سماج (27) ۔ عارضی معاشرے/وہارا امباکر

تاریخِ انسانی میں لاکھوں معاشرے آئے اور ختم ہو گئے۔ ہر ایک اپنے اراکین کو شناخت دیتا تھا۔ اس کے رکن اس کی بقا کے لئے لڑنے کیلئے تیار تھے۔ بہت بار، اس کیلئے جانیں بھی بخوشی دی گئیں۔ ہر ایک سماج اپنے ارکان سے تمام عمر، پیدائش سے موت تک، وفاداری مانگتا رہا ہے۔ اور پھر اگلی نسل سے بھی اور پھر اگلی نسل سے بھی۔ ہزاروں سال تک یہ چھوٹے گروہ تھے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے ارکان کی اپنے گروہ سے وابستگی آج کے مقابلے میں کم تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ممالیہ کے گروہ افراد کی شناخت کی بنا پر بنتے ہیں۔ اور یادداشت کی حد ہے۔ اور اس وجہ سے لگ بھگ دو سو ممبران کی حد سے اوپر جانا ممکن نہیں رہتا۔
سماجی کیڑے بڑے گروہ اس لئے بنا سکتے ہیں کہ انہیں ہر ایک کو یاد نہیں رکھنا ہوتا اور وہ ممبران کو شناخت کے نشان سے پہچانتے ہیں۔ اپنے اور پرانے کے فرق کیلئے یہ مارکر استعمال ہوتے ہیں۔ کیڑوں میں یہ بُو ہے۔ جبکہ انسانوں میں یہ وسیع اور لچکدار ہیں۔ لہجے، اشارے، لباس، حلیہ، رسوم، جھنڈے جیسے مارکر ہمیں اپنے اور پرائے میں بانٹتے ہیں۔
یہ ہر سوسائٹی کا لازم حصہ ہیں۔ بڑے معاشروں کے لئے صرف یہی کافی نہیں ہوتے۔ سماجی کنٹرول قائم رکھنا اور ساتھ ہی ساتھ لیڈرشپ کی قبولیت بھی کردار ادا کرتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔
سماج کی ضرورت نے انسان کی زندگی کے ہر پہلو کو شکل دی ہے۔ معاشرے اور نسل سے ہمارا تعلق ہمارے ہر عمل ہر اثرانداز ہوتا ہے۔ کسی شخص کو دیکھتے ساتھ ہونے والا ردِعمل، ہمارا دیا گیا ووٹ، دوسرے ممالک سے تعلقات کے بارے میں احساس ۔۔۔ اس سب کا تعلق ہماری بائیولوجی سے ہے۔
آج اقوامِ عالم ایک دوسرے پر منحصر ہیں۔ لیکن ہم جو ہیں، سو ہیں۔ ہم وسائل، علاقے اور طاقت کو اکٹھا کرنے کی خاطر پوری کوشش کرتے رہتے ہیں، ویسے ہی جیسے جانور کرتے ہیں۔ حملہ کرتے ہیں، دھوکہ دیتے ہیں، الزام لگاتے ہیں۔ کچھ گروہوں پر اعتبار کرتے ہیں اور ان کے ساتھ ملکر ایسے گروہوں کے خلاف اتحاد بناتے ہیں جن پر ہم اعتبار نہیں کرتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن پچھلی صدی بڑی تبدیلی بھی لائی ہے۔ یہ تبدیلی آگاہی کی ہے۔ آج ہمارا دوسرے لوگوں کے بارے میں علم اور ان سے تعلق جتنا ہے، ویسا پہلے کبھی نہیں تھا۔ ہم پررونق بازار میں بلا خوف و خطر جا سکتے ہیں جہاں پر ہر طرح کے لوگ اپنے کام کر رہے ہیں۔ الگ نسل اور زبانیں بولنے والے بھی۔ اور اگر ضرورت پڑے تو ان سے ہاتھ ملاتے وقت ہمارے دل کی دھڑکنیں تیز نہیں ہو جاتیں۔ اور ایسا ہونا معمولی بات نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سماج سے وابستگی اور اپنے گروہ کے ساتھ شناخت افراد کو دنیا کی غیریقینیت سے بچاتی ہے۔ اپنائیت کا احساس بیرونی اثرات سے محفوظ رکھتا ہے۔ قوم اور قبیلے سے وفاداری کی صفت ہم میں ہمیشہ سے ہے اور رہے گی۔ اگرچہ ہماری قومیں، معاشرے، وطن اور ملک خود میں عارضی ہیں۔ یہ تبدیل ہوتے رہیں گے۔ نئے گروہ ان کی جگہ لے لیں گے اور ویسی ہی وفاداری کا تقاضا رکھیں گے۔ لیکن ہم ہمیشہ یہ یقین رکھتے رہے ہیں کہ سماجی استحکام مستقل ہے۔ یہ سکون دینے والا سراب ہے۔ نسل اور قومیت کی بنا پر جھگڑے اور تناؤ کہیں جانے والے نہیں۔ ہماری یکجہتی کے نشان ہمیں جوڑتے بھی ہیں اور ہمیں توڑتے بھی ہیں۔ ان کی مدد سے ہم اجنبیوں کو اپنا ساتھی سمجھ سکتے ہیں۔ وقت اور جغرافیہ کے فاصلوں میں شناخت کے نشان کھسکتے جاتے ہیں اور معاشرے بکھرتے جاتے ہیں۔
اٹلی ہو یا امریکہ، ایمازون کا قبیلہ یا کوئی بھی اور ۔۔۔ ہم سب اپنے معاشروں کو مستقل سمجھتے ہیں لیکن اپنی بنیادی اساس میں تمام معاشرے عارضی ہیں۔ ان کے تسلسل اور وقت میں طوالت کے لئے بدلتے وقت میں تبدیل ہوتا ردِ عمل چاہیے۔ اور یہ کبھی بھی تنازعے اور تکلیف سے خالی نہیں ہوتا۔
اور سماج کو جوڑنے والی گوند کو ایک حد تک ہی کھینچا جا سکتا ہے۔ جلد یا بدیر، ہر قوم کے ساتھ وہ وقت آ جاتا ہے جب یہ اس چیلنج کے آگے کامیاب نہیں رہتیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply