پُل ٹوٹ گیا ہے۔۔سلیم مرزا

“شاید کہیں کوئی جنگ چل رہی ہے “۔۔
ایسے میں ترقیاتی کام کیسے ہوں؟ مہنگائی کی وجہ سے گندے نالے کا پل ٹوٹ کر نالے میں ہی گرگیا ۔ہم زیریں علاقے کے رہنے والے اس پل سے بالائی شہر جاکر دووقت کما لاتے تھے ۔ ہر وقت گھر میں پڑے رہنے پہ مجبور ہوگئے ۔
گندہ پانی غربت اور بیروز گاری کا کیچڑ لئے گھروں کے اندر تک آگیا ۔ایک دو روز کی بات ہوتی تو صبر کر لیتے ۔شکر سے وقت ٹل جاتا ۔لیکن ڈھائی سالوں سے ٹھہرے پانی نے دماغوں میں بھی سرانڈ بھرنی شروع کردی ہے۔
سکول نہ جانے والے بچے کیچڑ میں کھیلنا سیکھ گئے ہیں۔
بیروزگاری معذوری بنتی جارہی ہے ۔اب تو لوگ دھبے بھی نہیں چھپاتے ۔داغدار غربت ہر روز مزید داغ مانگتی پھرتی ہے ۔

میں نے ایک دوپار اس نالے کو ایک ہی جست میں پار کرنے کی کوشش کی ۔ایک بار تو میری چپل دھنس گئی ۔گھر تک ایک چپل پہنے آیا ،چال ایسی ہوگئی جیسے بچے “اک پیر سونا، اک پیر چاندی “کھیلتے ہیں ۔
دوسری بار چھلانگ لگائی تو ہمت بھی زیادہ تھی اور جوش بھی ۔اب کی بار بازو ٹوٹ گیا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب میں ایسا سوچتا بھی نہیں ۔پانی دن بدن اونچا ہوتا جارہا ہے ،بو بڑھتی جارہی ہے ۔اس دن بھی بجلی نہیں تھی جب چارہائی تلے تین تین اینٹیں رکھے صحن میں سورہے تھے ۔
صحن اور حبس زدہ گھر میں چھوٹی کی چیخ کی آواز گونج کر رہ گئی ۔پانی میں کچھ تیر رہا تھا ۔موبائل کی لائٹ سے دیکھا تو بجلی کا بل تھا ۔جانے کب کا تیر ریا تھا ۔اب تو سانپ بھی تیر رہا ہو تو ڈر نہیں لگتا کہ کوئی بل ہی ہوگا ؟
“سانپ بلوں میں ہی تو رہتے ہیں “۔
گھر کی ساری آلتو فالتو چیزیں بیچ دیں ہیں ۔ورنہ بھوک زدہ پانی میں دھات کی ہر چیز گھل جاتی ہے ۔
اچھا کیا برتنوں کو سکوں میں ڈھال لیا ۔
ایک پچکی سلور کی پتیلی اور ایک چولہا نہیں بکے۔اپنے بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔
اب کی بار گاؤں سے گندم بھی نہیں آئی، آتی تو سیلن سے جل جاتی ۔کلو دو کلو آٹے سے دن گذر جاتا ہے ۔
اچھا ہے نہیں بچتا ۔ورنہ چینی جیسا حال ہوتا ۔
کلو بھر لایا تھا ۔حبس سے مصری بن گئی ،اور کیڑے اتنے لپٹے ہوئے تھے کہ باہر پھینک کر جان بچائی ۔
بچے پوچھتے ہیں
“پاپا بھوک اور غلاظت سے کب جان چھوٹے گی ،جنگ کب ختم ہوگی ” ؟
کیسے بتاؤں کہ
“جب ہم لڑیں گے تب “۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply