طلاق کے بعد۔۔ثاقب لقمان قریشی

آج سے بیس تیس برس قبل طلاق کا لفظ کم ہی سننے کو ملتا تھا۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے ایسی کسی عورت کا نام بھی سنا ہو جسے طلاق ہوئی ہو۔ اسکی وجہ شاید یہ ہے کہ چالیس برس قبل خاندان اور برادری سسٹم بہت مضبوط تھے۔ لوگ خاندان کے بڑوں کی بات کو حرف ِ آخر سمجھتے تھے۔ اسی وجہ سے گھر کے مسائل گھر ہی میں حل ہو جاتے تھے۔ تعلیم، غربت اور قوت خرید بھی اس ضمن میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔ تینوں چیزوں کی کمی کی وجہ سے لوگ خاص رائے نہیں رکھتے تھے۔ قوت برداشت زیادہ تھی کیونکہ ہر شخص کے حالات ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہوا کرتے تھے۔

90  اور 2000 کی دہائی میں تعلیم تیزی سے عام ہونا شروع ہوئی۔ نئی نئی ٹیکنالوجیز متعارف ہوئیں۔ جس سے لوگ خوشحال ہوئے اور قوت خرید میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ خوشحالی آنے کے بعد لوگوں کیلئے انکی پسند نا پسند اہمیت اختیار کرتی چلی گئی۔ نوجوانوں میں مستقبل کی فکر بڑھنے لگی۔ ان سب کے ساتھ طلاق کی شرح میں بھی اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔

طلاق ملنے کے بعد لڑکی کی زندگی ختم نہیں ہو جاتی۔ کیا کرنا ہے کیسے کرنا ہے۔ دو سبق آموز کہانیوں کے ذریعے بتانے کی کوشش کرونگا۔

پہلا واقعہ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں پیش آیا جس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ ہوا کچھ اس طرح کہ آج سے آٹھ دس ماہ قبل معذور افراد کے ایک وٹس ایپ گروپ میں ایک لڑکی مدد کیلئے اپیل کرتی ہے۔ پھر اسکا میسج مجھے بھی آتا ہے۔ میں نے اسکے بارے میں معلومات حاصل کرنے کیلئے اسے کال کی۔ بات چیت سے اندازہ ہوا کہ لڑکی اعلیٰ  تعلیم یافتہ ہے۔ اسے مجھ میں اپنائیت محسوس ہوئی پھر اس نے اپنے بارے میں سب کچھ بتا دیا۔ میں گزشتہ تین سالوں سے معذور لڑکیوں کے حقوق پر لکھنےکی کوشش کر رہا ہوں۔ لڑکیاں اپنے بارے میں کچھ باتیں آسانی سے بتا دیتی ہیں۔

لڑکی نے اکنامکس میں ایم-اے کیا ہوا ہے۔ بنک میں جاب اور اچھے سکولوں میں بطور استاد پڑھا چکی تھی۔ اچھے خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ والد اور والدہ اٹھارویں اور انیسویں گریڈ سے ریٹائرڈ ہیں۔ تین بہنیں اور ایک بھائی ہے سب شادی شدہ ہیں۔ سابقہ شوہر سعودیہ عرب میں کام کرتا تھا۔ کرونا وباء کے ابتدائی ایام میں اسے نوکری سے نکال دیا گیا۔لڑکی کے والد نے ایک گھر اسکے نام کر رکھا ہے۔ گھر کا خرچہ بھی لڑکی کے والدین ہی اٹھا رہے تھے۔

لڑکی کی معمولی سی معذوری کی وجہ سے سابقہ شوہر کے گھر والوں نے اسے کبھی بہو تسلیم ہی نہیں کیا تھا۔ سابقہ شوہر کی گھر پر توجہ کم ہی رہتی تھی نئی نئی لڑکیوں کے ساتھ چکر، دوستی یاری اور عیاشی اسکے معمول تھے۔

اپنی تمام تر کوتاہیوں کے باوجود بیگم کو ڈرا کر رکھتا تھا۔ ہر معاملے میں طلاق کی دھمکی دیتا تھا۔ دو طلاقیں پہلے ہی دے چکا تھا۔ لڑکی کے والدین طلاق کے ڈر سے اس پر لاکھوں روپیہ لٹاتے رہے اور وہ عیاشی کرتا رہا۔

لڑکی سے میری جب بھی بات ہوتی وہ ہمیشہ شوہر کی تعریف ہی کرتی۔ لڑکی گھر میں قدرتی اجزاء سے بنا بالوں کا تیل بنا رہی تھی جو وہ اپنے حلقہ احباب میں بیچ رہی تھی۔ اعتماد نام کی چیز اس میں ختم ہوچکی تھی۔ اس سے بات کرنے کے بعد میں نے اسے کچھ کامیاب معذور خواتین کے نمبرز دیئے۔ جن سے بات چیت کرکے اسے بہت اچھا   لگا۔ پھر میں نے اسے اپنے کچھ دوستوں کے نمبرز دیئے جو ڈیجیٹل مارکیٹنگ کے ماہر تھے۔ جنھوں نے اسے اپنی پراڈکٹ کو آن لائن بیچنے کے گُر سکھائے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کا تیل فروخت ہونے لگا۔ لڑکی گھر کا خرچ خود سے اٹھانے لگی۔ سابقہ شوہر کو اسکی ترقی سے خوف آنے لگا۔ اس نے اسے کاروبار بند کرنے کا کہا، لیکن وہ نہ مانی۔

میں نے اس لڑکی سے کہا کہ میں آپ کا انٹرویو لینا چاہتا ہوں تو اس نے کہا کہ مجھ میں ایسی کون سی خاص بات ہے جو آپ میرا انٹرویو لینا چاہتے ہیں۔ میں نے اس سے کہا کہ آپ صرف میرے سوالات کے جوبات دے دیں۔ جب میں لکھ لونگا تو آپ کو پتہ چلے گا کہ  آپ کے اندر کیا کیا خوبیاں ہیں۔

انٹرویو شائع ہوتے ہی لڑکی کی شہرت کو چار چاند لگ  گئے۔ میڈیا اس سے رابطہ کرنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ کافی مشہور ہوگئی۔ مارننگ شوز اور یوٹیوب کے بہت سے چینلز پر اس کے انٹرویوز چلنے لگے۔ دو ماہ میں اسے چھ ایوارڈ ملے۔ جس میں سے ایک بین الاقوامی بھی تھا۔ سابقہ شوہر دیکھتا تو اسکے دل میں آگ سی لگ جاتی۔

سسرال سے پیسے لے کر کاروبار کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ پھر سسرال کے پیسوں سے سعودیہ چلا گیا۔ سعودیہ پہنچتے ہی اس نے بیوی اور دو معصوم بچوں سے رابطہ ختم کر دیا۔ لڑکی نے اس سے رابطے کی بہت کوشش کی لیکن اس نے جواب نہ دیا۔ رمضان سے قبل میرے رابطہ کرنے پر اس نے بتایا کہ سابقہ شوہر کو باہر گئے ہوئے دو ماہ ہوئے ہیں میرا فون نہیں اٹھا رہا۔ خیر اللہ بہتر کرے گا۔

رمضان المبارک کے آخری عشرے میں سابقہ شوہر نے ایک کاغذ پر سادی تحریر میں لکھا میں اپنے پورے ہوش و  حواس میں تمھیں طلاق دیتا ہوں۔ لڑکی نے وہ میسج مجھے بھیجا۔ شام کے وقت بات ہوئی تو اس نے مجھے بتایا کہ دو طلاقیں وہ پہلے ہی دے چکا ہے۔ پہلے میں طلاق کے خوف سے ڈر جاتی تھی۔ خوب رویا کرتی تھی۔ لیکن اس بار ایسا نہیں ہوا۔ آج صبح میں نے ایک جگہ موٹیویشنل سپیکر کے طور پر لیکچر دینا تھا۔ میں نے انھیں بتایا کہ مجھے طلاق ہوگئی ہے۔ انھوں نے کہا پروگرام کو کینسل کر دیتے ہیں۔ میں نے کہا میں آؤں گی۔ اپنے اوپر قابو رکھتے ہوئے وہاں گئی اور لیکچر دیا۔ شام کو ایک جگہ اسٹال لگانا تھا۔ بچوں کو لے کر وہاں بھی گئی اور اسٹال لگایا۔ کاروبار نے میرے اندر کے اعتماد کو بحال کر دیا ہے۔ اب مجھے حالات کا مقابلہ کرنا آگیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسرا واقعہ جس لڑکی کا ہے وہ نارمل ہے ،طلاق کو چار پانچ سال بیت گئے ہیں۔ لڑکی نے سپیشل ایجوکیشن میں ڈگری کی ہے۔ سماست سے محروم اور ذہنی پسماندہ بچوں کو پڑھاتی ہیں۔ سال پہلے اس نے مجھے ایک آدمی کی تصویر بھیجی  اور کہا کہ یہ رشتہ آیا ہے۔ آدمی معذور تھا پینتیس ہزار روپے تنخواہ لے رہا تھا۔ لڑکی نے اس سے کہا کہ کیوں نہ شادی کے بعد ہم کرائے کا مکان لے لیں۔ آپ بھی کماتے ہیں تھوڑا بہت میں بھی کماتی ہوں ہمارا بہترین گزارا ہو جائے گا۔ آدمی کہنے لگا میں اپنے بھائی کی فیملی کو بھی سپورٹ کر رہا ہوں میں ان سے الگ نہیں ہوسکتا۔

لڑکی نے مجھ سے رائے مانگی تو میں نے انکار کر دیا۔ میں نے کہا کہ سب سے پہلے آپ اپنی آمدن کو بڑھانے کی کوشش کرو۔اگر آپ اپنی آمدن میں اچھا خاصہ اضافہ کر لیتی ہو تو پھر رشتے چل کر آپ کے پاس آئیں گے۔ پھر اسے نوکری اور آن لائن پڑھانے کے حوالے سے کچھ مشورے دیئے۔ لڑکی میری باتوں پر سختی سے عمل کرتے ہوئے آمدن بڑھانے میں جڑ گئی۔ کچھ عرصہ قبل میں نے اسے ایک معذور لڑکے کا رشتہ بتایا جو ایک لاکھ روپے کما رہا تھا۔ میں نے کہا کہ کیوں نہ ان سے آپ کے رشتے کی بات کی جائے۔ وہ کہنے لگی سر میں نے ابھی شادی نہیں کرنی۔ آپ نے ہی تو کہا تھا کہ میں پہلے اپنی آمدن میں اضافہ کروں۔ اب میں بہت اچھا کما رہی ہوں اور ابھی اس میں بہتری کی بہت گنجائش موجود ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج سے بیس تیس سال قبل طلاق کے واقعات کبھی کبھار سننے کو ملتے تھے۔ لوگ شادی کے وقت بیٹیوں سے کہا کرتے تھے کہ تم جس گھر جارہی ہو وہاں  سے  تمہارا جنازہ ہی اٹھنا چاہیے۔ لیکن اب زمانہ بہت تبدیل ہو چکا ہے۔ آجکل کے بچے بچیاں گھٹ گھٹ کر جینے کی  بجائے علیحدگی کو ترجیح دیتے ہیں۔ خومختا ر لڑکیاں علیحدگی قبول کر کے آگے بڑھنا شروع کر دیتی ہیں۔ اس کے برعکس جو لڑکیاں والدین کے رحم و کرم پر ہوتی ہیں ان کیلئے طلاق کسی قیامت سے کم نہیں ہوتی۔ گھر والوں اور رشتہ داروں کے طعنے انکی زندگی حرام کرکے رکھ دیتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں زیادہ تر لڑکیوں کی دوبارہ شادی نہیں ہو پاتی یا پھر کسی بھی بوڑھے، بیمار، بچوں والے اور بیکار شخص کے ساتھ اسے رخصت کر دیا جاتا ہے۔ جس کے بعد انکی زندگی روتے سسکتے ہوئے گزرتی ہے۔

طلاق کا دھبہ لگنے کے بعد لڑکیاں اور انکے گھر والے اتنی مایوسی کا شکار ہوتے ہیں کہ صحیح فیصلہ کرنے میں بہت وقت لے لیتے ہیں۔ خواتین کے حقوق کیلئے کام کرنے والی این جی اوز کو چاہیے کہ ایسی ٹیم تشکیل دیں جو ایسے گھرانوں کا دورہ کریں۔ انھیں باور کرانے کی کوشش کریں کہ طلاق کے بعد زندگی ختم نہیں ہو جاتی۔ طلاق یافتہ لڑکیوں کے کوائف اکٹھے کرکے انھیں انکی قابلیت کے مطابق نوکریوں، آن لائن کام یا پھر گھریلو صنعتوں کے لیے تیار کیا جائے۔ ایسی لڑکیاں جنہوں نے طلاق   کے بعد اپنے آپ کو سنبھالا اپنے بچوں کو پروان چڑھایا ان سے ملوایا جائے۔ انکے لیکچرز اور انکی زندگیوں پر بنی ڈاکومنٹریز فراہم کی جائیں۔ تاکہ لڑکیوں اور انکے گھر والوں کے حوصلے بحال کیے جاسکیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

بیٹی والوں سے ہماری گزارش ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم پر بھی اسی طرح توجہ دیں جس طرح آپ لڑکوں کی تعلیم پر دیتے ہیں۔ جب تک بچیاں پڑھ لکھ کر برسرروزگار نہیں ہو جاتیں اس وقت تک انکی شادی نہ کریں۔ لڑکے والے کی نظر خود مختار لڑکیوں کے جہیز کے بجائے انکی تنخواہوں پر ہوتی ہے۔ شوہر اور سسرال والے بھی نوکری والی لڑکیوں سے زیادتی کرتے وقت احتیاط سے کام لیتے ہیں۔
خواتین ملک کی آبادی کا پچاس فیصد ہیں ملکی ترقی میں انکا کردار معمولی نوعیت کا ہے۔ لڑکیوں کو نوکری یا کاروبار شروع کروا کے انکے گھر والے نا  صرف انکے آنے والے کل کو محفوظ بنا سکتے ہیں بلکہ ملک کی خدمت بھی کرسکتے ہیں۔ ملک کی آدھی آبادی مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہو جائے تو چند سالوں میں ملک کے حالات بہت بہتر ہوسکتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply