• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • غداری کےفتاوی آج کی ہی بات نہیں بلکہ 73 سالوں کی داستان ہیں۔۔ غیور شاہ ترمذی

غداری کےفتاوی آج کی ہی بات نہیں بلکہ 73 سالوں کی داستان ہیں۔۔ غیور شاہ ترمذی

معاشرتی سائینسدان کہتے ہیں کہ اس خطہ کے لوگوں کی سرشت میں شامل ہے کہ انہیں ہر وقت ایک ہیرو اور ایک دشمن (یا غدار) چاہیے ہوتا ہے- راقم یہ عرض کرنا چاہتا ہے کہ اگر کسی وقت دوست اور دشمن موجود نہ ہوں تو بھی یہ قوم اس معاملہ میں اتنی ترقی یافتہ ہے کہ یہ دوست اور دشمن خود بھی پیدا کر لیتی ہے- تاریخ سے شغف رکھنے والے احباب جانتے ہیں کہ پچھلے 73 سالوں کے دوران قوم کو مختلف وقتوں میں مختلف غدار بتائے گئے اور ان غداروں کی اکثریت حکومت وقت کے مخالف نظریات رکھنے والے سیاستدانوں پر مشتمل تھی- آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 6 کہتا ہے کہ “ہر وہ شخص غدار ہے جو طاقت کے استعمال یا کسی بھی غیر آئینی طریقے سے آئینِ پاکستان کو منسوخ، تحلیل، معطل یا عارضی طور پر بھی معطل کرتا ہے یا ایسا کرنے کی کوشش بھی کرتا یا ایسا کرنے کی سازش میں شریک ہوتا ہے”۔ ملکی مفاد کے خلاف کام کرنے والا شخص‘ آئین کے مطابق غداری کی تعریف کے اندر نہیں آتا۔ وہ ’قومی سلامتی‘ کے زمرے میں آتا ہے جس کی کئی ذیلی دفعات ہو سکتی ہیں۔ان میں فوج میں بغاوت کی ترغیب دینا، امن و عامہ کی صورتحال پیدا کرنا اور دشمن ملک کے ساتھ مل کر سازش کرنا شامل ہیں۔

غداری کی بیان کردہ اس آئینی تشریح کی بنیاد پر تو کوئی سیاستدان پورا نہیں اترتا کیونکہ کسی سیاستدا ن نے کبھی آئین کے ساتھ کھلواڑ نہیں کیا۔ مگر ان غدار سیاستدانوں کی غداری ثابت کرنے کے لئے صرف حاکم وقت کے بیانات ہی نہیں بلکہ سرکاری و غیر سرکاری میڈیا، عدالتوں کے فیصلے اور آرڈیننس بھی جاری کئے گئے- جب اس پر بھی اکتفا نہ ہوا تو نصاب کی کتابوں میں بھی مخالفین کو دشمن، غدار، چور، کافر وغیرہ قرار دے کر بچوں کے ذہنوں کو پراگندہ کیا گیا۔

؎ بولتے جو چند ہیں، سب یہ شرپسند ہیں
ان کی کھینچ لے زباں ،ان کا گھونٹ دے گلا

ہماری 73 سالہ تاریخ میں ہمارے حکمران اور ان کے مخالف ایک دوسرے پر غداری کے سنگین الزامات لگاتے چلے آئے اور اب بھی لگا رہے ہیں۔ اس حساب سے محب وطن تلاش کرنا جان جوکھم میں ڈالنے والی بات ہے۔ قیام پاکستان کے ساتھ ہی خان عبدالغفار خان، جی ایم سید، مولانا بھاشانی کو غداری کا تمغہ عطا ہوا- سیاسی مخالفین کی پکڑ ھکڑ اور سیاسی سرگرمیوں کی حو صلہ شکنی کرنا وزیر اعظم لیاقت علی خان کی قیادت میں قائم حکومت کی اولین ترجیح تھی۔ حسین شہید سہروردی کو نہ صرف غدار بلکہ کتا تک کہا گیا تھا ۔ پھر ایک وقت آیا کہ یہی غدار پاکستان کا وزیر اعظم بنا اور اس نے پاکستان کے اٹامک انرجی کمیشن کی بنیاد بھی رکھی۔ قیام پاکستان کے ایک ہفتے کے اندر ہی صوبہ سرحد کی صوبائی حکومت کو ملک دشمن قرار دے کر توڑ دیا گیااور ایک ایسے شخص کو وزیر اعلی ٰ نامزد کر دیا گیا جو صوبائی اسمبلی کا رکن تک نہیں تھا ۔مسلم لیگ کے علاوہ کسی دوسری سیاسی جماعت کا قیام ملک دشمنی اور اسلام دشمنی کے مترادف قرار دے دیا گیا تھا ۔ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری سجاد ظہیر ابھی پاکستان بھی نہیں پہنچے تھے کہ ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے گئے تھے۔ سنہ 1951ء میں کیمونسٹ پارٹی کی تقریباً  ساری مرکزی قیادت کو راولپنڈی سازش کیس کی ملوث ہونے کی بنا پر گرفتار کر لیا گیا تھا ۔ گرفتار ہونے والوں میں فیض ا حمد فیض بھی شامل تھے ۔ سنہ 1954ء میں ’ملک دشمنی ‘کی آڑ میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی عائد کر دی گئی تھی ۔ اِسی سال مشرقی بنگال میں یونائیٹڈ فرنٹ کی منتخب صوبائی حکومت کو بر طرف کر کے وزیر اعلیٰ اے۔کے فضل الحق کو نہ صرف گرفتار کر لیاگیا بلکہ ’غٖدار ‘ بھی قرار دیا گیا تھا۔ جنرل ایوب خان نے بدنام زمانہ ایبڈو قانون کے تحت تمام سیاستدانوں کو بے ایمان، ملک دشمن اور غدار قرار دیتے ہوئے سینکڑوں سیاستدانوں پر پابندی لگا دی۔ جنرل ایوب نے اسی پرا کتفا نہیں کیا بلکہ اُس نے اپنے خلاف الیکشن لڑنے کے جرم میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو انڈین ایجنٹ قرار دیتے ہوئے غدار بھی قرار دے دیا۔ جنرل ایوب نے جماعت اسلامی پر بھی پابندی عائد کر دی تھی اور مولانا مودودی کو سزاے موت دلائی تھی جو بعد ازاں سپریم کورٹ نے ختم کی تھی ۔

جنرل یحییٰ خان نے نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) پر پابندی عائد کی اور سنہ 1970ء کے الیکشن کے بعد عوامی لیگ کو کالعدم قرار دے دیا تھا جس کا نتیجہ مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بن جانا اور افواج پاکستان کو انڈیا کی قید میں چلے جانا نکلا ۔ جنرل یحیٰ کے مشرقی پاکستان میں کئے گئے فوجی ایکشن کے نتیجے میں عوامی لیگ کے روپوش ہوجانے والے ارکان قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں کوخالی قرار دے کر ان پر میجر جنرل راو فرمان علی خان نے ضمنی انتخابات بھی کر وا دیئے تھے۔ وزیر اعظم بھٹو نے بر سر اقتدار آکر نیب  پر پابندی ہٹا لی تھی لیکن انٹیلی جنس  اداروں نے سنہ 1974ء میں اسلام آباد میں عراق کے سفارت خانے سے اسلحہ بر آمد کروا کے بھٹو کو مجوبر کر کے نیپ پر دوبارہ پابندی عائد کر وا دی تھی ۔ اس کی بنیاد پر بلو چستا ن میں قائم مینگل حکو مت کو ڈسمس کر دیا تھا اور ساتھ ہی وہاں فوجی ایکشن شروع ہوگیا تھا۔ بعد ازاں نیپ نے نئی شکل نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی کی اختیا ر کر لی تھی ۔ شیر باز مزاری اس کے صدر اور محترمہ نسیم ولی خان کی اس نئی پارٹی کی نائب صدر بنی تھیں۔ حید ر آباد کیس کے خاتمے کے بعد جب پشتون اور بلوچ قیاد ت رہا ہوئی تو انھوں نے عوامی نیشنل پارٹی کے نام سے نئی پارٹی بنا لی تھی جس میں این۔ڈی ۔پی ضم ہوگئی تھی۔ اس دوران مسلسل یہی پراپیگیڈہ کیا جاتا رہا کہ عبدالولی خان ملک دشمن اور غدار ہیں۔ سرکاری اور غیر سرکاری ذرائع ابلاغ سے تقریباً روزانہ کی بنیاد پر ولی خاں کی ملک دشمنی اور بھارت نوازی کے چٹخارے دار قصے سنائے جاتے تھے۔ بھٹو صاحب اقتدار میں تھے تو ان کے مخالفین خصوصاً منصورہ والے صالحین کے حامی اخبارات وجرائد انہیں غدار کہا کرتے تھے۔

جنرل ضیا ء الحق نے مار شل لا نافذ کرنے کے بعد پہلا کام پیپلز پارٹی کو توڑنے کا شروع کیا تھا ۔ مولانا کو ثر نیازی نے پرو گریسو پیپلز پارٹی کے نام سے نئی پارٹی لانچ کی تھی جس کے وہ چیئر مین بنے اور بیرسٹر کمال اظفر جنرل سیکرٹری مقرر ہوئے تھے ۔ اس پارٹی کا منشور مارشل لا حکومت سے تعاون اور پیپلز پارٹی کو بھٹو خاندان سے ’محفوظ‘ بنا نا بتایا گیا تھا ۔ جب یہ پارٹی اپنا طے شد ہ ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہی تو سابق وزیر اعلی ٰ پنجاب حنیف رامے نے مساوات پارٹی کے نام سے پارٹی بنائی اس کے ذمہ بھی یہی ڈیوٹی تھی کہ پیپلز پارٹی کے کارکن توڑے اور بھٹو خاندان کی’ انتہا پسندانہ‘ سیاست سے پارٹی کو محفوظ بنائے ۔ یہ بیل بھی منڈھے نہ چڑھی تو غلام مصطفے جتوئی کو میدان میں اتارنا پڑا، تاکہ وہ پیپلز پارٹی سے سندھ کارڈ چھین سکے لیکن شومئی قسمت وہ بھی ایسا کرنے میں ناکام رہے اور انھیں قومی اسمبلی کی اپنی نشست کے لئے نواز شریف سے بھیک مانگنا پڑی اور وہ نارووال سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے ۔ محترمہ بےنظیر بھٹو کو جناب نواز شریف نے سیکورٹی رسک اور بھارتی ایجنٹ قرار دیا تھا۔ اس کے علاوہ پیپلز پارٹی کے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری اعتزاز احسن پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے انڈین پنجاب میں آزادی کے لئے لڑنے والے سکھوں کی فہرستیں بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی کو مہیا کی تھیں جس کی وجہ سے انڈین حکومت کو خالصتان تحریک کو کچلنے میں بنیادی مدد ملی وگرنہ تو سکھ اپنے لئے پنجاب کو انڈیا سے الگ کروانے ہی والے تھے۔

جنرل پرویز مشرف پہلے تو میاں نواز شریف حکومت کو فوجی ایکشن سے برخواست کیا، اُن پر مقدمہ چلا کر سزائے موت سنائی مگر بعد ازاں سعودی عرب کی مداخلت پر انہیں 10 سالوں کے لئے جلاوطن کر دیا۔ میاں نواز شریف سے نمٹنے کے بعد جنرل مشرف نے پیپلز پارٹی کو توڑنے کے لئے پیپلز پارٹی پٹریاٹ بنائی جس کے سہارے پانچ سال تک وہ اقتدار کے مزے لوٹتے رہے ۔ماضی میں جنرل آصف نواز جنجوعہ ایم کیو ایم حقیقی بنا چکے اور پھر ایم کیو ایم لندن، ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سر زمین پارٹی بھی بنوائی گئیں۔ ان سب کے نعرے یہی بنے کہ اُن کے گروپ کے علاوہ باقی تمام گروپ غدار ہیں اور انڈین ایجنٹ ہیں۔ وقت کا پہیہ گھوما اور پھر جنرل مشرف کو بھی مسلم لیگ نون نے غدار قرار دیا اور اُن کے خلاف غداری کا مقدمہ بھی درج کروا کر انہیں عدالت سے سزائے موت بھی دلوا دی۔ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف کی اقتدار سے علیحدگی اور مقدمات میں جیل یاترا اور اب لندن “جلا وطنی” کی بنیاد بھی جنرل مشرف کے خلاف غداری کا مقدمی درج کرنے اور انہیں سزا دلوانے کا شدید ردعمل تھا۔

عمران خاں منظر عام پر لائے گئے جنہوں نے پہلے مسلم لیگ نون، پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کو بدعنوان قرار دیا اور پھر “پانامہ لیکس” کی بنیاد پر میاں نواز شریف کی حکومت کو ڈسمس کروایا گیا۔ عمران خاں حکومت قائم ہوئی اور آج کل جناب نواز شریف بھارت نوازی اور غداری کے الزام کی زد میں ہیں۔ حتیٰ کہ حال ہی میں جناب وزیراعظم عمران خاں نے انہیں بھارت کا خصوصی تعلق دار قرار دیا جبکہ تحریک انصاف کے سوشل میڈیا ٹائیگرز انہیں سر عام غدار قرار دیتے ہیں۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دنوں حکومت اور تحریک انصاف کے متولیان جن باتوں کی وجہ سے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے انہیں بھارت نواز اور اداروں کا دشمن قرار دے رہے ہیں اس سے زیادہ تند وتلخ اور سخت باتیں جناب عمران خان ماضی میں کرتے رہے ہیں، تب جو لوگ عمران خان کی باتوں پر تالیاں پیٹ پیٹ کر نڈھال ہو جاتے تھے اب انہیں نوازشریف کی باتیں مودی کا ایجنڈا لگتی ہیں۔

خود وزیر اعظم عمران خاں کے بارے میں اپوزیشن راہنما مولانا فضل الرحمٰن تو سر عام نہیں یہودی ایجنٹ تک قرار دیتے ہیں۔ بلاول بھٹو نے ایک دفعہ بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ تحریک انصاف دعا کرے کہ” اگلی حکومت پیپلز پارٹی کی ہو کیونکہ ہم انتقامی سیاست پر یقین نہیں رکھتے۔ اگر ہماری بجائے حکومت مسلم لیگ نون کی آئی تو پھر تحریک انصاف کے ساتھ اچھی نہیں ہو گی۔ اور اگر حکومت مولانا فضل الرحمٰن کی آئی تو پھر توبہ توبہ توبہ”۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ عمران خاں اور اُن کے ساتھیوں کو جب بھی حکومت سے محروم ہونا پڑا، اُن کے لئے حالات خیریت والے نہیں دکھائی دیتے کیونکہ انہوں نے سیاست میں جس طرح ذاتی نفرت کو فروغ دیا ہے، اُس کا اگلا نشانہ وہ خود بننے جا رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تاریخ کا سبق یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں اور مقبول لیڈروں کو جبر اور سازش سے ختم نہیں کیا جاسکتا ۔ سیاسی جماعتوں کا اگر معاشی اور سیاسی جواز رہے گا تو وہ قائم رہیں گی خواہ ان کے خلاف جبر و تشدد کے کتنے ہی ہتھکنڈ ے کیوں نہ استعمال کئے جائیں۔ سیاسی اختلافات میں غدار وکافر کی پھبتی، عدم برداشت مکالمہ کی جگہ نفرت بھرے الزامات یہ سب پہلے درست تھا نہ اب ہے۔کسی کے نظریات یا انداز سیاست وحکمرانی سے اختلافات کوئی برائی ہرگز نہیں، معاشرے انہی کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں۔ یہ برصغیر پاک وہند کی دنیا دیگر دنیاؤں سے یکسر الگ تھلگ ہے۔ اپنی دنیا کو باقی ماندہ دنیا سے الگ تھلگ کر کے ہم ترقی کے سفر پر آگے نہیں بڑھ سکتے البتہ ترقی معکوس کا وہ نہ رکنے والا سفر ضرور شروع کر چکے ہیں جس کا انجام ملکی سالمیت اور معاشرہ کی تباہی کے حوالہ سے شدید خطرناک ہو گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply