پلانک کا سوال (58)۔۔وہاراامباکر

سائنس ہو یا کوئی دوسرا شعبہ۔ بہت سے عام لوگ عام سوالات پوچھتے ہیں اور ان میں سے اکثر زندگی ٹھیک ٹھاک گزار لیتے ہیں۔ لیکن کامیاب ترین اکثر وہ ہوتے ہیں جو عجیب سوال کرتے ہیں۔ سوال جو کئے نہیں گئے یا دوسروں نے انہیں در خور اعتناء نہیں سمجھا۔ اور ایسے لوگ عام طور پر عجیب، کھسکے ہوئے یا خبطی سمجھے جاتے ہیں۔ اور اگر یہ کہیں پہنچ جائیں تو پھر جئنئیس۔ اوریجنل اور آزاد فکر مین سٹریم سے ہٹ کر ہوتی ہے اور یہاں سوچ کے بارے میں ایک اور نکتہ ہے۔

ظاہر ہے کہ اگر کوئی یہ سوال کرے کہ “کیا نظامِ شمسی ایک بارہ سنگھے کی کمر پر ہے؟” تو یہ بھی اوریجنل سوچ ہی ہے۔ اس لئے کوئی بھی یہ کہے گا کہ آزاد فکری میں منتخب ہونا ضروری ہے اور یہاں پر ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ایسے لوگ جن کے خیالات محض عجیب ہیں اور ایسے لوگ جن کے خیالات عجیب تو ہیں لیکن درست بھی۔ ان میں تفریق کیسے کی جا سکتی ہے؟ یا عجیب ہیں لیکن بہت لمبے وقت کے بعد اور کئی غلطیوں کے بعد کسی ایسی سمت میں راہنمائی کر سکتے ہے جہاں کچھ سچ نکل آئے؟ نہیں، یہ تفریق کرنا اتنا آسان نہیں جتنا پہلی نظر میں لگتا ہے۔

میکس پلانک ایک ایسے ہی اوریجنل مفکر تھے جن کے پوچھے گئے سوالات ان کے ساتھی سائنسدانوں کے لئے بھی دلچسپ نہیں تھے۔ اور ان کی سوچ درست بھی نہیں تھی۔ لیکن انہی کے پوچھے گئے سوالات وہ سوال ثابت ہوئے جن کے جواب کلاسیکل فزکس کے پاس نہیں تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پلانک کا شوق تھرموڈائنامکس کو ایٹم کے تصور کے بغیر سمجھنے کا تھا۔ یعنی ایسی دنیا جس میں اشیا کو مسلسل تقسیم کیا جاتا رہ سکتا ہو۔ اس میں کوئی ناقابلِ تقسیم یونٹ نہ ہو۔ ان کے خیال میں یہ فزکس کا سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ وہ برلن میں اسی پر کام کرتے رہے۔ دوسرا یہ کوئی ایسا شخص نہیں تھا جو پلانک کو بتاتا کہ وہ بے کار کے سوالوں میں وقت ضائع کر رہے ہیں اور کوئی ڈھنگ کا کام کریں۔ اور یہ ان کی کامیابی کی وجہ تھی۔ ان کی سوچ مین سٹریم فزکس سے اس قدر ہٹ کر تھی کہ 1900 کے موسمِ گرما میں، جب وہ اپنے فزکس کو بدل دینے والے بریک تھرو کا اعلان کرنے سے چند ماہ دور تھے، پیرس کی انٹرنیشنل فزکس میٹنگ کو رپورٹ کرنے والے نے کہا تھا کہ دنیا بھر میں پلانک کے علاوہ کل تین سائنسدان اور ہوں گے جو اس سوال کو اس قابل سمجھتے تھے کہ اس پر غور بھی کیا جائے۔ پلانک کی پی ایچ ڈی کے اکیس سالوں کے بعد بھی کچھ تبدیل نہیں ہوا تھا۔

اٹھارہویں صدی کے کیمسٹ گیس کی سٹڈی کو اہم سائنسی اصولوں کو بے نقاب کرنے کی کنجی تصور کرتے رہے اور کامیاب رہے۔ پلانک کے لئے ایسا پارس کا پتھر بلیک باڈی ریڈی ایشن تھی۔ آج یہ فزکس میں مانوس اصطلاح ہے۔ یہ وہ الیکٹرومیگنیٹک ریڈی ایشن ہے جو کسی خاص درجہ حرارت پر مکمل سیاہ جسم سے خارج ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس وقت میں الیکٹرومیگنیٹک شعاعوں کا تصور ابھی نیا اور پرسرار تھا۔ یہ تھیوری سکاٹ لینڈ کے سائنسدان جیمز کلارک میکسویل کے کام کا نتیجہ تھی۔ میکسویل فزکس کے ہیرو سمجھے جاتے ہیں اور انہوں نے فزکس کی تاریخ کی سب سے بڑی یکجائی کی تھی۔ انہوں نے وضاحت کی تھی کہ الیکٹرک اور میگنیٹک فورسز ایک ہی فینامینا کے پرتو ہیں جو الیکٹرومیگنیٹک فیلڈ ہے اور یہ بھی کہ روشنی اور دوسری ریڈی ایشن اسی فیلڈ کی لہریں ہیں۔ الگ الگ نظر آنے والے مظہر کی گہرائی میں جا کر ان کا کنکشن نکال لینا سائنس میں سب سے بڑا کارنامہ سمجھا جاتاہے۔

نیوٹن جانتے تھے کہ ان کے حرکت کے قوانین مکمل نہیں تھے کیونکہ ان کے لئے فورس کے الگ قوانین بھی درکار تھے اور نیوٹن نے ان میں سے ایک کی وضاحت کی تھی جو گریویٹی تھی۔

نیوٹن کے بعد آنے والی صدیوں میں فزکس میں برقیات اور مقناطیسیت کی فورسز معلوم کی گئی۔ اور ان کی ریاضیاتی تھیوری دے کر میکسویل نے ایک طرح سے نیوٹونین پروگرام کو مکمل کر دیا تھا جو ہر قسم کی روزمرہ فورس کی وضاحت کر دیتی تھیں۔ (سٹرونگ اور ویک فورس بعد میں بیسویں صدی میں دریافت ہوئیں)۔

نیوٹن کے گریویٹی کے قانون سے سیاروں کے مدار سے لے کر توپ کے گولے کا راستہ نکالا جا سکتا تھا اور میکسویل کی تھیوری کے اضافے سے سائنسدان ریڈی ایشن اور اس کے مادے سے انٹرایکشن سمیت بہت کچھ نکالنے کے قابل ہو گئے تھے۔ اور اب سائنسدانوں کو بہت امید تھی کہ وہ اصولی طور پر ہر قابلِ مشاہدہ فطری فینامینا کی وضاحت کرنے کے قابل ہو چکے ہیں۔ اور یہ انیسویں صدی کے آخر میں پائی جانے والی رجائیت کی وجہ تھی۔

قدیم ترین سوالات کے جواب یکے بعد دیگرے تیزی سے مل جانے کے بعد یہ عام خیال تھا کہ ہم نے اپنے گرد کی دنیا کا راز بڑی حد تک پا لیا ہے۔ فطرت کو بے نقاب کر دیا ہے۔ بڑے سوالوں کے جواب بھی بس چند ہاتھ ہی دور ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیوٹن کا خیال تھا کہ اگر ہم وہ فورس دریافت کر لیں جو بہت چھوٹے ذرات کو آپس میں کھینچتی اور دھکیلتی ہے تو ان مقامی حرکات کی مدد سے ہم اجسام کی کیفیت معلوم کر لیں گے اور حرکت کے قوانین کی مدد سے اجسام کی تمام نیچر ہمارے آگے برہنہ ہو جائے گی۔ الیکٹرومیگنیٹک فورس کی دریافت کے باوجود بھی ایسا نہ ہو سکا۔ کیونکہ جب حرکت کے ان قوانین کا اطلاق ایٹم پر کیا جائے تو یہ کام نہیں کرتے۔

اگرچہ کسی نے اس کا ادراک نہیں کیا تھا لیکن نیوٹونین فزکس کی کمزوری سب سے زیادہ اس مظہر میں نمایاں تھیں جس کو سٹڈی کرنے کا انتخاب پلانک نے کیا تھا۔ یہ غیردلچسپ چیز بلیک باڈی ریڈی ایشن تھی۔ کیونکہ جب نیوٹونین فزکس سے جب کیلکولیٹ کیا جاتا کہ مختلف فریکوئنسیز پر کتنی ریڈی ایشن خارج ہو گی تو یہ کیلکولیشنز نہ صرف غلط تھیں بلکہ عجیب نتائج دیتی تھیں جن کے مطابق زیادہ فریکوئنسی پر خارج ہونے والی ریڈی ایشن لامحدود نکلتی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب پلانک نے اس فیلڈ میں کام شروع کیا، یہ تو سب کو معلوم تھا کہ بلیک باڈی کیلکولیشن غلط ہے لیکن کسی کو معلوم نہیں تھا کہ کیوں۔ اور جب اس مسئلے میں دلچسپی رکھنے والے سائنسدان سر کھجا رہے تھے، کچھ نے تجرباتی مشاہدات کو دیکھ کر فارمولے بنانا شروع کر دئے۔ نہ ہی یہ فارمولے کچھ بتاتے تھے کہ یہ ایسے کیوں ہیں اور نہ ہی ہر فریکوئنسی پر کام کرتے تھے۔

پلانک نے ریڈی ایشن کا چیلنج حل کرنے پر کام شروع کیا۔ انہیں یہ شک نہیں تھا کہ نیوٹونین فزکس کے ساتھ کچھ غلط نکلے گا۔ ان کا خیال تھا کہ بلیک باڈی کے میٹیریل کی فزیکل وضاحت میں کچھ غلطی ہے۔ کئی سال کام کرنے کے بعد بھی انہیں کوئی کامیابی نہ ہوئی۔

آخر انہوں نے اس کو الٹا حل کرنا شروع کیا اور اپلائیڈ فزسٹ کی طرح ایک ایسا فارمولا ڈھونڈنا شروع کیا جو کام کر جائے۔ ان کا فوکس دو ایڈہاک فارمولاز پر تھا۔ ایک جو کم فریکونسی پر حل دے دے اور دوسرا جو زیادہ فریکوئنسی پر۔ بہت سے ٹرائل اور ایرر کے بعد انہوں نے اپنا ایک ایڈہوک فارمولا بُن لیا۔ یہ ایک ریاضی کی وضاحت تھی جو انہوں نے دونوں کے درست فیچرز کو جوڑ کر بنائی تھی۔

تین سال کام کرنے کے بعد پلانک ایک فارمولے تک پہنچے تھے جو کسی نامعلوم وجوہات کی بنا پر بالکل ٹھیک کام کرتا تھا۔ لیکن ان کے پاس ابھی اتنا ڈیٹا نہیں تھا کہ اسے اچھی طرح ٹیسٹ کر سکیں۔

انہوں نے برلن فزیکل سوسائٹی میں اس کو 19 اکتوبر 1900 کو پیش کیا۔ جب میٹنگ ختم ہوئی تو ایک تجرباتی فزسٹ ہینریک روبنز نے واپس جا کر فارمولا چیک کرنے کے لئے اپنے اکٹھے کئے گئے نمبرز سے اس کو چیک کرنا شروع کیا۔ انہیں جو ملا، اس نے انہیں حیران کر دیا۔ “پلانک کا فارمولا اس سے زیادہ ایکوریٹ تھا جتنا ٹھیک ہونے کا اس کو کوئی بھی حق پہنچتا تھا”۔

روبنز اتنے پرجوش تھے کہ پوری رات کام کرتے رہے۔ فارمولے کی پیشگوئی کو اپنے تجربے سے حاصل کردہ ڈیٹا سے میچ کرتے رہے۔ اگلی صبح وہ فوراً پلانک کے گھر پہنچے کہ انہیں یہ خبر سنائیں۔ یہ بالکل پرفیکٹ تھا اور ہر فریکوئنسی کے لئے۔ یہ صرف تکا نہیں ہو سکتا تھا۔ اس کو کوئی نہ کوئی “معنی” ضرور تھا۔ مسئلہ صرف یہ تھا کہ نہ ہی پلانک کو اور نہ ہی کسی اور کو معلوم تھا کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ یہ جادو لگتا تھا۔ ایک فارمولا جو شاید کسی گہرے اور پرسرار اصول کی طرف اشارہ کر رہا تھا لیکن اس تک پہنچا صرف اندازے سے ہی گیا تھا!!۔

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply