گلی بھر کی مسافت(قسط1)۔۔عارف امام

نوجوانی میں ایک شعر کہا تھا
“اک عمر چلا اور ترے گھر تک نہیں پہنچا
یہ ایک گلی بھر کی مسافت بھی عجب ہے”

Advertisements
julia rana solicitors

یاد داشتیں لکھنے بیٹھا تو وہ گلی بھی یاد آئی اور یہ شعر بھی، سوچا کہ اس داستانِ دراز کا نام “ گلی بھر کی مسافت” ہی رکھ دیا جائے۔
حسبِ وعدہ پہلی قسط حاضر ہے۔ احباب کے تبصروں سے اندازہ ہوگا کہ اس قصۂ بے مصرف کو جاری رکھا جائے یا لپیٹ دیا جائے۔
قسط کی طوالت یا اختصار کا فیصلہ بھی احباب کی رائے پہ منحصر ہے۔
بندۂ بے نام – عارف امام
—————
میں کراچی کی ایک مضافاتی بستی کورنگی کے جس محلے میں پلا بڑھا اسے آپ اگر مجموعۂ اضداد کہیں تو تعجب کی بات نہ ہوگی۔ تین چار سو کی تعداد میں ایک سو بیس گز کے کوارٹرز پہ مشتمل محلہ جسے کورنگی تین نمبر کا نام دیا گیا؛ ایک طرف لکھنئو، فیض آباد اور کانپور سے ہجرت کرنے والے نجیب الطرفین سادات کا مسکن تھا تو دوسری طرف میواتی اور کاٹھیاواڑی مہاجرین کا ڈیرہ بھی۔ میری گلی میں ہی دو تین گھر چھوڑ کر ایک بھینسوں کا باڑہ بھی تھا جس کی دیواروں پر اپلے تھپے ہوتے اور اس کے ساتھ ہی ایک سبزی فروش کا گھر بھی جن کا ٹھیلا اور زوجہ، زوجگی کے تمام مظاہر سمیت ہمہ وقت گلی میں موجود ہوتے۔
ٹھیلے پر ہمہ اقسام کی سبزیاں اور ہر سائز کے پتّے دھرے ہونے کے باوجود ان کے بچے قدرتی لباس میں رہنے کو ترجیح دیتے۔ زوجہ محترمہ خاصی صحت مند تھیں جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ یہ گھرانا سبزی بیچتا ضرور ہے کھاتا ہرگز نہیں۔ معزز خاتون نت نئی گالیاں ایجاد کرنے اور بکنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھیں۔ میں نے بھی حسبِ استطاعت یہ ہنر انہی سے سیکھا۔
گھر کے سامنے والی گلی میں کونے سے دوسرا مکان پولیس کے ایک ملازم کا تھا جو اسوقت شاید پولیس میں محرر تھے اور رشوت ہرگز نہیں لیتے تھے جس کا پتہ گھر کے دروازے پر پڑے ہوئے بوسیدہ پردے، ان کے دبلے پتلے جسم اور اولاد کی شرافت و سعادت مندی سے چل جاتا تھا۔ بڑے بیٹے جو عمر میں مجھ سے شاید ایک آدھ سال بڑے ہوں محلےمیں اپنی لیاقت اور لمبے قد کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے اور کبھی کبھار موج میں آتے تو مجھے ٹیوشن بھی پڑھاتے۔ سبق یاد نہونے کے نتیجے میں باپ سے سیکھے گئے قانونی تشدّد کے نسبتاً مہذب طریقے مجھ پہ آزماتے۔ کبھی کبھار میں اپنی غصیلی طبیعت کے سبب ان سے جھگڑ بیٹھتا تو فرماتے کہ ابے تو میری ٹانگ برابر بھی نہیں ہے اور لڑتا ہے مجھ سے؟ بھٹو دور میں سول سروسز کا امتحان پاس کرکے پولیس میں ڈی ایس پی کے عہدے پہ فائز ہوئے۔ آخری اطلاع مجھ تک یہی پہنچی کہ وہ بلوچستان میں ڈی آئی جی بھی رہے۔ ان کا نام آصف علی شاہ ہے۔
انکے گھر سے متصل دو مکانات بخاری صاحب کے تھے۔ جن میں کچھ دنوں ایک مشہور فلمی اداکارہ تمنا بھی تکمیلِ تمنّا تک مقیم رہیں۔
بخاری صاحب کا ذریعہ معاش کیا تھا یہ نہ مجھے خبر تھی نہ کسی اور کو، ان دنوں ایسے معاملات سے کسی کو دل چسپی ہوتی بھی نہیں تھی، البتہ ان کے چھوٹے بھائی اکثر کورنگی میں لگنے والے سرکس وغیرہ کے ٹکٹ بیچتے نظر آتے تھے اس لئے بچوں میں مقبول بھی تھے۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ کچھ بڑوں میں بھی ایک خوشبو دار سگریٹ فراہم کرنے کے سبب چاہے جاتے ہیں۔
کچھ عرصے بخاری صاحب کا ایک مکان خالی رہا تو میں نے ان سے درخواست کی کہ اگر وہ اجازت دیں تو ہم اس مکان میں بچوں کا تھیٹر کر لیا کریں۔ انہوں نے نہ صرف اجازت دی بلکہ کمالِ فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی جیبِ خاص سے ٹرک بھر مٹّی بھی صحن میں ڈلوادی تاکہ ہم ایک چبوترہ بنا کر بطور اسٹیج استعمال کر سکیں۔
محلے کے بچے اس تھیٹر کے اداکار تھے۔ ڈرامے کا ہیرو، ڈرامہ نگار، ہدایت کار وغیرہ وغیرہ میں خود ہی تھا۔ کچھ دنوں پہلے ان تماشائیوں میں شامل ایک بچے سے رابطہ ہوا جو اب ماشااللہ خود جیو ٹی وی میں پروڈیوسر ہے۔ کسی بچے پہ ڈرامے کا اتنا گہرا اثر پہلی بار دیکھا۔ اسی نے یاد دلایا کہ ایک سین نے بچوں کی چیخیں نکلوا دی تھیں جس میں ہیرو ولن کے پیٹ میں چھری گھونپتا ہے اور ولن کے پیٹ سے بھلل بھلل خون بہتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ پروڈیوسر بن کے وہ بچہ بھی اسی طرح خبروں کے بدن سے ایسی بھلل بھلل سرخیاں نکالتا ہوگا کہ سننے اور دیکھنے والے اتھل پتھل ہوجائیں۔
گیٹ کیپر کے فرائض انجام دینے کے لیے ابّا مرحوم سے درخواست کی گئی جو انہوں نے کمالِ شفقت سے منظور بھی کرلی۔ ان سے یہ درخواست کرنے کی ہمت اس لئے ہوئی کہ انہوں نے ایک بار بتایا تھا کہ پرانی نمائش پہ لگنی والی نمائش میں ہمارا پیٹ بھرنے اور ڈھانکنے کی خاطر انہوں نے پارٹ ٹائم ٹکٹ بھی بیچے ہیں۔
ڈرامے کا ٹکٹ شاید ایک چوّنی یا اٹھّنی تھا۔ ڈرامہ شروع ہونے سے پہلے ہی صحن بچوں سے کھچا کچ بھر گیا۔ میں اسٹیج سے بچوں کا شور اور جیب میں ممکنہ طور پہ آنے والی اٹھّنیوں چوّنیوں کی کھنک سن کے مسرور و شادماں تھا۔ ڈرامے کے اختتام پہ گھر کی راہ لی گئی جو سامنے ہی دو قدم پہ تھا، گھر پہنچتے ہی ابّا سے سوال کیا کہ کتنے پیسے آئے؟ ابّا نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور کمالِ التفات سے میرے پھیلے ہوئے دستِ امید پہ چار پانچ چوّنیاں دھر دیں۔ میں گویا ایک جھٹکے سے چمن زار امید سے ریگزار یاس میں جا گرا۔ رندھی ہوئی آواز سے کہا کہ ابّا اتنے سارے بچے تھے۔ ابّا نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میں نے تو کسی سے پیسے لیے ہی نہیں، بھلا کوئی اپنے بچوں سے بھی پیسے لیتا ہے؟
جاری ہے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply