کو پال رہے ہیں اتنے ہی پیار سے آپ کے والدین نے آپ کوپالا ہے آپ کے ساس سسر نے آپ کے شوہر کا بچپن میں خیال رکھا ہے۔ ۔
آج اپنے والدین کو تنہا نہ چھوڑیے تاکہ کل آپ بھی اکیلے نہ ہوں۔۔۔

اگر ہم اس طرح جوائنٹ فیملی سسٹم کو ناپسند کرتے رہے تو نہ صرف ہمارے ساس سسر ہمارے والدین بلکہ کل ہم بھی تنہا رہ جائیں گے۔ ۔

ہم کہتے ہیں کہ ہم ایسی ساس نہیں بنیں گے ۔۔ ٹھیک ہے لیکن اگر ہماری بہو کہے مجھے الگ ہونا ہے تو؟

ہمارے پاس اپنے بیٹے بہو کو زبردستی ساتھ رکھنے کا کیا جواز ہوگا کہ اس خاندانی نظام کو کمزور کرنے میں خود ہمارا بھی کچھ نہ کچھ حصہ رہا ہوگا۔ ۔۔

مشترکہ خاندانی نظام کے جہاں ڈھیرسارے نقصانات ہیں وہیں کچھ فوائد بھی ہیں۔ ۔
جوائنٹ فیملی سسٹم میں ہماری پرائیویسی متاثر ہوتی ہے۔ ۔ ہمارے سونے جاگنے کھانے پینے پہ سب کی نگاہ ہوتی ہے۔۔
ہمیں وہ باتیں بھی سننی اور سہنی پڑتی ہیں جو ہم نہیں سننا اور سہنا چاہتے ۔۔
ہمارے بچوں کی ویسی پرورش نہیں ہوپاتی جیسی ہم چاہتے ہیں۔ مداخلت مسلسل مداخلت۔۔
مگر ہمیں کچھ سہولیات بھی میسر ہوتی ہیں۔ ۔

سب سے پہلے گھر کے کرائے کی بچت۔ ۔ بلوں کی ادائیگی میں سب بھائی ملکر حصہ ڈالتے ہیں یوں بل کی بچت۔ ۔ پانی کی موٹر خراب یا بجلی کا کچھ کام تو کبھی کسی بھائی نے کرادیا کبھی کسی نے۔ ۔
اس طرح چھوٹے موٹے کاموں سے پیسوں کی کافی بچت ہوسکتی ہے۔۔
ہمارے بچوں کی پرورش میں ہمارے ساتھ ساتھ پوری فیملی کا حصہ ہوجاتاہے۔ ۔ اوریقین کیجیے اکیلے بچے پالنے سے زیادہ سہولت ہوتی ہے فیملی کے ساتھ۔ ۔خاص  طورسے اس وقت وقت جب بچہ بچہ بہت چھوٹا ہوتا ہے۔
کبھی نند نے بچہ رکھ لیا کبھی جٹھانی کے بچوں نے کھلالیا۔ ۔ کبھی ساس نےسنبھال لیا۔۔
اکیلے بچے کھانے کے چور ہوتے ہیں مگر فیملی کے ساتھ رہنے والے بچے اکثر چچا تایائوں کے بچوں کے ساتھ کچھ نہ کچھ کھانا کھانا سیکھ ہی لیتے ہیں۔ ۔۔۔
بڑی فیملی کے ساتھ رہنے والے بچوں کے اعصاب زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔ ۔۔۔
ایسے بچوں کا واسطہ چونکہ روز ہی مختلف رویوں سے پڑتا ہے تو وہ باہر کی دنیا کو جلد ہی زیادہ آسانی سے سمجھ لیتے ہیں اور باہر کے لوگوں کے مختلف رویوں سے جلد ہی نہیں گھبراتے بلکہ ڈٹ کے مقابلہ کرتے ہیں۔
بڑی فیملی میں رہنے والی لڑکیاں بھی شادی کے بعد ہر لحاظ سے زیادہ تگڑی ثابت ہوتی ہیں۔ ۔۔
اس کے علاوہ بچوں کی بیٹے یا بہو کی ہاری بیماری میں گھر کے دوسرے لوگ بہت مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ ۔۔ اگر شوہر بیوی کو ہاسپٹل لےگیاہے تو پیچھے سے بچوں کے اکیلے ہونے کاڈر نہیں کہ فیملی ہے۔ ۔۔
اگر ساس سسر بزرگ ہیں تو بیٹا والدین کی خدمت کرنے کے لیے قریب ہے۔ ۔

ہمیں جوائنٹ فیملی سسٹم کو بچانےکےلیے اس گھریلو نظام کی خامیوں کو ختم کرکے کچھ بہتری لانےکی ضرورت ہے۔۔
سب سے پہلے   لڑکا یہ تہیہ کرے کہ شادی کے بعد وہ اپنےوالدین بہن بھائیوں اوربیوی کے درمیان توازن قائم رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا۔۔
لڑکی کو یہ سمجھنا ہوگا کہ شادی   کےبعد شوہر  کو اس   کےگھر   والوں سے جدا نہیں کرنا ہے۔۔۔
اور سسرال والوں کو بیٹے بہو کو قدرے آزادی دینی ہوگی۔۔۔ ہروقت اوربلاوجہ کی روک ٹوک اور اورتنقید اس نظام کو توڑپھوڑ کر رکھ دےگی
اگر ہوسکے تو شادی کے فوراً  بعد لڑکی کو  گھر میں ہی الگ پورشن دے دیا جائے اگر الگ پورشن ممکن نہ ہو تو کم ازکم کچن ضرور دے دیاجائے کیونکہ شادی کے بعد گھر کے کام کاج کو لیکر ساس نند کو مسئلہ ہوتا ہے اور گھر کے پکے کھانے کو لیکر بہو کو مسئلہ ہوستاہے کہ یہاں تو یہ پکتا ہے وہ پکتا ہے میں یہ نہیں کھاتی وہ نہیں کھاتی۔۔۔
اور لڑکی کے پکائے کھانوں میں سسرال والے عیب نکالتے ہیں جس سے لڑکی کا دل ٹوٹ جاتاہے ۔۔۔ اور مسئلے مسائل شروع ہوتے ہیں۔۔۔
شادی کے بعد لڑکے کی ایک الگ زندگی الگ  ذمہ داریوں کا آغاز ہوتا ہے لڑکے کے والدین کواس چیز کو جلد ہی قبول کرناہوگا اگر اس خاندانی نظام کو بچاناہے تو بیٹا بہو کی زندگی کو اپنی مرضی سے چلانے کی سوچ کو ختم کرناہوگا۔

ہمارےہاں اکثر   چھوٹےگھروں میں زیادہ افراد، کم آمدنی ہوتی ہے۔۔۔
سوبیٹے کے الگ ہونے کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ بیٹے کی آمدنی سے ہاتھ دھولیاجائے گا۔۔۔۔
بیوی بھی یہ سوچتی ہے کہ میرےمیاں کی آمدنی پہ میرا اورمیرے بچوں کاحق ہے ساس سسر نند دیورمیرے میاں کی آمدنی کا ایک بڑاحصہ ہڑپ رہے ہیں۔۔۔۔

یہاں لڑکے کو چاہیےکہ عقل سے کام لے اور گھر میں الگ پورشن ہونے کےبعد بھی بیوی بچوں کے اخراجات پورے کرنے کے علاوہ والدین کے ہاتھ پہ بھی ایک چھوٹی رقم ہر ماہ رکھ دی جائے۔
کیونکہ والدین نے   خودبھوکے رہ کر ہمیں پیٹ بھرکھلایا ہوتا ہےتو والدین کو ہرماہ مخصوص رقم دینا بیٹے کو اپنےاوپر فرض کرلیناچاہیے۔۔۔
اگر آمدنی کم ہے رقم دینا ممکن نہیں تب بھی والدین کا کسی نہ کسی طرح خیال رکھا جائے۔۔۔
جیسے والدین کےپاس کچھ دیر بیٹھ کر اچھی گفتگو کرلی جائے ہاتھ پیر دبادیےجائیں یا ہاسپٹل لےجانا سودا سلف لادینا والدین کو کسی رشتے دار کے گھر جانا ہے تو چھوڑکر آجانا۔۔۔
کبھی کبھار  ایسےچھوٹے موٹے احساس بھی والدین کو بہت خوش کردیتےہیں
بیوی کو اس سلسلے میں شوہر کے ساتھ کچھ تعاون کرنا ہوگا۔۔۔۔

اگر ہم بحیثیت والدین   بیٹابہو چاہیں تو ہم سب مل کر اس مشترکہ خاندانی نظام کو کسی نہ کسی صورت بچاسکتےہیں۔۔۔
کیونکہ مشترکہ خاندانی نظام ہی  ہمارےبزرگوں کو تنہا ہونے سے بچاسکتاہے۔۔  اورکبھی نہ کبھی تو ہمیں بھی بزرگ بننا ہی ہے۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آج بہو بیٹے کو ان کی مرضی کی زندگی  گزارنےدیجیے تاکہ ان کے دل میں آپ کے لیے جگہ بنی رہے اور وہ آپ   سےبیزار ہوکر دور نہ ہوجائیں
آج اپنے بزرگوں کو تنہانہ چھوڑیے تاکہ کل آپ بھی تنہانہ ہوں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply