سیک سیمینار کی روداد

حسنین جمال بھائی نے سییمنار کی روداد لکھ ڈالی اور خوب لکھی۔ انکے قلم کے کیا کہنے، ہمیں بھی کوچہ جاناں میں چند لمحے بیتانے کا شرف حاصل ہوا۔ احباب کے لئے ہم بھی کہے دیتے ہیں۔ تو ، لو صاحب سنئیو اور ذرا دل تھام کر سنئیو، اس محفل میں موسیقار نہی تھے لیکن موسیقی تھی، اس محفل میں ہیر رانجھا نہی تھے لیکن محبت کی شیرینی تھی، اس محفل میں جگری یار نہی تھے لیکن گرمجوشی ضرورتھی۔

میرے سفر کا آغاز محترم سعد بھائی کی فون کال کے ساتھ ہوا۔ سیمینار سے تین چار دن قبل انکے فون نے چونکا دیا کہ لاہور میں سیک سیمینار ہونے جا رہا ہے۔ قسمت دیکھئے جس رات ان سے بات ہوئی اسی دن صبح کالج میں ہونے والے ٹورنامنٹ میں شمولیت کے لئے ایک ٹیم میں اپنا نام لکھوا آیا تھا۔ اور کالج کا ٹورنامنٹ اور سیمینار ایک ہی دن ایک وقت پر تھے۔ سعد بھائی کو مشکل سے آگاہ کیا اور عرض کی کہ آج کل میں بتاتا ہوں، پر قدرت کو اس سیمینار میں شمولیت منظور تھی۔ معاملات خود ہی کچھ اسطرح ترتیب پا گئے اور سیمینار میں شمولیت سے سعد بھائی کو آگاہ کردیا۔
سیمینار کے شروعاتی لمحات میں ہم ہوٹل پہنچ گئے۔ ہوٹل گیٹ سے داخل ہوئے اور ہال کی جانب بڑھے تو باہر تیکھی داڑھی والا پتلون اور شرٹ میں ملبوس ایک نوجوان نظر آیا۔ جو پہلی نظر میں انجان آدمی کو ہوٹل کا مینجیر یا کوئی انتظامی امور سے وابستہ شخص معلوم ہوتا تھا۔ ابھی میں نے اس شخص کو اچھے سے دیکھا بھی نہ تھا کہ سعد بھائی نے کان میں سرگوشی کی، یہ "حسنین جمال ہیں، آپ انہیں جانتے ہیں؟" میرا لہجہ معذرت خواہانہ تھا۔ بد قسمتی کہیے کہ میں اپنے ہم نام سے ناواقف تھا۔ سعد بھائی کا شکریہ جنہوں نے یہ تعارف کروایا اور بعد میں انعام رانا بھائی نے ۔ سعد بھائی کی اقتداء میں ان سے مصاحفہ کیا اور ہال میں داخل ہوگئے۔

ہال میں بیٹھنے کے بعد احساس ہوا کہ یہ کوئی رائیٹ یا لیفٹ ونگ کا سیمینار نہی تھا۔ ایک طرف جہاں، تیکھی داڑھی والے حضرات موجود تھے تو دوسری طرف گھنی داڑھیوں والے بھی موجود تھے۔ جہاں لمبی زلفوں والے مرد (احمد حماد بھائی اور سہیل بھائی سے معذرت کے ساتھ) موجود تھے وہیں قہر ڈھاتی زلفوں کے ساتھ دو شیزائیں بھی موجود تھیں۔ ہر مکتبہ فکر اور ہر نقطہ نظر کے حامل لوگ موجود تھے۔ یہ اس محفل کی خوبصورتی تھی کہ آج قلم کار اور قلم قاری آمنے سامنے تھے، جنہیں میں اور آپ پڑھ کر سراہتے تھے انہیں آج سن کر سراہ رہے تھے۔ لوگ جنکی تحریروں پر کمنٹ کرنے کو ترستے تھے آج ان سے سوالات کر رہے تھے۔

عظیم الرحمنٰ صاحب کے آن لائن خطاب اور انعام رانا بھائی کی چلبلی باتوں کے بعد فرنود عالم بھائی کو ہال میں داخل ہوتے دیکھا۔انعام رانا بھائی کے بلاول بھٹو والے اشاروں اور کسی ناز نین کی سی اداؤں کی سمجھ نہ آ سکی، خیر میں نے اسے اپنی سمجھ سے بالاتر جان کر صرف نظر کردیا۔
اتنی ہی دیر میں چائے کا وقفہ ہوگیا۔ پندرہ منٹ کا یہ وقفہ میرے لئے خاصہ پریشانی کا باعث تھا۔ یہ وقت ان لوگوں سے ملاقات کا وقت تھا جن لوگوں کو آج تک ہم نے ایک چھوٹی سی ڈی پی ، تحریروں یا چیٹ باکس کی چیٹ سے پہچانا تھا۔ میں خاصہ پریشان تھا کہ پتہ نہی کوئی پہچانے یا نہ پہچانے، اگر پہچان بھی لےتو کیسا رویہ ہوگا۔ فیس بک پر اخلاق کی با ت کرنا ایک بات اور علمی زندگی میں اسکا نمونہ پیش کرنا دوسری بات ہے۔ اللہ کا نام لے کر، اٹھے اور چل دئیے، رعایت اللہ فاروقی صاحب پان چباتے ہوئے نظر آئے تو سوچا ان سے مل لیا جائے۔

وہ شخص جو نظر آنے میں سخت مزاج اور ایک عسکری تنظیم کا اہم رکن رہا ہو۔ اسکے قریب پہنچے تو انہوں نے نہ جانتے ہوئے بھی کمال محبت اور پیار سے گلے لگا لیا۔ مخالف سمت کھڑے ہونے کی وجہ سے وہ جس طرح گھوم کر محبت سے ملے ۔ بھئی واہ، ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں دنیا میں۔فاروقی صاحب کا سیشن مجھ جیسے طالب علموں کے لئے انٹرنیشنل پالیٹکس اور خصوصاََ تیسری دنیا کے ممالک میں عسکری جہد سے متعلق ایک بہت ہی اہم سیشن تھا۔

وہاں سے گھوم کر ہم فرنود عالم بھائی کے قریب پہنچے، تو وہ مسکراتے ہوئے دوستوں سے محو گفتگو تھے۔ میں پاس جا کر کھڑا ہوگیا۔ فرنود بھائی سے یہ میری پہلی ملاقات تھی، اسی لئے خوف بھی تھا کہ ایسا بہترین لکھاری بھلا کیونکر ہمیں یاد رکھے گا۔ میں پاس پہنچا تو محبت سے انہوں نے مجھے گلے لگایا اور سب سے کمال کی بات انہیں میرا نام یاد تھا۔ فرنود بھائی کی شخصیت واقعی ہی ایسی ہے کہ وہ اپنے ملنے والوں کو گرویدہ کرلیتے ہیں۔اگر آپ ان سے ابھی تک نہی ملے تو آپ کی زندگی کے یاد گار لمحات میں اضافہ ہونا باقی ہے۔

شاکریات کے روح رواں، فرنود بھائی کی بغل میں موجود تھے۔ مجھے اعتراف کرلینا چاہیے کہ میں انہیں پہچان نہی سکا۔ لیکن شائد وہ فرنود بھائی سے میرا نام سن کر مجھے پہچان چکے تھے۔ انہوں نے تعارف کروایا اور کمال محبت سے ملے۔ انکے بارے میں ایک لطیفہ ہے وہ انہیں سمجھ میں آ سکتا ہے جو ان سے مل چکے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ میں انہیں پہچان نہ سکا۔

حافظ صفوان صاحب سے ملاقات بھی ایک یادگار ملاقات تھی۔ حافظ جی سے سعد بھائی ملنے گئے تو میں ابھی تھوڑا پیچھے ہی کھڑا تھا کہ انہوں نے دور سے پہچان لیا، کمال محبت سے ملے اور دوسرے احباب سے بھی تعارف کروایا۔ یہ انکی کمال محبت تھی کہ انہوں نے اپنے پاس بٹھایا اور مختلف موضوعات پر اپنی رائے سے آگاہ بھی فرمایا، اور اسی دوران ہماری ہلکی پھلکی بات چیت بھی چلتی رہی۔ سیک سے پہلے وہ ایوان اقبال میں ایک سیشن سے خطاب کرکے آ رہے تھے، افسوس کہ علم نہ ہونے کی وجہ سے میں اس سیشن میں شرکت نہ کرسکا۔ بہرحال، حافظ صاحب سے ملنا بھی ایک خوشگوار اور یادگار تجربہ تھا۔

بک سٹال کے پاس کھڑا کتابوں کو دیکھنے میں مصروف تھا میرے پاس ہی سہیل بھائی فوٹو گرافی میں مصروف تھے۔ انہوں نے بھی پہچان لیا۔ کیا بہترین شخصیت ہیں، خود تو وہ خوبصورت ہیں ہی، لیکن انکی ظرافت اور انکی زلفیں دونوں ہی خوبصورت ہیں۔ انہوں نے بھی کمال عنایت اور شفقت سے پاس بٹھایا اور کافی دیر تک انکی شخصیت اور انکی بہترین فوٹو گرافی سے محظوظ ہوتے رہے۔

یہ چند لوگ تھے جن سے ملاقات ہوئی، اسکے علاوہ بہت سے بہترین لوگوں سے تعارف ہوا۔ بہت سےفیس بک سے متعلق لوگوں کو سامنے دیکھنے اور ان سے ملنے کا شرف حاصل ہوا۔ان کی باتیں طوالت کے ڈر سے حذف کر رہا ہوں۔

ثاقب بھائی سے نہ تو ملاقات ہوسکی لیکن انکے دیدار کا شرف ضرور حاصل ہوا۔ اس سارے معاملے میں ثاقب بھائی کو بھول جانا خود غرضی ہوگی۔ انہوں نے جس بہترین محفل کا انعقاد کیا، اسکے لئے وہ داد کے مستحق ہیں۔ سٹیج پر انکی ظرافت سے تمام لوگ بہت محظوظ ہوئے۔

ناصر کاظمی کا ایک شعر یاد آ رہا ہے:

انہیں بھی دیکھ کبھی اے نگارِ شامِ بہار!

جو ایک رنگ سے تصویرِ جاں بناتے ہیں

بہرحال لاہور کی سرزمین پر اس چھوٹی سی ادبی محفل نے جو محبتیں بکھیریں، وہ الفاظ کے الٹ پھیر سے منتقل نہی ہوسکتیں۔ معاملہ ہجر وصال کا تھا تو نہی لیکن پھر بھی وصال یار کا سا ساماں تھا۔ وقت گذرنا تھا اور گذر گیا۔اگر اسے ایوب خاور صاحب کے الفاظ کا جامہ پہنا دیا جائے تو زیادہ مناسب اور سہل ہوگا۔

تمھیں جانے کی جلدی تھی

سو اپنی جلد بازی میں

تم اپنے لمس کی کرنیں، نظر کے زاویے ،پوروں کی شمعیں

میرے سینے میں بھڑکتا چھوڑ آئے ہو

رات ایک ڈیڑھ بجے کے قریب یہ محفل اختتام پذیر ہوئی۔ لیکن بہت سی یادوں اور خوشگوار لمحات ہمراہ لئے ہوئے۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ: ڈاکٹر رامیش فاطمہ سے ملنے سے اعراض کیا ، ملکی حالات کے پیش نظر ایویں دھر نہ لیا جاتا۔

Facebook Comments

محمد حسنین اشرف
ایک طالب علم کا تعارف کیا ہوسکتا ہے؟

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply