اسلامی جمہوریہ پاکستان مملکت خداداد ، جس کا قیام کسی معجزہ سے کم نہیں ہے۔ اتنی بڑی ریاست کا معرض وجود میں آ جانا بغیر کسی اسلحے، فوج اور جنگ کے ممکن ہی نہیں تھا۔
میں 22 اور 23 مارچ 1940 کے تاریخ ساز اور انقلابی اقدام کے پس منظر میں سوچ رہا تھا، مجھے یاد پڑ رہا تھا کہ 22 مارچ 1940 آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس لاہور کے انعقاد سے کچھ دن پہلے لاہور میں فائرنگ کر کے کچھ مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا تھا۔ حالات کی کشیدگی کے باعث مسلم لیگی عمائدین نے قائد اعظم محمد علی جناح رح کو اجلاس ملتوی کرنے کی تجویز دی تھی۔ لیکن قائد اعظم رح ڈٹ گئے تھے اور پورے عزم سے کہا تھا کہ یہ اجلاس 22 اور 23مارچ کو ہی منعقد ہو کر رہے گا۔ اس اجلاس میں برصغیر کے پچاس ہزار مسلمانوں نے شرکت کی جو اس دور میں بہت بڑی تعداد تھی۔ برصغیر کے مسلمانوں کی منزل پاکستان کے حق میں قرارداد لاہور منظور کر لی گئی جس کی رو سے برصغیر کی تقسیم کو لازم و ملزوم قرار دیا گیا۔وہ تقسیم کہ جس کے نتیجے میں پاکستان کا قیام عمل میں لایا جائے۔ یہ بڑا تاریخی دن تھا جس نے بر صغیر کے مسلمانوں کی منزل پاکستان کا تعین کر دیا اور بالآخر 14 اگست 1947 کو پاکستان معرض وجود میں آگیا۔
پاکستان کو معرض وجود میں آئے 73 سال ہوگئے لیکن ہم نے بحیثیت قوم اپنے اندر مسلمانیت پیدا کرنے کی کوشش کی نہ ہی پاکستانیت اجاگر ہو سکی۔ کرونا وائرس نے دنیا کے ساتھ پاکستان کو بھی متاثر کیا ہے۔ مہذب اقوام اس سے نمٹنےکے لیے متحد ہو کر ایک سیسہ پلائی دیوار کی طرح اس ناگہانی صورتحال سے خلاصی پانے کے لیے کھڑی ہوگئی ہیں۔ان میں یکسوئی بھی ہے۔ مرکزیت بھی قائم ہے۔ قومیت کا جذبہ بھی ہے۔ لیکن ہم میں مسلمان جاگا ہے نہ پاکستانیت نے انگڑائی لی ہے۔ ملک میں ذخیرہ اندوزی، منافع خوری، لاپرواہی، بے اعتنائی اور بے حسی نے پوری قوت سے ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ حکومت نے کرونا وائرس کو روکنے کے اقدام کرنے کی بجائے بارڈر کھولے رکھے اور پھر جب کیسز بڑھ گئے تو کوئی مرکزی پالیسی بنانے میں ناکام رہی۔ مرکزیت تو ابھی تک مفقود ہے۔ صوبے گوں مگوں کی صورتحال سے دوچار کہ مرکز سے کوئی مرکزی پالیسی آجائے۔
ایسے ہی حالات میں تو بڑے فیصلے حکومتوں کو لینے ہوتے ہیں اور پھر جب ایسے مشکل فیصلے لیے جاتے ہیں تو قوم کو ان پر یکسوئی سے عمل بھی کرنا ہوتا ہے۔ موجودہ صورتحال میں حکومت اور عوام دونوں سنجیدہ نہیں ہیں۔ پھر بھی سچے مسلمان اور دل ہے پاکستانی کہتے ہمیں شرم محسوس نہیں ہوتی۔
مسلمان تو ذمہ دار زندگی گزارتا ہے۔ اور جو ملک مسلمانوں کا ہو وہاں تو بھر پور نظم و ضبط کا مظاہرہ ہونا چاہیے۔ اور حکومت تو ماں ہوتی ہے۔ یہاں ماں سوئی رہی عوام بے سروساماں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے اندر مسلمانیت پیدا کریں۔ اس اسلام کو اپنے اندر بسالیں جس کی رو سے ایک نظریہ کے حامل تمام لوگ ایک ہی قوم کے افراد ہیں۔ اسلام اور اسلامی قومیت کے احیاء سے ہی ہم اس ناگہانی صورتحال سے نکل سکتے ہیں ۔ نظریہ اسلام سے ہی پاکستان قائم دائم رہ سکتا ہے۔ اسلام اور اسلام کے نظام کی صحیح معنوں میں تعبیر کرنا ہوگی وہ تعبیر جس کے نتیجے میں ہم واقعی مسلمان بن جائیں اور فخر سے پاکستانی کہلا سکیں ۔ ہمیں 1940 میں مینار پاکستان کے احاطے میں جمع مسلمانوں کا عزم اپنے اندر لانا ہے۔ جس مقصد کے لیے انہوں نے لازوال جدوجہد کے بعد بے مثال قربانیاں دی تھیں وہ جذبہ اپنے اندر پیدا کرنا ہے
اسلامی نظام حیات کو ملک میں نافذ کرنا ہو گا تبھی ہم سرخرو ہوسکیں گے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں