جینا کل پر مت چھوڑو( سٹریس ویکسین سیریز )قسط9۔۔عارف انیس

ہم انسانوں کی ایک کمینی عادت ہے۔ ہم پریشان آج ہونے کو ترجیح دیتے ہیں، جب کہ جینا کل پر چھوڑ دیتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ پریشانی ملتوی نہیں ہوسکتی۔ بھلا کیا پتہ، کل ہو، نہ ہو!
آپ نے ارد گرد بہت سے دوست احباب دیکھے ہوں گے، جو ایڈوانس میں پریشان ہوتے ہیں۔ وہ اپنے دماغ میں سین کھیلتے ہیں، اور ایسا ویسا ہوجانے کے تمام زاویے کھوج لیتے ہیں۔ نفسیات دانوں کی ایک دس سال پر محیط ریسرچ بتاتی ہے کہ ایڈوانس میں پریشان ہونے والوں کے %91 اندازے غلط نکلتے ہیں۔
لبرٹی انشورنس نے لاکھوں افراد ہر مشتمل ریسرچ سے یہ کھوج لگائی کہ %38 لوگ روزانہ کی بنیاد پر پریشان ہوتے ہیں، ان چیزوں کے لیے جو رونما نہیں ہوتیں۔ ایک اور بڑی ریسرچ سے یہ معلوم ہوا کہ 25 سال تک کے نوجوان لڑکے لڑکیاں ایک سال میں 63 دن کے برابر وقت پریشان ہونے پر لگاتے ہیں۔ جب مزید بڑوں میں یہ تناسب سال کے 125 دن تک جا پہنچتا ہے۔
سٹریس کے بارے میں ایک چیز پر واضح ہوجائیں، یہ کہیں اور سے نہیں آتی، یہ آپ کے لائف سٹائل کا حصہ ہے۔ ہمارے اندر سے وہی باہر آتا ہے، جو ہمارے اندر ہوتا ہے۔ ہر روز جو آپ کرتے/کرتی ہیں، کہتے/کہتی ہیں، سنتے /سنتی، کھاتے /کھاتی ہیں، وہی آپ باہر نکالتے ہیں۔ اسے کہتے ہیں، گاربیج ان، گاربیج آؤٹ! اگر کوڑا کھائیں گے تو کوڑا باہر نکلے گا۔ فل سٹاپ!
اگر آپ کا دن کا بیشتر حصہ اخبار میں بری خبریں ڈھونڈنے سے شروع ہوتا ہے، پھر ٹی وی پر پھولے ہوئے سانس اور رقت آمیز لہجے والی نیوز کاسٹر آپ کو تازہ ترین واردات کے بارے میں بتاتی ہے، پھر آپ شیخ رشید، نواز شریف، عمران خان، عثمان بزدار، عمر شیخ، غلام سرور خان اور اسی طرح کے دیگر دانشوروں کے بیانات سنتے ہیں، پھر ان کے بارے میں بحث کرتے ہیں۔ پھر ان کے بیانات آگے بھیجتے ہیں اور پھر فیس بک پر مزید بری خبریں ڈھونڈتے ہیں۔
یہی نہیں آپ سٹریس مقناطیس بن جاتے /جاتی ہیں، فون پر بات ہو تو اڑوس پڑوس اور خاندان میں جو کالی بھیڑیں ہیں آپ نے ان پر تبصرہ کرنا ہے، غیبت کرنی ہے، ادھر ادھر کی لگا دینی ہے۔ پھر رات کو سوتے ہوئے آپ کا معدہ قلابازیاں کیوں نہیں لگائے گا؟ نیند کوسوں دور کیوں نہیں بھاگے گی؟ پورا دن آپ نے اپنے اندر تیزاب انڈیلا ہے، آب تیزابی ڈکار تو آئیں گے۔
سٹریس پر اس ساری گفتگو کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ساری برائیاں سٹریس میں ہیں۔ سٹریس آپ کی دوست ہے۔ آپ کو چوکنا اور ہوشیار رکھتی ہے۔ مسئلہ پریشانی سے شروع نہیں ہوتا، بلکہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب آپ پریشانی کو بیٹھنے کے لیے کرسی یا چارپائی فراہم کردیتے /دیتی ہیں۔ مسئلہ بگڑتا اس وقت ہے جب آپ اس سائرن کو آفت نہیں کرتے /کرتیں اور یہ ہر وقت ٹیاؤں ٹیاؤں کرتا پھرتا ہے۔
اچھا ایک اور چیز ہوتی ہے جسے کہتے ہیں، “سرکل آف کنسرن” ، یعنی توجہ کا دائرہ۔ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا۔ آپ فلسطینیوں کے حق میں ہیں، آپ کو تکلیف ہوئی۔ ایک ہوتا ہے، “سرکل آف انفلیواینس”، یعنی کہ اثر کا دائرہ۔ اگر آپ کو تکلیف تو ہوئی مگر آپ عرب امارات یا بحرین کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، صرف اپنا موڈ خراب کرسکتے ہیں تو یہ عادت سٹریس لینے کے لیے تیر بہدف ہے۔ ہاں، البتہ آپ کچھ ایسا کرسکتے ہیں جس سے فلسطینیوں کے حق میں کچھ پیش رفت ہوسکے، تو بسم اللہ، ضرور کریں۔ ہاں آپ نے زیادتی کے خلاف آواز اٹھائی، جلوس نکالا، توجہ دلائی، زیادتی کے شکار کا سر ڈھانپا، یہ سب کام کرنے والے ہیں۔لیکن ایسا معاملہ جس کے بارے میں سوچ سوچ کر آپ کو تبخیر ہوجائے( مجھے کیوں نکالا؟ عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ کیوں لگایا؟ عمر شیخ کو سی سی پی او کیوں لگایا)، مگر آپ کچھ بھی نہ کرسکیں، اس سے پرہیز بہتر ہے۔ کیا یہ لوگ اس قابل ہیں کہ آپ کی توجہ کا حصہ بن سکیں؟ خالق کی کائنات میں کیسی کیسی خوبصورتیاں موجود ہیں، پھر آپ کی توجہ خوبصورت کیوں نہیں ہوسکتی؟ چلیں، صحافیوں کی تو یہ روزی روٹی ہے، ان کے لیے یہ سب جاننا اور اس پر تبصرہ کرنا ضروری ہے۔ آپ کاہے کو من بوجھل کرتے ہو؟
پچھلے دس برس میں چالیس سے زیادہ ملکوں کا سفر کیا۔ عمومی طور پر یہ دیکھا کہ ہمارا ملک سب سے زیادہ سیاست زدہ ہے۔ ہم اٹھتے، بیٹھتے، کھاتے پیتے سیاست کی جگالی کرتے ہیں۔ حالانکہ اس بارے میں یوسفی صاحب کمال کی بات کر چکے ہیں کہ اپنے ہاں ﺣﺎﻻﺕِ ﺣﺎﺿﺮﮦ ﭘﺮ ﺗﺒﺼﺮﮦ ﮐﺮﺗﮯ ﻭﻗﺖ ﺟﻮ ﺷﺨﺺ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﻠﮉﭘﺮﯾﺸﺮ ﺍﻭﺭ ﮔﺎﻟﯽ ﭘﺮ ﻗﺎﺑﻮ ﺭﮐﮫ ﺳﮑﮯ، ﻭﮦ ﯾﺎ ﺗﻮ ﻭﻟﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﮨﮯ ،ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﺧﻮﺩ ﮨﯽ ﺣﺎﻻﺕ کا ذمہ دار ہے۔
آپ کو ایک ہلکا پھلکا چیلنج کرسکتا ہوں، اخبار پڑھنے اور سیاست زدہ رہنے والا شخص آپ کو اکثر سٹریس سے بھرا ملے گا۔ اس میں غم و غصے اور شکوے کی کیفیات گھلی ملی رہتی ہیں۔ خیر نفسیات یہ بھی بتاتی ہے کہ جہاں مسلسل غیر یقینی کیفیت موجود رہے اور حالات حاضرہ کو کئی سال ہوجائیں ،وہاں کشتی والے ٹاک شوز پی پاپولر ہوتے ہیں۔
پچھلے دس برس میں دنیا کے کچھ غیر معمولی افراد سے ملاقات ہوئی جو اپنی تحریر و تقریر سے لاکھوں افراد کی زندگیوں میں انقلاب لاچکے تھے اور بہت سے میدانوں میں علم کے نئے گوشے دریافت کرچکے تھے۔ میں اس وقت ہکا بکا رہ گیا جب ٹونی بیوزان اور دیپک چوپڑا کے ساتھ ایک لمبا سفر کیا اور معلوم ہوا کہ ان دونوں نے پچھلے بیس تیس سال میں عمومی طور پر نہ کبھی اخبار پڑھا تھا نہ زیادہ ٹی وی دیکھا تھا۔ جب وجہ پوچھی تو جواب سیدھا سا تھا “اخبار اور ٹی وی اپنے مالکوں کے کہنے پر دنیا جہان سے بری خبریں ڈھونڈ کر اکٹھی کر دیتے ہیں، ہمیں بھلا ایسی خبروں سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟”
ہاں، ان لوگوں کو موسیقی سنتے دیکھنا، کتابوں میں محو پایا، حسن کا خوشہ چین پایا، لمبے لمبے فاصلے پیدل چلتے دیکھا، سفر کرتے، فطرت اور آرٹ کی پرستش کرتے دیکھا، ہنستے، مسکراتے دیکھا، سکرین سے زیادہ انسانوں سے بات چیت کرتے پایا، دوسروں کو سنتے اور ان کی مدد کرتے دیکھا اور تب احساس ہوا کہ خوش ہونا اتنا ہی آسان، یا مشکل ہے!
عارف انیس
(مصنف کی زیر تعمیر کتاب “صبح بخیر زندگی” سے اقتباس۔ اس تحریر کو کسی بھی جگہ چھاپنے یا پھیلانے کے لیے آپ کو کسی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔ جملہ حقوق پڑھنے والے کے نام محفوظ ہیں )

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply