جسے اللہ رکھے (قسط6)۔۔عزیزاللہ خان

میں رحصت اتفاقیہ پر ملتان گھر گیا ہوا تھا معراج خان Asi کی مجھے کال آئی کہ وہ شفیع ماتم کو جام پور سے ٹرانسفر کروا کر تھانہ نوشہرہ پنہچ گیا ہے- میں نے اپنے تمام ذاتی کام ترک کر دیےاور فوری طور پر ملتان سے براستہ جلالپور پیروالہ ہتھیجی سے ہوتا ہوا تھانہ نوشہرہ پُنہچ گیا میرے آنے کی اطلاع سن کر معراج خان Asi بھی تھانہ پر آگیا میں نے اپنی رہائشگاہ پر جانے کی بجائے اپنی کار تھانہ کے گیٹ پر روکی اور سیدھا اپنے آفس میں جا کر بیٹھ گیا اتنی دیر میں معراج خان بھی میرے کمرہ میں آگیا- میں نے محرر تھانہ کو شفیع ماتم کو حوالات سے نکلوا کر لانے کا کہا-تھوڑی دیر بعد شفیع ماتم میرے سامنے سر جھکائے کھڑا تھا شفیع ماتم کی داڑھی کے بال خضاب نہ لگانے کی وجہ سے بلکل سفید ہو چکے تھے- اُسے دیکھ کر مجھے نہیں لگ رہا تھا یہ وہی شفیع ہے جس کو میں نے جام پور تھانہ پر دیکھا تھا اور جو علاقہ میں دہشت کی علامت سمجھا جاتا تھا –
میں نے محرر تھانہ کو کہا کہ شفیع ماتم کی ہتھکڑی کھول دے میرے کہنے پر محرر تھانہ نے شفیع ماتم کی ہتھکڑی کھول دی میں نے شفیع کو کرسی ہر بیٹھنے کا کہا مگر وہ زمین ہر بیٹھ گیا میری عادت تھی کہ میں ملزم کو ایک دفعہ اپنے سامنے کُرسی پر ضرور بیٹھا کر تفتیش کر تا تھا اگر ملزم کرسی پر بیٹھ کر بھی جھوٹ بولتا تھا اور سچ نہیں بولتا تھا تو پھر تھرڈ ڈگری استعمال کرتا تھا- بطور ڈی ایس پی دفتر میں اپنی میز کے سامنے دو کرسیاں رکھتا تھا میرے ریڈر اکثر کہتے تھے کہ سر کُرسیاں میز سے دور ہونی چاہیں مگر مجھے سائل گواہ یا کسی بھی شخص کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اُس کی باتیں سُننے سے اُس کی بات کی سچائی پرکھنے میں مدد ملتی تھی کیونکہ آنکھیں ہمیشہ سچ بولتی ہیں-میں نے شفیع ماتم کو پھر کرسی پر بیٹھنے کا کہا اب وہ میرے بلکل سامنے رکھی کرسی پر برجمان تھا-میں نے شفیع ماتم کی آنکھوں میں شرمندگی کے ساتھ ساتھ موت کا خوف بھی دیکھا میں نے اُسے کہا شفیع میں تمہارے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کرنا چاہتا جو ہونا تھا ہوگیا ہے بس مجھے سچ سچ ساری تفصیل بتا دو کہ مجھ پر فائرنگ کیوں اور کس کے کہنے پر کی تھی- شفیع ماتم نے میرے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا خان صاحب میں نے آپ کو جام پور تھانہ پر بھی سچ بتایا تھا میں قران پاک پر حلف دینے کو تیار ہوں کہ سارا قصور حمیدہ فوجی اور چھلو حسام کا تھا کیونکہ میری بھی ڈڈلی حسام سے دوستی تھی اس لیے سب کو اکٹھا کر لیا-ہم آپ پر فائیرنگ نہیں کرنا چاہتے تھے ہمارا اصل حدف معراج خان Asi تھا ہم اُسے مارنا چاہتے تھے-حمیدہ فوجی نے ممتاز لنگاہ کے بیٹے کا نام استعمال کیا اور ڈاکوں کا بتایا تاکہ معراج خان دریا کے پار آجائے اور ہم اُس کو نشانہ بنا سکیں-
میرے بار بار پوچھنے کے باوجود بھی شفیع ماتم کا ایک ہی بیان تھا میان نے محرر تھانہ کو کہا کہ شفیع کو باقی ملزمان سے الگ رکھے اب رات کو اس سے انٹیروگیشن کریں گے-میں تھانہ کی عمارت کے ساتھ واقع اپنی رہائشگاہ پر چلا گیا معراج خان کو بھی بتا دیا کہ اب رات کو آرام سے بیٹھ کر شفیع ماتم سے پوچھ گچھ کریں گے-
شام کو پبلک ڈیلنگ سے فارغ ہونے کے بعد میں نے معراج خان کو بلوا لیا اور اُس سے کہا معراج کیوں نہ شفیع ماتم سے ایک کھیل کھیلا جائے اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر دریا کے کنارے لے چلتے ہیں اور جعلی پولیس مقابلے کا ڈرامہ کرتے ہیں ہو سکتا ہے اس بات سے شفیع ماتم ڈر جائے اور سچ بول دے- میں نے محرر تھانہ کو کہا کہ شفیع ماتم کو جا کر بتا دے کہ اُسے آج رات پولیس مقابلے میں مار دیا جائے گا غُسل کر کے وضو کر لیے تھوڑی دیر بعد اُسے لے جانا ہے-محرر تھانہ نے میری ہدایت پر عمل کیا اور شفیع ماتم جس کو بقیہ ملزمان سے رکھا ہوا تھا جا کر بتا دیا کہ رات کو اُسے پولیس مقابلے میں مار دیا جائے گا-
رات تقریباً گیارہ بجے محرر تھانہ اور معراج شفیع ماتم کو جس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی تھی لیکر آگئے اور سرکاری گاڑی میں پیچھے بیٹھا دیا شفیع ماتم بالکل خاموش تھا -تھوڑی دیر بعد ہم سب جھانگڑہ کی طرف روانہ ہو گئے معراج خان نے اپنا ایک ملازم بھی ہتھکڑی لگا کر شفیع ماتم کے ساتھ بیٹھا دیا تھا کہ مکمل ڈرامہ کیا جاسکے-تقریباً چالیس پنتالیس منٹ کی ڈرائیو کے بعد ہم جھانگڑہ دریا کے پتن پر پہنچ گئے اور سرکاری گاڑی جس کو معراج خان چلا رہا تھا کا انجن بند کر دیا مگر ہیڈ لائیٹس آن رہنے دیں-
دریا کے کنارے اندھیری رات میں ہو کا عالم تھا کبھی کبھی فضا میں سرکاری گاڑی کے پیچھے بیٹھے شفیع ماتم اور معراج خان کے ملازم کی ہتھکڑیوں کی آواز گونج جاتی تھی- میں نے زوردار آواز میں عباس کانسٹیبل کو بغیر نام لیے آواز دی ملزمان کو نیچے اُتارو چاچا عباس جو شفیع کی ہتھکڑی پکڑ کر بیٹھا تھا شفیع کو گاڑی سے اُتار کر نیچے لے آیا گاڑی کی ہیڈ لائیٹس کی روشنی میں مجھے شفیع کی چال میں لڑکھڑاہٹ صاف نظر آرہی تھی اُسے ہورا یقین تھا کہ آج اُسے پولیس مقابلہ میں مار دیا جائے گا میں نے جان بوجھ کر معراج کو پہلے اپنے ملازم کو جس کا نام ہم نے منیر عرف مننی ککس رکھ دیا تھا لے کر آنے کا کہا معراج نے اپنے ملازم کو سمجھا دیا تھا کہ اُس نے زور زور سے رونا ہے اور اپنی جان بچانے کے لیے چیخنا چلانا ہے- معراج خان کے ملازم نے ایسا ہی کیا جیسے ہی میں نے اُسے زور سے کلمہ پڑھنے کا کہا اُس نے چلانا شروع کر دیا اور اپنی جان کی بھیک مانگنا شروع کر دی میرے ساتھ کھڑے معراج خان نے اہنی کلاشنکوف سے ایک برسٹ مارا تو اُس کے ملازم نے ڈرامہ کرتے ہوئے زور کی چیخ ماری جیسے اُسے گولیاں لگ گئی ہیں-اندھیری رات دریا کا کنارہ فضا میں سناٹا اور پھر کلاشنکوف کے برسٹ کے ساتھ چیخ کی آواز ایک لمحہ کے لیے مجھے بھی عجیب سا لگا میں سوچنے لگا پولیس کی ملازمت میں ہمیں کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اور ہم کیا کیا ڈرامے کرنے پڑتے ہیں مقصد لوگوں کی وارداتیں ٹریس کرنا لوگوں کے مسائل حل کرنا ہوتا ہے بعض دفعہ اس میں ہولیس ملازمین کا ذاتی مفاد بھی ہوتا ہے اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا-
اب شفیع ماتم کی باری تھی میں نے زوردار آواز میں حکم دیا “لے آو اس بے غیرت کو “چاچا عباس شفیع ماتم کو میرے حکم پر تقریباً گھسیٹتے ہوئے لے کر آیا شفیع ماتم کے دونوں ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پیچھے کی طرف لگائی گئی تھیں میں نے اُس سے کہا” شفیع تمہارا آخری وقت ہے کلمہ پڑھ لو اب بھی وقت ہے مجھے سچ بتا دو کہ پولیس پر فائیرنگ میں کون کون تھا پلانگ کس کی تھی اور فائیرنگ کیوں کی گئی؟” گھٹنوں کے بل جھکے ہوئے شفیع ماتم کی حالت غیر تھی مری آواز میں بولا “خان صاحب آپ کو پہلے بھی سچ بتایا تھا اب تو مرنے والا ہوں اب آپ کو سچ بتا رہا ہوں کہ یہ سب حمیدہ فوجی کا کیا دھرا ہے” میں نے حمیدہ فوجی کا پوچھا تو بتایا جب جام پور پولیس نے اُسے پکڑا تھا تو حمیدہ بھاگ گیا تھا اب مجھے اُس کے بارے میں مجھے علم نہ ہے- میں نے معراج خان کو کلاشنکوف سے ایک اور برسٹ مارنے کا کہا جس نے اپنی کلاشنکوف کا مُنہ آسمان کی طرف کر کہ ایک مکمل ہوئی برسٹ مارا تاکہ شفیع ماتم خوف زدہ ہو جائے مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا -اب مجھے یقین ہو چکا تھا کہ وہ جھوٹ نہیں بول رہا ہے میں نے شفیع ماتم کو کہا چلو آج تمہیں نہیں مارتے اور اُسے واپس سرکاری گاڑی میں بیٹھانے کا کہا جسے چاچا عباس نے گاڑی میں بیٹھا دیا وہ دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ کا شُکر ضرور ادا کر رہا ہوگا کہ آج اُس کی جان بچ گئی- ڈکٹیٹیاں اور قتل کرنے والے یہ ڈاکو جب آزاد ہوتے ہیں تو یہ فرعون ہوتے ہیں مگر جب یہ ہکڑے جائیں اور پولیس کی تحویل میں ہوتے ہیں تو ان کی حالت دیکھنے والی ہوتی ہے مگر جیل میں اور باہر آنے کے بعد پھر وارداتیں بھی کرتے ہیں شاید ہمارا سسٹم ہی ایسا ہے جیلوں میں ان کی اصلاح نہیں ہوتی بلکہ یہ نئے طریقہ واردات سیکھتے ہیں اور جیل کی دوستیوں سے نئے گینگ بھی بنا لیتے ہیں-
اگلے روز شفیع ماتم نے مجھے انٹیروگیشن میں اپنی اور ساتھیوں کی تمام وارداتیں جو اُس نے کی تھیں بتا دیں جنکی ایک مفصل رپورٹ بنا کر میں نے اپنے افسران کو بھجوا دیں
شفیع ماتم کا مزید ریمانڈ جسمانی حاصل کر لیا گیا تھا-میں تھانہ پر اپنے دفتر میں موجود تھا مجھے ملک عامر یار وارن ایم این اے کی کال آئی مجھے کہنے لگے چھلو حسام کے پولیس مقابلے میں مارے جانے کے بعد آپ پر فائیرنگ کے بقیہ ملزمان ڈر کر بھاگ گئے تھے اب آپ نے شفیع ماتم کو کُچھ نہیں کہا تو بلو حسام اپنی بعڑھی مں اور باپ کے ساتھ میرے ڈیرہ پر آیا ہے اور پیش ہونا چاہتا ہے مگر وہ کہتا ہے میں بے گناہ ہوں آپ خود تفتیش کر کے دیکھ لیں- ملک عامروارن ایم این اے میں ایک خوبی یہ بھی تھی کہ مجھے سے وہ ہمیشہ سچ بولتا تھا اور جرائم پیشہ افراد کی مدد نہیں کرتا تھا شاید علاقہ کے لوگوں کو بھی اندازہ ہو گیا تھا کہ میں جرائم پیشہ افراد کو معاف نہیں کرتا-میں نے انچارج چوکی ہتھیجی لیاقت گل کو بذریعہ فون ہدایت کر دی کہ وہ ملک عامر وارن کے ڈیرہ پر چلا جائے اور بلو حسام کو لے آئے-میں احمدپور شرقیہ ڈی ایس پی صاحب کے دفتر میٹنگ کے لیے چلا گیا جاتے ہوئے میں نے محرر تھانہ کو ہدایت کر دی تھی کہ لیاقت گل سب انسپکٹر بلو حسام کو لیکر آئے گا اُسے شفیع ماتم سے نہیں ملنے دینا اور علحیدہ رکھنا ہے-
شام کو میں احمدپور شرقیہ سے والس آگیا رات کو میں تھانہ پر آگیا محرر تھانہ نے بلو حسام کو لا کر میرے پیش کیا تو میں حیران رہ گیا بلو حسام کی عمر اُنیس بیس سال ہو گی وہ ایک دُبلا پتلا سا لڑکا تھا جس کی مونچھیں بھی ابھی تک پوری نہیں نکلیں تھیں مگر بدمعاشی کے شوق میں شفیع ماتم اور چھلو حسام جیسے جرائم پیشہ افراد کے ساتھ ساتھ رہ کر اُس نے پولیس پر فائیرنگ کی- دوران تفتیش شفیع ماتم مجھے بتا چُکا تھا کہ بار بار دریا کے بند سے نکل کر فائیرنگ کرنے اور زیادہ گالیاں دینے والا بلو حسام تھا مگر بلو یہ بات ماننے کو تیار نہ تھا جب میں نے شفیع ماتم کو حوالات سے نکلوا کر آمنے سامنے کیا تو بلو حسام فوری سب کُچھ مان گیا-میں تھانہ پر بلو حسام سے انٹیروگیشن کر رہا تھا کہ تھانہ کا سنتری میرے پاس آیا اور کہنے لگا باہر ایک بوڑھی عورت اور بوڑھا آدمی کافی دیر سے موجود ہیں اور آپ سے ملنا چاہتے ہیں میں نے سنتری کو کہا فوری اُنہیں لے کر آئے- تھوڑی دیر میں دُبلی پتلی سی بوڑھی عورت اور ساتھ ایک بوڑھا شخص میرے دفتر میں داخل ہوئے بوڑھی عورت نے آتے ہی اپنا دوپٹہ اُتار کر میرے پاوں پر رکھ دیا اور پاوں پکڑ لیے یہ سب اتنی تیزی سے ہوا کہ میں اُس کا ہاتھ نہ روک سکا میں نے فوری طور پر کُرسی سے کھڑا ہو گیا دوپٹہ اُٹھایا اُس بوڑھی عورت کے سر پر رکھ دیا اور اُسے بازو سے پکڑ کر کھڑا کردیا میں نے اُس سے آنے کی وجہ پوچھی تو اُس نے بتایا وہ بلو حسام کی ماں ہے اور ساتھ والا شخص بلو کا باپ ہے بوڑھی عورت بولی اُس کے بیٹے بلو حسام نے آپ پر فائیرنگ کر کے زیادتی کی ہے بس آپ سے صرف ایک درخوست ہے اس کو پولیس مقابلے میں نہ ماریں میں اس کی زندگی کی بھیک مانگتی ہوں اس کی جان بخشی کر دیں-میں سوچنے لگا ماں کے دل میں اپنی اولاد کے لیے کتنا پیار اور شفقت ہوتی ہے جب مجھ ہر فائیرنگ ہوئی تھی تو میری ماں کے دل ہر کیا بیتی ہو گی مائیں تو سب ایک جیسی ہوتی ہیں اولاد جتنی نافرمان ہو یا بُری ہو ماں کے دل سے کبھی اُس کے لیے بدعا نہیں نکلتی-
میں نے بلو حسام کی والدہ سے وعدہ کر لیا کہ اُس کے بیٹے کو میری طرف سے تکلیف نہیں ہو گی مگر اسے کہہ دیے کہ بلو حسام مجھ سے جھوٹ نہ بولے اور بقیہ ملزمان کی گرفتاری میں میری مدد کرے-میرے سامنے بلو کی ماں نے اُس کے سامنے ہاتھ جوڑے اور کہا بلو خان صاحب جیسا کہتے ہیں ویسا کرنا اور جھوٹ نہ بولنا-میں نے محرر تھانہ کو بلا کر کہا بلو کو حوالات میں بند نہ کرے یہ تھانہ میں آزاد پھرتا رہے کیونکہ یہ خود پیش ہوا تھا میں یہ چاہتا تھا بلو کو اعتماد میں لے کر بقیہ ملزمان کی گرفتاری میں مدد لی جاسکے-
دو دن بعد میں نے پھر بلو حسام کو اپنی رہائشگاہ پر بلوایا اُس سے خیریت پوچھی اب مجھے وہ پر اعتماد لگ رہا تھا کہ اُسے جان سے نہیں مارا جائیگا- بلو نے مجھے تمام ملزمان کے ٹھکانے بتا دیے کہ وہ کہاں کہاں رہتے ہیں کس کس زمیندار کے پاس کھانا کھاتے ہیں اور کون ڈر کے مارے ان کی مدد کرتا ہے سب کُچھ بتا دیا- میرے پو چھنے پر کہ حمیدہ فوجی کیسے پکڑا جا سکتا ہے بلو حسام بولا حمیدہ فوجی بُہت چالاک ہے مگر وہ عابد ڈاہڑ پر اعتماد کرتا ہے وہ ایسے گرفتار نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ ایک جگہ ٹک کر نہیں بیٹھتا البتہ میں اُس جان سے مار سکتا ہوں یا اُس کی شراب میں نشہ آور گولیاں ملا کر آپ کو اطلاع دے سکتا ہوں مگر اُن کے گینگ میں شامل ہونے کے لیے میرے پاس کوئی ہتھیار نہیں ہے فوجی کو مجھ پر شک ہوا تو وہ مجھے جان سے مار دے گا اگر آپ میرے لیے کلاشنکوف کا انتظام کر سکیں تو میں حمیدہ فوجی کو زندہ یا مردہ لا کر دے سکتا ہوں-میں نے بلو حسام کی بات پر اعتماد کرنے کا فیصلہ کرلیا اور اُسے کہا کہ وہ عابد ڈاہڑ اور حمیدہ فوجی کو نشہ آور گولیاں شراب میں ملا کر یا کھانے میں ملا کر دےگا اور فوری طور پر ہمیں اطلاع دے گا- میں نےاپنی ذاتی کلاشنکوف جو مجھے میرے دوست سردار ظفرخان عباسی نے میری کوٹسبزل کی پوسٹنگ میں دی تھی اور جو میں ہمیشہ اپنے پاس رکھتا تھا دو بھری ہوئی میگزینیں بلو حسام کو دے دی اُسے میڈیکل سٹور سے کافی مقدار میں نشہ آور گولیاں بھی لے کردیں خرچے کے لیے دس ہزار روپے بھی بلو حسام کو دے دیے-یہ سب کُچھ دینے کے بعد میں نے معراج خان کو کہا اسے موٹر سائیکل پر اس کے گھر چھوڑ دے بلو کو میں نے کہا کہ سب کو یہی بتائے گا مجھے پولیس نے بےگناہ کردیا ہے اور مجھے ایم این اے ملک عامر وارن نے چھڑوا لیا ہے بلو نے میرا موبائل نمبر بھی کاغذ پر لکھوا کیا اور اپنا موبائل نمبر مجھے دے دیا-معراج خان بلو حسام کو لے کر چلا گیا مجھے اپنی ذاتی کلاشنکوف دینے کا بُہت دُکھ تھا کیونکہ یہ کیی سالوں سے میرے پاس تھی مگر حمیدہ فوجی پکڑنا میرے لیے زیادہ اہم تھا میں نے ساری بات اپنے ڈی ایس پی میاں عرفان اُللہ کو بھی بتا دی اب مجھے بلو حسام کی کال کا انتظار تھا
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply