مغربی ممالک میں بسنے والی مسلمان خواتین کا اہل کتاب سے نکاح

اسلام کو اس دنیا میں متعارف ہوئےچودہ سو سال گزر چکے ہیں قرآن وہ الہامی کتاب ہے جس پر اسلام کی اساس قائم ہے آج سوا ارب سے زائد مسلمان دنیا بھر میں اسلام کے پیروکار ہیں . حقیقتاً اسلام آج دنیا کا سب سے تیزی سے پھیلنے والا مذہب بن چکا ہے

اور اسکی بڑی وجہ اصولًا تو ایک مسلمان کا کردار ہونا چاہئیے
تھا لیکن مسلمانوں کے عمومی کردار و افعال میں موجود کمیوں کے باوجود اسلام کے اسقدر تیزی سے پھیلنے کی دو بڑی وجوہات ہیں . پہلی وجہ اسکا ایک مکمل دین ہونےکے تقاضوں کا پورا کرنا اور دوسری اہم وجہ جس نے لوگوں کو اسلام کے بارے میں جاننے پہ اکسایا وہ اسلام یا مسلمان کے دہشت گردی سے منسلک کئے جانے والا غلط پروپیگنڈا ہے. لوگ منفی تاثر لے کر اسلام کے بارےمیں پڑھنا اور جاننا شروع کرتے ہیں اور اسلام کے بارے میں جاننے پر اس قسم کے سارے تاثر کی نہ صرف نفی کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں بلکہ اس دین کے گرویدہ ہو کر دائرہ اسلام میں داخل بھی ہو جاتے ہیں .

اکیسویں صدی نے جہاں لوگوں کو ایک دوسرے سےبہت تیزی سے قریب کیا ہے وہیں کئی طرح کےسماجی اور معاشرتی مسائل کو بھی جنم دیا ہے
آج مسلمان دنیا کے ہر کونے میں موجود ہیں خصوصاًمغربی دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کو کئی ایک مسائل کا سامنا ہے جو براہ راست مذہب سے متصادم ہیں
جن میں مسلمان بچیوں کی غیرمسلم یا اہلِ کتاب سے متعلق پسندیدگی اور شادی کا معاملہ سرِ فہرست ہے .
یوں تو جوانی کے جوش اور کچھ کر دکھانے کا جذبہ ہمارے ملک کے نوجوانوں کو مغربی ممالک کی طرف کھینچ لاتا ہے حتی کے بعد میں شادی اور بچوں کی پیدائش پر فخریہ بتایا جاتا ہے ہمارے بچوں کے پاس فلاں فلاں نیشنیلٹی ہے لیکن جوں جوں وقت گزرتا ہےاور بچے نوجوانی کی سرحدوں میں داخل ہونےلگتے ہیں والدین کی نیندیں حرام ہونےلگتی ہیں خصوصاًلڑکیوں کے معاملے میں۔

لڑکیوں کو بارہ تیرہ سال کی عمر میں پاکستان اپنے آبائی علاقوں میں بھیجنا اور کم عمری میں انکی شادی یا نکاح قریبی عزیزوں میں کردینا ایک بہت عام سی بات ہے لیکن برطانیہ کی حکومت کےنوٹس میں جب اس طرح کے واقعات آئے تو انہوں سخت ترین قانون سازی کے زریعے مسلمان بچوں اور خصوصاًبچیوں کی جبری شادی کو روکنے کی کوشش کی۔

لیکن صورتِحال کچھ یوں ہے کہ ہر تھوڑےعرصے کی بعد کوئی دل دہلا دینے والا قصہ اخبار کی زینت بن جاتا ہےجس میں نو عمر بچیوں کوباپ، بھائی اور کئی صورتوں میں دیگر گھر والے بھی مل کر قتل کر دیتے ہیں۔
عمومی وجہ لڑکی کا کسی غیر مذہب یعنی دیگراہلِ کتاب کے کےماننے والےکسی لڑکے کے ساتھ کسی قسم کے جذباتی تعلق کا شبہ ہونا ہوتا ہے حتی کہ کبھی اگر لڑکی کسی اور مسلک کے ماننے والے سے بھی شادی کی خواہش کرےتو وہ والدین کے لئے قابل ِقبول نہیں ہوتا۔

ابھی حال ہی میں ہونے والا سامعہ شاہد کا قتل بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کو گھر والوں اور قریبی رشتہ داروں نے ایک سازش کے تحت پاکستان بلا کے محض اس لیئے قتل کر دیا کہ اس نے کسی اور فرقےسےتعلق رکھنے والے سے گھر والوں کی مرضی کے خلاف شادی کر لی تھی۔
یورپ میں بسنے والے والدین کا یہ سب سے اہم اور عمومی مسئلہ ہے .لڑکوں کے معاملے میں تو پھر بھی کسی حد تک رعایت دے دی جاتی ہے اور اس کی اہلِ کتاب عورت سے شادی کو جلد یا بدیر قبول بھی کرلیا جاتا ہے لیکن لڑکی کے معاملے میں یہی مسئلہ والدین اپنی آخرت کی خرابی کے طور پر لیتے ہیں اور جیسا کے اوپر ذکر کیا کہ اس مسئلے پر لڑکیوں کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

آج عمار خان ناصر نے اس مسئلے پر قرانی آیات کے مدلل حوالوں کے ساتھ ایک انتہائی مختلف اور منطقی پہلو کو اجاگر کرنے کی سعی کی ہے مجھے پاکستان کے ذرائع ابلاغ پر اس موضوع پر اس طرز کی تخلیق پڑھ کر بہت اچنبھا ہوا کیونکہ مذہب کے امیروں نےمذہب کو جاننےاور سمجھنےکا حق ایک عام انسان سے چھین لیا ہے اور اگر کبھی ایک عام انسان غورو فکر کےبعد ان کے کھینچے گئےدائرے سے باہر آکرکوئی سوال کردے تو جواب کے بجائے کفر کے فتوے آجاتے ہیں۔

لیکن عمار خان ناصر کی اس موضوع پہ لکھی گئی یہ تحریر بارش کا پہلا قطرہ یا اندھیرے میں روشنی کی پہلی کرن ثابت ہوگی۔ عمار صاحب کی یہ تحریر کسی نئی انقلابی تشریح پر مبنی نہیں بلکہ انہوں نے اس میں دورِ جدید کے بڑے عالم ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب کی تصنیف ”مقاصد شریعت“ کے
ساتھ ساتھ انکی اپنی تحقیقی کتاب ”حدود وتعزیرات:چند اہم مباحث'' کا حوالہ بھی قابلِ ذکر ہے اس تحریر میں جس اہم پہلو پہ روشنی ڈالی گئی ہے وہ یہ ہے کہ شادی اور نکاح جیسے معاملات میں قران کا مخاطب عموماً مرد ہے اور اسی پہلو کو خاطر میں رکھتے ہوئے اس بات کی تشریح کی گئی ہےکہ عورت کہ اہلِ کتاب سے نکاح کا حکم نہیں ہے جبکہ باقی احکامات کو عمومیت کے درجےپر رکھتے ہوئے عورت کے لئے بھی وہی حکم تسلیم کیا گیا ہے جو مرد کے لئے بھی ہے۔ اس پوری تحریر میں انتہائ اہم پہلو سیدنا عمر ؓ کا اس حوالے سے اجتہادی زوایہ نظر کا بیان اور ان فیصلوں کا ذکر ہے جو انہوں نے اس ضمن میں کئے

کیونکہ مسئلے کہ اور بھی کئی پہلو تھےجنکو سامنے رکھتے ہوئے سیدناعمر نے اہلِ کتاب خاوند کے ساتھ رہنے یا علیحدگی کا فیصلا صادر کیا۔

عمار خان ناصر لکھتے ہیں

"سیدنا عمر کی رائے یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ اس صورت میں تفریق کو ضروری نہیں سمجھتے تھے۔ چنانچہ بعض مقدمات میں انھوں نے میاں بیوی کے مابین تفریق کر دی ،جبکہ بعض مقدمات میں بیوی کو اختیار دے دیا کہ وہ چاہے تو خاوند سے الگ ہو جائے اور چاہے تو اسی کے نکاح میں رہے۔"(مصنف عبد الرزاق، رقم ۱۸۰۰۱، ۳۸۰۰۱)

یقیناً‌ اس فیصلے میں انھوں نے بیوی کو درپیش عملی مسائل ومشکلات کا لحاظ رکھا ہوگا اور آ ج کے دور میں بالخصوص غیرمسلم ممالک میں پیش آنے والے اس طرح کے واقعات میں سیدنا عمر کا یہ اجتہاد رہنمائی کا ذریعہ بن سکتا ہے.

Advertisements
julia rana solicitors

اگر سیدنا عمرؓ کے اس اجتہادی زاویہ سے آج کے مغربی ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کے مسائل کے حوالے سے کچھ رہنمائی کی جائے تو اس حوالے سے موجود انتہا پسندانہ رویئے میں کچھ بہتری آسکتی ہے. اس سےمراد قطعی اہلِ کتاب سے مسلمان لڑکیوں کے نکاح کی حوصلہ افزائی کرنا مقصد نہیں لیکن جبری شادی اور قتل جیسے غیر اخلاقی اور غیر قانونی اقدامات کو روکنا مقصود ہے، کیونکہ اس حوالےسے تحقیق اور سیدنا عمرؓ کے اقدامات اس عمومی رویئے کی نفی کرتے ہیں جو اہلِ کتاب سے مسلمان عورت کے نکاح کے بارے میں ہمارے معاشرے میں صدیوں سے رائج ہیں۔

Facebook Comments

ثمینہ رشید
ہم کہاں کہ یکتا تھے، کس ہنر میں دانا تھے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply