کون جانے اس بہن کا درد، جو سر راہ لُٹ گئی۔۔محمد اسلم خان کھچی

بہت پرانی بات ہے  جوانی کے دن تھے اور آپ جانتے ہیں کہ جوانی بڑی مستانی ہوتی ہے۔ نئے نئے کام کرنے کو دل چاہتا ہے۔ لڑکی, شراب, جوا, ڈانس جیسی برائیاں گاؤں کے پینڈو لوگوں کو بڑا Fascinate کرتی ہیں۔ امنڈتی جوانی میں منہ زور خواہشیں بدن میں اچھل کود کر رہی تھیں لیکن ہمارے زمانے میں لڑکی نام کا تصور ہی گناہ عظیم سمجھا جاتا تھا۔ خواہش مچلتی تھی لیکن شاید دیہاتی گھریلو تربیت اور ماں باپ کی پٹائی کے خوف سے کسی بھی لڑکی کو دیکھ کے آنکھیں خود بخود جھک جاتی تھیں ۔ میرے اندر خوف کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ نوخیز جوانی میں ایک لڑکی کو چٹکی کاٹ دی تو اس نے روتے ہوئے بابا جانی سے  شکایت لگا دی ۔ بابا جانی اس معاملے میں بہت سفاک انسان تھے۔ پورا منظر یاد ہے۔ ہمارے گھر میں ایک کیکر کا درخت تھا۔ بابا جانی نے عصر کے وقت رسے سے میرے ہاتھ باندھے اور کیکر کے ساتھ باندھ کے کھڑا کر دیا ۔ ٹیوب ویل کا بیلٹ جو ہمارے گاؤں میں ہر کرائم کی سزا اور اختتام کی علامت تھا۔ یہ بیلٹ اکثر پولیس والوں کے پاس بھی ہوتا ہے لیکن ہمارے گاؤں کی اپنی پولیس اور اپنا عدالتی نظام تھا اور بابا جانی اس نظام کے چیف جسٹس تھے۔المختصر مجھے کیکر کے ساتھ باندھنے کے بعد گاؤں کی کابینہ کو بلایا گیا۔ متاثرہ لڑکی کو بلایا گیا اور خاص طور پہ نوجوان نوخیز لڑکوں کو بلایا گیا کہ وہ اس سزا کو دیکھ کے عبرت حاصل کریں۔ سزا تجویز کی گئی کہ اسے دس چھتر مارے جائیں۔

لڑکی سے اسکی رائے پوچھی گئی تو شاید اسکا دل پسیج گیا۔ وہ بھی بچی تھی ۔یہ سارے حالات دیکھ کے رونے لگ گئی لیکن گاؤں کا اپنا نظام تھا۔ سارے خاموش تھے اور سزا کے حامی تھے۔ ایک پٹھان نوکر جو ہماری ٹھیکے شدہ زمیں کے معاملات دیکھتا تھا۔ اکثر وہی سزا دیتا تھا لیکن اس بار چونکہ چیف جسٹس کے بیٹے کا جرم تھا تو ظالم اور سفاک بابا جانی نے خود سزا دینے کا فیصلہ کیا۔
سزا شروع ہوئی۔ چیف جسٹس بھی اس وقت گھبرو جوان تھے اور میں کیکر کو جپھی ڈال کے کھڑا تھا۔ بس بیلٹ اٹھایا اور پوری قوت سے کمر پر  ٹکا دیا۔
آپ یقین کیجیے۔
پہلے تو پتا ہی نہیں چلا کہ ہوا کیا ہے۔۔ ایک دھماکہ اور نرم و نازک بدن۔۔۔۔ چند سیکنڈ کے بعد درد کی ایسی خوفناک لہر اٹھی جو ابھی تک یاد کرنے سے میرے بدن میں وہی درد سرایت کر جاتا ہے۔ چند منٹ کے وقفے سے دوسرا دھماکہ ہوا اور میری اذیت ناک چیخ نکلی اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ دماغ سے وہ سارے محرکات ایک پل میں واش ہو گئے بھول گیا کہ کہاں ہوں۔ ہوا کیا ہے۔ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت صلب ہو گئی۔ اسی اثنا میں تیسرا دھماکہ ہوا اور میں بے سدھ ہو گیا۔ درد کی شدت سیدھی دل میں اتر گئی۔ دل گھبرا گیا اور پسینے  سے نہا گیا۔ کس کے اتنا باندھا ہوا تھا کہ ہلنے جلنے کی گنجائش ہی نہیں تھی۔ تھوڑی دیر لمبی لمبی سانسیں لینے کی کوشش کی لیکن سانس سینے میں اٹک رہی تھی۔ حواس, مسلز ,بازو, دماغ شل ہو گئے تھے کہ اچانک ایک پیار سے لبریز بدن میری کمر سے ٹکرایا اور میری کمر کو ڈھک لیا کہ بس کرو۔۔ تمہیں اللہ کا واسطہ۔۔۔ میرے بھائی کو مت مارو۔۔۔ اور یہ اسی لڑکی کی آواز تھی جسے میں نے دن میں چٹکی کاٹی تھی۔ بہن کی محبت بڑی لازوال ہوتی  ہے۔ بھائی کیلئے جان بھی قربان کر دیتی ہے۔ وہ ایک پل میں میری بہن بن گئی۔ آنکھوں میں آنسو لیئے دل میں درد سجائے غم و الم کی تصویر بنی اپنے ہی مجرم کی گڑگڑا کے زندگی کی بھیک مانگ رہی تھی۔ اس سارے معاملے میں میری والدہ محترمہ خاموش رہیں کیونکہ چیف جسٹس کا ڈر تھا اور وہ اپنے چیف جسٹس کی روایات کی امین بھی تھی۔ خیر مجھے ٹکٹکی سے اتارا گیا اور چارپائی پہ لٹا دیا گیا۔ لوگ اپنے گھروں کو جانا شروع ہو گئے۔ گھر میں صرف ماں اور وہ لڑکی رہ گئے کیونکہ میری اپنی بہنوں کو میری سزا کے وقت چچا کے گھر بھیج دیا گیا تھا کہ وہ کوئی چیخ و پکار نہ کریں۔ مجھے اپنی ماں کا وہ منظر ابھی تک میری آنکھوں کے سامنے اسکی بے پایاں محبت کی یاد دلاتا ہے کہ بجائے میرا خیال رکھنے کے آنکھوں میں آنسوؤں کی لڑیاں پروئے اس لڑکی کو سینے سے لگائے اسے چومے جا رہی تھی۔ جیسے اسکا احسان اتارنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ گرمی کے دن تھے۔ ماں جی نے دودھ گرم کیا۔ ہلدی ڈالی اور پلانے کی کوشش کی لیکن چند گھونٹ سے زیادہ پی نہ سکا۔ چمچ سے تھوڑا تھوڑا کر کے ہلدی دودھ پلایا گیا۔ گرم ریت کی ٹکور کی گئی۔ بڑے جتن کیئے گئے لیکن پوری رات ٹیسوں میں گزر گئی  ۔پوری رات منہ بولی بہن میری والدہ کا ہاتھ بٹاتی رھی۔ اسکی فیملی نےبھی کوئی اعتراض نہیں کیا ۔ انہوں نے شاید دل سے یقین کر لیا تھا کہ ایک معمولی سی چٹکی نے انہیں ساری عمر کیلئے بہن بھائی کے پاکیزہ رشتے میں باندھ دیا ہے۔ دوسرا دن بہت مشکل تھا واش روم تک نہیں جا سکا۔ مجھے چلنے میں تقریباً ایک ہفتہ لگ گیا لیکن مزے کی بات ہے کہ چیف جسٹس صاحب نے اس سارے عرصے میں ایک بار بھی بات نہیں کی اور نہ ہی میری طرف آنکھ بھر کے دیکھا جبکہ میں انہیں دیکھ کے زور زور سے درد بھری آوازیں نکالتا لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ پندرہ دن میں میں چلنے پھرنے کے قابل ہوا۔ اب مسئلہ گاؤں کے لوگوں کا سامنا کرنے کا تھا لیکن وہ معاملہ بھی خوش اسلوبی سے حل ہو گیا کیونکہ میرے گاؤں کے لوگ کچھ سمجھ دار اور زیادہ تر ہماری اپنی ہی فیملیز ہیں۔ اس سارے معاملے میں میری باعزت ,سمجھ دار اور منہ بولی بہن نے بھر پور ساتھ دیا۔ چیف جسٹس صاحب بھی کچھ عرصہ بعد میرے ساتھ بات چیت کرنے لگ گئے لیکن وہ دن اور آج کا دن۔۔۔ مجھے اپنے گاؤں کی ہر لڑکی ماں, بہن, بیٹی لگتی ھے۔ لوگ میرا بے پناہ احترام کرتے ہیں۔ پورے گاؤں میں میں جس گھر میں جاؤں ,لوگ مجھ سے والہانہ محبت کرتے ہیں ,مجھے اپنی بہنوں بیٹیوں کے ساتھ چولہے کے ساتھ بٹھا کے تازہ تندور سے اتری ہوئی روٹی کھلاتے ہیں اور جب کوئی بہن خوشی سے کہتی ھے کہ آج میرا ویر آیا ہے تو آپ یقین کیجئے اس ویر لفظ میں جو چاشنی, محبت اور دل گدازی ھے۔ وہ دنیا کے کسی لفظ میں نہیں۔۔۔ ویر۔۔۔۔ بس وہی سمجھ سکتے ہیں جو بہنوں کے منہ سے سن کے بہنوں کی زندگی کیلئے اپنی زندگی قربان کر دیتے ہیں۔۔۔ لیکن میں ان ساری محبتوں کا کریڈٹ چیف جسٹس کو دیتا ہوں کہ اگر وہ اپنے دل پہ پتھر رکھ کے مجھے سزا نہ دیتے تو شاید میں آج ایک بدترین انسان ہوتا۔۔۔ میں سلام پیش کرتا ہوں اپنے والد محترم کو۔ 104 سال کی عمر میں ہشاش بشاش ہیں اللہ انہیں صحت عطا فرمائے۔۔۔
موضوع طویل ہو گیا ھے لیکن آج آپکو پڑھنا پڑے گا۔ میرے ایک دوست طارق سہیل صاحب جہانیاں سے درخواست کی ہے کہ اس پہ لکھوں۔ بہت پیارے اور نفیس انسان ہیں بس انکی بات ٹال نہیں سکا ورنہ دل دکھ سے پھٹا جا رھا ھے کل سے گم سم ہوں۔ خالی آنکھوں سے ٹی وی کو تکتا رہتا ہوں۔کیسے لکھوں۔۔۔ ؟
میری بہن کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔۔ میرے بہن کے ساتھ ریپ ہوا ھے۔۔۔ اس پہ تشدد کیا گیا ہے۔۔۔ اسے گھسیٹا گیا ہے۔۔ اسکے ہاتھ پاؤں باندھے گئے ہیں۔ اسکے منہ پہ ہاتھ رکھا گیا ہے کہ چیخ نہ سکے۔ درندوں کی طرح اسکے معصوم اور پاکیزہ بدن کے چیتھڑے اڑائے گئے ہیں۔ ایک سنسان ویران جنگل, سہمے ہوئے بچوں کی پھٹی پھٹی آنکھیں کہ اچانک ہم پہ یہ کیا قیامت ٹوٹ پڑی۔ میری بہن کتنی اذیت سے گزری ہو گی۔ ایک ڈری ہوئی ہرنی کی طرح کبھی اپنے بچوں کو دیکھتی ہو گی۔ کبھی اپنی تار تار روح کا ماتم منا رہی ہو گی۔ معصوم بچوں کی کنپٹی پہ پسٹل دیکھ کے کتنی چیخیں نکلیں ہوں گی۔ میری بہن تھی وہ۔۔۔۔ کیسے اسکی اذیت لکھوں۔۔۔ کیسے اس درد کو لفظوں میں سموؤں۔دو گھنٹے ریاست مدینہ سے مدد مدد پکارتی, ویران سنسان جگہ پہ کتنے خوف سے گزری ہو گی۔ بچے چیخے ہوں گے ۔ ماں کی گود میں چھپے ہوں گے ۔معصوم سہمی آواز میں سوال کیے ہوں گے کہ ماما کیا ہم مر جائیں گے۔؟۔۔۔
نہیں بیٹا نہیں۔۔۔ ہم مدینہ کی ریاست میں رھتے ہیں۔ ابھی ہیلی کاپٹر آجائے گا۔ ابھی پٹرولنگ پولیس آ جائے گی۔ اور ہم گھر چلے جائیں گے۔۔۔ کربلا کے معصوموں کو کیا پتہ تھا کہ یہاں مدینہ کی ریاست نہیں ھے۔ ابن زیاد کی حکومت ھے۔ یہاں شمر بستے ہیں۔ بچوں کو تسلی دیتے دیتے خود بھی سہمی بیٹھی تھی اور دل ہی دل میں رب العزت کے حضور اپنی اپنی آبرو کی سلامتی کی اور اپنے بچوں کی زندگی کی بھیک مانگ رھی تھی لیکن شاید اللہ نے ہمارے غلیظ کرتوتوں کی وجہ سے ہم سے منہ موڑ لیا تھا۔ اور سزا میری بہن کو مل گئی۔ دل میں اتنا درد ہے کہ کہ کل سے آنکھیں بات بات پہ چھلک پڑتی ہیں۔ درد سے بول نہیں پاتا۔ کل سے اپنی بیٹی سے نظر نہیں ملا پایا اور نہ وہ میرے کمرے میں داخل ہونے کی جرات کر رہی ہے۔
میرے بھائیو۔۔۔ یہ ہمارے معاشرے کا غلیظ ترین کرائم ہے اور ہر درد دل رکھنے والا انسان دکھی ہے۔۔۔۔ اتنا ظلم۔۔۔ اتنی سفاکیت۔۔۔ اتنی دردنگی ۔۔۔انسان تصور بھی نہیں کر سکتا کہ مسجدیں, مدرسے ,تبلیغ زوروں پہ ھے لیکن معاشرہ غلیظ ترین ۔۔
میری بہن, آپکی بہن کی زندگی جہنم بن گئی۔ وہ تو گاڑی میں اپنے معصوموں کو اپنے پروں میں چھپا کے محفوظ بیٹھی تھی۔ لوگ گزر رہے تھے۔ ٹریفک رواں دواں تھی۔ پولیس کو بھی پتہ تھا کہ ایک بہن مصیبت میں ہے۔ اچانک کچھ جنسی بھیڑیے آتے ہیں اور ڈنڈے سے گاڑی کا شیشہ توڑتے ہیں۔ بہن کو کھینچتے ہیں۔ وہ واسطے دیتی ھے خدا رسول کے کہ سب کچھ لے لو۔۔۔ بس عزت بخش دو۔۔۔ بچوں کی جان بخش دو۔۔۔۔ لیکن ریاست مدینہ کے رہنے والے اسے گھسیٹ کے جھاڑیوں میں لے جاتے ہیں اور کائنات میں ہونے والا بدترین سلوک کرتے ہیں۔ ہاتھ اور دل کانپ رھا ھے لکھتے ہوئے۔ بچوں نے کیسے دیکھاہو گا ماں کو۔۔۔ ماں بس بچوں کی زندگی کی بھیک مانگ رہی ہو گی۔
کالج سے واپسی پہ گھر سے تین کلومیٹر پہ میری بیٹی کی پجارو میں پٹرول ختم ہو گیا۔ مجھے کال کی بابا پٹرول ختم ہو گیا ہے۔ میں بھاگا بھاگا وہاں پہنچا تو وہ وہاں نہیں تھی۔ میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ کچھ نہ سوجھ رھا ہو کہ کیا کروں۔ بچی تھی۔ نا سمجھ تھی اسے رکنا چاہیئے تھا لیکن چند قدم کے فاصلے پہ پٹرول پمپ سے پٹرول لیا اور گھر آگئی۔ میں وہ پل کبھی نہیں بھلا سکتا۔ رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
لیکن وہ بھی کسی کی بیٹی تھی۔ کسی کی بہن تھی۔ کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کرے۔ بچے کس سے انصاف مانگے ۔سانحہ ساہیوال والے بچے ابھی تک اپنی ماں اور بابا کی راہ دیکھ رہے ہیں۔
کون کرے گا اس درد کا مداوہ۔ کوئی نہیں کر سکتا۔ بہن تو جیتے جی مر گئی۔۔۔ ساری زندگی خود سے نظر نہیں ملا پائے گی۔ بچوں کے دماغ میں وہ سنسان رات, جنگل ,ماں کی منتیں, چیخیں, دماغ میں نقش ہو گئیں۔ مرتے دم تک ان کے ساتھ رہیں گیں۔ وہ تو بیچاری پولیس والوں کے ترلے کر رہی تھی کہ اللہ رسول کے واسطے مجھے یہیں مار دو۔۔۔ مجھے قتل کر دو۔۔۔ یہ بے بسی کی انتہا ہے اور میں وثوق سے کہتا ہوں کہ ہماری مظلوم بہن اب اپنی زندگی نہیں جی پائے گی۔۔۔
لیکن یہاں تماشہ لگا ہوا ہے۔ میڈیا کو ایشو مل گیا۔ رینکنگ مل رہی ہے۔ پولیس کہتی ہے۔ نکلی کیوں۔۔۔؟
لعنت ہی بھیجی جا سکتی ہے۔ پتھر دل ,مردہ دل بجائے درد کا مداوہ کرنے کے مشورے دے رہے ہیں کہ رات گئے نگلی کیوں ؟
او پہلے درد کا مداوا تو کر لو۔۔ پوچھ تو لو کہ کیا مجبوری تھی۔۔۔ کوئی بھی مجبوری نہ ہو۔۔۔ مرضی سے نکلی لیکن ریاست مدینہ میں نکلی ۔آپ پہ اعتماد کر کے نکلی۔ سی سی پی او پہ اعتماد کر کے نکلی۔ بزدار صاحب پہ اعتماد کر کے نکلی۔ کروڑوں کی ڈولفن پہ اعتماد کر کے نکلی ۔
والی پاکستان عمران خان پہ اعتماد کر کے نکلی ۔
ہسٹری گواہ ہے کہ مجرم نہیں پکڑے جائیں گے لیکن عوام کے سامنے کوئی ان جیسے کرمنل ضرور مجرم بنا کے پیش کر دیئے جائیں گے۔ پھانسی بھی ہو جائے گی
لیکن کیا ہماری بہن کا درد کم ہو جائے گا۔۔ کیا وہ زندگی جی پائے گی۔۔ کبھی نہیں۔۔۔ اور ویسے بھی نام نہاد مدینہ کی ریاست میں سزا کا تصور نہیں۔ مجرم کو ڈر نہیں۔
2006 سے 2015 تک پھانسی پہ پابندی رھی۔ 9000 قاتلوں کو ہم نے مہمان بنا کے رکھا۔ بیرونی آقاؤں کو خوش کرنے کیلئے کسی کو پھانسی نہیں دی لیکن جب اے پی ایس کے بچے شہید ہوئے تو پھانسیاں شروع ہوئیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لیکن وہ شہباز شریف تھا۔ اب شہباز شریف نہیں ہے۔ لیکن میں آج شہباز شریف صاحب کو سلیوٹ پیش کرتا ہوں
میرا ذاتی واقعہ لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ اگر حس طرح گاؤں کی لڑکی کے ساتھ تین گھنٹے کے اندر انصاف ہوا تھا ایسا اگر ہماری مقدس عدالتیں کرپشن اور سہل پسندی سے نکل کے چند اچھے فیصلے کر لیتیں تو آج ہماری بہن یوں سر بازار نیلام نہ ہوتی۔
اللہ رب العالمین آپ کی عزت اور آبرو کی حفاظت فرمائے
آمین

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply