حسیات سے آگے۔ایٹم کی دنیا۔۔۔وہارا امباکر

پتھر کے ہتھیار، آگ، پہیہ، تحریر اور ایٹم کی تھیوری۔ یہ انسانی تاریخ کے سب سے بڑے ایڈوانس رہے ہیں۔ ایٹم، جو ہمارے ہر طرف ہیں اور ہمیں نظر نہیں آتے، اور یہاں پر کچھ عجیب ہی کوانٹم قوانین ہیں۔ ایٹم کی تھیوری نہ صرف کیمسٹری کو سمجھنے کے لئے درکار تھی بلکہ فزکس اور بائیولوجی کو بھی۔ جب سائنسدانوں نے اس کی حقیقت کو تسلیم کیا اور اس کے قوانین کھولنے شروع کئے تو ان بڑی دریافتوں تک پہنچے جنہوں نے معاشرے کو بدل دیا۔ اس نے بنیادی فورسز سے لے کر ڈی این اے کی نیچر اور زندگی کی بائیوکیمسٹری تک پر نئے طریقے سے روشنی ڈالی۔

ٹیکنالوجی کا انقلاب، کمپیوٹر ریولیوشن، انفارمیشن کا انقلاب اور نیوکلئیر دور ۔۔۔ یہ سب اس لئے ممکن ہوئے کہ ہم نے سو سال پہلے ایٹم کو سمجھ لیا اور پھر اس کو اپنے اوزاروں کا حصہ بنا لیا۔ ٹیلی ویژن سے فائبر آپٹک کی تار، موبائل فون سے کمپیوٹر، انٹرنیٹ سے ایم آر آئی تک اس کامیابی کے پیچھے یہی ہے۔ ہمارے چمکتے بلب اس وقت روشنی خارج کرتے ہیں جب ایٹم کو برقی کرنٹ سے ایکسائیٹ کیا جائے اور وہ کوانٹم چھلانگ لگا کر نچلی انرجی سٹیٹ میں آئیں۔ آج ہمارے سادہ سے لگنے والی مشینیں، جن میں اوون، تھرموسٹیٹ اور کلاک ہیں، ان کے ڈیزائن کا انحصار کوانٹم کی سمجھ پر ہے۔

اس کا آغاز بیسویں صدی کی ابتدا میں ہوا اس سے کئی سال پہلے یہ نوٹ کیا گیا تھا کہ کلاسیکل فزکس (وہ فزکس جو نیوٹن کے حرکت کے قوانین کی بنیاد پر ہے) ایک فینامینا کی وضاحت نہیں کرتی جو بلیک باڈی ریڈی ایشن ہے۔ اب ہم جانتے ہیں کہ اس کا انحصار ایٹم کی کوانٹم خاصیتوں پر ہے۔ اس وقت کسی کو کوئی اندازہ نہیں تھا کہ یہ ایک چھوٹا سا مسئلہ کس سمت اشارہ کر رہا ہے۔ خیال یہی تھا کہ کنفیوژن اس بنا پر ہے کہ اس معاملے پر نیوٹونین فزکس کا ٹھیک طرح سے اطلاق نہیں کیا جا رہا اور اس کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن فزسٹ دوسرے ایسے فینامینا دریافت کرتے گئے جن کی وضاحت نیوٹونین تھیوری سے نہیں ہو پا رہی تھی۔ اور پھر انہیں احساس ہوا کہ خیالات کا بڑا حصہ ویسے ہی اتار پھینکنا پڑے گا جیسے پچھلی جنریشن نے ارسطو کے ساتھ کیا تھا۔

کوانٹم ریولیوشن بیس سال کی جدوجہد کا نتیجہ تھا۔ اور یہ صرف بیس سال میں ہو گیا، نہ کہ صدیوں یا ہزاروں سال میں ۔۔۔ اس وجہ سے ممکن ہوا کہ بہت سے سائنسدان اس مسئلے پر کام کر رہے تھے۔ سوچ کا یہ نیا طریقہ قبول کرنا آسان نہیں تھا۔ کوانٹم تھیوری کی فلاسفی ابھی بھی پرجوش مباحث کا موضوع ہے۔ کیونکہ اس سے دنیا کی بننے والی تصویر پہلے سے یکسر مختلف تھی۔ اتنی مختلف کہ اس کے بانیوں کو بھی اپنے ٹھیک ہونے پر یقین نہیں تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایٹم کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ یہ بہت ہی چھوٹا ہے۔ کیا ایک ناقابلِ مشاہدہ آبجیکٹ کو اصل سمجھا جا سکتا ہے؟

ڈالٹن نے ایٹم پر کام کیا تھا لیکن کم سائنسدان اس کو اصل سمجھتے تھے۔ وہ سائنسدان بھی جو ڈالٹن کے تصورات کی بنیاد پر کام کرتے تھے، ان میں سے بھی کئی اسے فینامینا کو سمجھنے کا ایک تصور قرار دیتے تھے۔ یعنی کیمیکل ری ایکشن ایسے ہوتے ہیں کہ بظاہر ایٹم ایک دوسرے سے ملاپ کر رہے ہوں۔ جیسے یہ ریاضی کا کنسٹرکٹ ہو، نہ کہ کوئی حقیقی شے۔ کچھ کا خیال تھا کہ ایٹم فلسفے کا حصہ ہیں، سائنس کا نہیں اور اس خیال پر ہی سائنس میں پابندی ہونی چاہیے۔ جرمن کیمسٹ فریڈرک اوسٹوالڈ نے کہا، “یہ فرضی conjecture ہیں جو کسی ایسے نتیجہ تک نہیں لے جا سکتے جس کی تصدیق کی جا سکے”۔

اور یہ ہچکچاہٹ معقول تھی۔ صدیوں سے سائنس نے فلسفے سے علیحدگی ہی اس بنیاد پر اختیار کی تھی کہ نیچر کے تصورات کو تجربے اور مشاہدے سے سپورٹ کیا جا سکے۔ قابلِ تصدیق ہونا کسی مفروضے کے سائنسی ہونے کی خاصیت سمجھی جاتی تھی۔ اس طریقے کی مدد سے کئی قدیم خیالات کو مسترد کیا گیا تھا۔

ایٹم کا وجود براہِ راست ٹیسٹ نہیں کیا جا سکتا تھا لیکن ان کی موجودگی کے مفروضے سے ایسے قوانین نکلتے تھے جن کو ٹیسٹ کیا جا سکے۔ مثال کے طور پر ایٹم کے تصور کے مطابق ایسے قوانین ریاضی کی مدد سے اخذ کئے جا سکتے تھے جو گیس کے درجہ حرارت اور پریشر کا تعلق بتائیں۔ لیکن ایٹم کے ساتھ آخر کیا کیا جائے؟ یہ اس وقت سائنس کے فلسفے کے لئے ایک سوال تھا۔ اس کا جواب مبہم تھا اور اس وجہ سے انیسویں صدی کا بڑا حصہ یہ ایک غیرمرئی وجود رہا جو فزسٹ کے کاندھوں پر سوار ان کے کان میں فطرت کے رازوں کی سرگوشیاں کرتا تھا۔

یہ وہ سوال تھا جس کا جواب بعد میں اتنے طاقتور طریقے سے مل گیا کہ اب اس بارے میں کسی کو شک نہں۔ اور اگر سائنس کو آگے بڑھنا ہے تو اب ہمیں معلوم ہے کہ براہِ راست حسیاتی تجربے پر فوکس رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply