• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • جس ملک میں لوگ پیسے کے عوض ماں تک بیچ دیتے ہیں۔۔اسد مفتی

جس ملک میں لوگ پیسے کے عوض ماں تک بیچ دیتے ہیں۔۔اسد مفتی

دنیا بھر میں سزائے موت کے قوانین کو ختم کرنے کے لیے 70سے زائد ممالک نے ایک قرارداد کے مسودے پر دستخط کیے ہیں۔انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل اور کئی ممالک سزائے موت کو ختم کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں،ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ مجرم کو سزائے موت دینے سے دنیا سے جرائم ختم نہیں کیے جاسکتے۔
امریکی میگزین”فارن پالیسی”نے سزائے موت اور پھانسی دینے کے حوالے سے ایک مضمون کو سپردِ قلم کیا ہے۔جس میں دنیا کے تاپ ٹین ممالک کی ایک فہرست ترتیب دی ہے۔جس میں کشورِ حسین شاد باداپنے شہریوں کو پھانسی دینے والوں میں تیسرے نمبر پر آتا ہے۔پہلے نمبر پر پاکستان ہی ا دوست ملک چین،جس میں گزشتہ برس 1010افراد کو سزائے موت دی گئی ہے۔
دوسرے نمبر پر ایران کو قرار دیا گیا ہے۔جہاں 177افراد کو سزائے موت دی گئی۔چوتھے نمبر پر عراق کا نام آتا ہے جس میں 65افراد کو پھانسی دی گئی۔عراق نے 2004میں سزائے موت پر پابندی لگادی تھی،لیکن اس کے بعد لگ بھگ 270افراد کو تختہ دار پر لٹکایا گیا۔
پانچویں نمبر پر خود امریکہ کا نام ہے،جہاں 53افراد کو موت کی وادی میں دھکا دیا گیا۔امریکہ میں پھانسی کی سزا مختلف رہاستوں میں صرف قاتلوں کو دی جاتی ہے۔لیکن کچھ ریاستوں میں جرائم پر بھی پھانسی دی جاسکتی ہے۔
ادھر پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر نے کہا ہے کہ پاکستان اور برطانیہ کے مابین مجرموں کے تبادلے کا معاہدہ پاکستان میں پھانسی کی سزا کی موجودگی میں ممکن نہیں،کہ برطانیہ میں سزائے موت نہیں ہے،اور ہم نہیں چاہتے کہ برطانیہ سے پاکستان کے حوالے کیے جانے والے لوگوں کو سزائے موت دی جائے۔
پاکستان میں سزائے موت پانے والے قیدیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔متعدد بین الاقوامی ادارے سزائے موت کو ختم کرنے کے سلسلے میں کوششوں کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔دنیا کے 90ملکوں میں موت کی سزا کو ختم کردیا گیا ہے۔جبکہ لگ بھگ اتنے ملکوں میں ابھی تک مجرموں کو پھانسیاں دی جارہی ہیں۔ایک غیر سرکاری تنظیم کی طرف سے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق پاکستان بھر میں ان قیدیوں کی تعدا د آٹھ ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔جنہیں گزشتہ بارہ برس کے دوران موت کی سزا دی گئی،جبکہ صرف پنجاب میں ایسے قیدیوں کی تعداد آٹھ ہزار کے قریب ہے۔سب سے زیادہ پھانسیاں صوبہ پنجاب میں دی گئیں۔
اس وقت مملکت خداداد کی جیلوں میں قید پھانسی کے منتظر قیدیوں میں 42عورتیں،اور تین بچے بھی شامل ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ چین اور ایران کے بعد پاکستان سب سے زیادہ موت کی سزائیں دینے والا ملک گیا ہے۔
پاکستان میں 2004میں 41افراد کوسزائے موت سنائی گئی۔اور 15کو پھانسی دی گئی۔جبکہ 2005میں 481لوگوں کو موت کی سزا سنائی گئی او ر52 قیدیوں کو پھانسی دی گئی۔
2006میں 448افراد موت کی سزا کے حقدار ٹھہرے،جبکہ 82کو پھانسی دے دی گئی۔
2007میں پہلے نو ماہ ے دوران کم از کم 109افراد کو پھانسی کے پھندے میں جکڑا گیا۔جبکہ پورے ایک سال میں 113افراد پھانسی کے پھندے پر جھول گئے۔
2006میں صدرِ پاکستان نے 257رحم کی اپیلوں کو نمٹایا،اور صرف ایک شخص کی رحم کی اپیل منظور ہوئی،اور وہ پاکستان نژاد برطانوی شہری مرزا طاہر محمود تھا۔
پاکستان بھر میں 184خواتین کو موت کی سزا سنائی جاچکی ہے،جن میں 2007تک 9خواتین کی سزا پر عمل درآمد بھی ہوچکا ہے۔
اڈیالہ جیل راولپنڈی میں ایک قیدی بنام ذوالفقار علی کی سزائے موت پر عملدرآمد 8اکتوبر کے دن عین وقت پر صدر زرداری کے حکم پر روک دیا گیا۔
اس بات سے یہ عندیہ ملتا ہے کہپیپلز پارٹی کی حکومت سزائے موت کے قانون کو عمر قید میں تبدیل رنے کی اپنی کوششوں میں سنجیدہ تھی۔
یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ سابق صدر پاکستان جنرل پروی مشرف کے دورِ حکومت میں ایسے جرائم میں اضافہ ہوا تھا۔جن کی سزا موت ہے۔اور مشرف کے عہد میں ہی زیادہ تر پھانسی کے قیدیوں کی سزا پر عملدرآمد ہوا،سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے 21جون کو قومی اسمبلی میں اپنے خطاب میں سزائے موت کے قانون کو عمر قید می ں تبدیل کرنے کا اعلان کیا تھا۔یہ اعلان قابلِ تعریف اور حوصلہ افزاء تھا۔لیکن شاید مذہبی شدت پسند تنظیموں کی مخالفت کی وجہ سے اس پر عمل درآمد نہیں کیا گیا،اور ہنوز قانونی تسلیم شدہ اور تحریری شکل میں موجود بنیادی خامیوں کے ہوتے ہوئے بھی سزائے موت کت فیصلے سنائے جارہے ہیں،اور اس امر کا قوی امکان ہے کہ مقدمات میں منصفانہ نتائج حاصل کرنے میں کامیابی حاصل نہ ہوسکے گی،اور وسیع پیمانے پر سزائے موت کے اطلاق نے قانون کی حکمرانی کو مستحکم کرنے کی بجائے اسے کافی حد تک کمزور کیا ہے،لیکن ایک خبر جسے ہم امید کی کرن قرار دے سکتے ہیں،وہ اخبار میں دئیے جانے والے وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ کا ایک بیان ہے،جس میں انہوں نے یقین دہانی کرائی ہے کہ حکومت سزائے موت کے قیدیوں کی سزا عمر قید میں تبدیل کرنے ہر سنجیدگی سے غور کررہی ہے۔
میں وزیر داخلہ کو یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ اس “زیرِ غور “معاملہ کو “جانے سے پہلے”قانونی شکل دے دیجیے کہ نعض کال کوٹھڑیوں میں،سزائے موت کے دس سے بارہ قیدیوں کو مبینہ طور پر ایک چار میٹر ضرب تین میٹر کی کو،ٹھڑی میں بند کیا گیا ہے،جو صرف ایک قیدی کے لیے بنائی گئی ہے،سزائے موت پر عمل درٓمد کے انتظار میں بہت سے قیدی پچیس سے تیس سال سے اپنی موت کے منتظر ہیں،جن میں سے بعض تو سو برس کی عمر کو چُھونے والے ہیں،میں نے کہیں پڑھا ہے کہ جس ملک میں پانچ ہزار روپے کے عوض قرآن کی جھوٹی گواہی دینے والے آسان سے مل جائیں،اور روایتی قبائل دشمنی کی بنیاد پر مخالفین کو قتل کے جرم میں بے گناہ پھنسا دیا جاتا ہو،وہاں سزائے موت انسانیت کا قتل نہیں تو کیا ہے؟
میں بھی سوچتا ہوں،آپ بھی سوچیے!

Facebook Comments