میرے آقا میرے صاحب میرے رسول محمدﷺ۔۔مہر ساجد شاد

استاد العصر جناب پروفیسر احمد رفیق اختر کے علم و دانش سے فیض یاب ہونے کو سالانہ تعلیمی تربیتی سیشن میں ہزاروں مرد و خواتین پنڈال میں جمع تھے۔ صبح آنے والے مہمانوں کیلئے پُرتکلف ناشتہ کا اہتمام تھا اور پھر دوپہر نماز ظہر و عصر کے وقفے کے دوران روایتی مہمان نوازی کا شاہکار، ہزاروں طالب علموں کیلئے پُرتکلف کھانا پیش کیا گیا۔ سارے انتظامات پروفیسر صاحب کے معتقدین شاگرد اپنی محبت اور عقیدت سے کرتے ہیں، مختلف سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں بہت بڑے عہدو ں پر  متمکن لوگ اور بڑے بڑے بزنس مین یہاں رضا کار بنے آنے والے لوگوں کیلئے خدمات سرانجام دیتے نظر آتے ہیں۔

مقررہ وقت پر تقریب کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا اور پھر نبی آخر الزماں محمد مصطفے ﷺ   کے حضور متعدد خوش الحان مرد و خواتین نے نہایت عمدہ منتخب کلام پیش کیا۔

بغیر کسی تمہیدی خطاب کے پروفیسر احمد رفیق اختر حاضرین و ناظرین سے مخاطب ہوئے کیونکہ اس دفعہ انکا لیکچر براہ راست نشر کرنے کا بہترین انتظام کیا گیا تھا۔ پروفیسر صاحب کا تفصیلی مقالہ دو گھنٹے سے زائد وقت پر محیط تھا لیکن سننے والے ہمہ تُن گوش اور یکسوئی سے فیض یاب ہو رہے تھے، اس مقالہ کی تلخیص کر کے ایک کالم میں سمیٹنا ناممکن ہے بس یہاں یہ کوشش مقصود ہے کہ چند اہم پہلو اپنے قارئین کے سامنے رکھ دئیے جائیں اور طالب علم تفصیلی مکمل لیکچر علمت Alamaat کی ویب سائٹ یا فیس بک پیج سے سن سکتے ہیں۔
اس تحریر میں کسی بھی غلطی کو راقم کی نالائقی سمجھا  جائے اور جملہ علم و رہنمائی کو استاد العصر جناب پروفیسر احمد رفیق اختر کا فہم فیض اور دانش قبول کیا جائے۔

رب العالمین نے تمام مخلوقات سے انسان کو اشرف و ممتاز بنایا ہے اور اسکا بنیادی سبب عقل ہے جس کا مطلب باندھنا ہے، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ عقل دو قسم کی ہے ایک عقل طبعی یعنی وہ عقل جو طبعیت میں ودیعت کی گئی ہے اور دوسری عقل سمعی یعنی وہ جو لوگوں سے سن کر حاصل ہوتی ہے، عقل طبعی کے بغیر عقل سمعی کوئی فائدہ نہیں بخشتی۔
عقل سوچنے کا آلہ نہیں ہے ، عقل ردعمل کا آلہ ہے جیسے انسان کی ابتدائی تاریخ بتاتی ہے کہ بیماریاں کس قدر مہلک تھیں آج عقل نے ردعمل میں دوائیں بنائیں اور علاج ممکن ہو گئے۔
قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے یعنی بیشک ہم نے آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پرامانت پیش فرمائی تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے اورانسان نے اس امانت کو اٹھالیا بیشک وہ (انسان) بڑا ہی ظالم اور جاہل ہے۔ الاحزاب ۷۲
انسان نے یہ اقدام بھی اپنی عقل کے باعث اٹھایا۔
پھر فرمایا یعنی اے عقل جو شخص کچھ حاصل کرے گا تو تیرے توسط سے لے گا، جو شخص سزا پائے گا تو تیری وجہ سے سزا پائے گا۔

یہاں سوال یہ ہے کہ اگر عقل فلاح کیلئے کافی تھی تو پھر اللہ کو اپنے رسول بھیجنے کی ضرورت کیوں پڑی؟
عقل نے مرحلہ وار ترقی کی یہ ایک ہی بار موجودہ حالت کو نہیں پہنچی بلکہ مسلسل ترقی پذیر ہے۔
ایک شخص نے حضرت زین العابدین سے سوال کیا کہ اللہ زمین میں نشوو نما پانے والے بیج میں چھپے پودے اسکے پتوں اسکے پھل اسکی مکمل زندگی کو جانتے ہیں یہ علم کیسا ہے اسکی سمجھ نہیں آ رہی، امام نے فرمایا یہ بھی ان امور میں سے ہے جس کا علم اور سمجھ انسان کو آنے والے زمانے میں ملے گی۔
عقل کسی شے کی فطرت کا علم نہیں رکھتی اسکے افکار اور انکے باہمی تعلق کا علم رکھتی ہے۔ دنیائے عالم کے آج تک کے سب دانشور بشمول افلاطون، سقراط، فیثاغورث، پروفیسر ٹوائن بی، تھالیس، پلوٹو سب ہی عقل سے انسانی فلاح کے راستے ڈھونڈتے رہے ہیں جبکہ میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دعا فرمائی وہ انسان کیلئے رسول بھیجنے کی وجہ سمجھاتی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ مجھے حقیقت اشیا کا علم دے۔

خواتین و حضرات !
دنیا کا دستور ہے کہ ہر دوکاندار اپنی بہترین شے کی نمائش کرتا ہے تاکہ اپنا سودا اپنا پیغام متعارف کروا سکے۔ تو اللہ رب رحمن کے پاس سب سے بہترین چیز کیا ہے؟
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا تو اس نے اپنی کتاب میں لکھا اور وہ اپنی ذات کے متعلق لکھتا ہے جو اُس کے پاس عرش پر رکھی ہوئی ہے کہ میرے غضب پر میری رحمت غالب ہے۔‘‘
پھر یہ بھی وعدہ فرمایا یعنی میں نے لکھ لیا کہ میں تم پر رحمت کروں گا۔
انسان کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہونا تھا کہ اللہ کی رحمت کیسی ہو گی ؟
جواب کیلئے اللہ رب رحمن نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مجسم رحمت بنا کر بھیج دیا
وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ
ہم نے آپ کو تمام جہانوں کیلئے صرف رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

میرے آقا میرے صاحب میرے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں نوع انسانی کے جس فرد نے بھی ان کا تعارف پیش کیا یا انکی تعریف بیان کی اس نے دراصل اپنی عقل کے اعلیٰ  ہونے کی دلیل دی۔
انفرادی شعور عارضی ہوتا ہے جبکہ اجتماعی شعور لمبے زمانے کیلئے ہوتا ہے، جاپان میں ایٹم بم سے تباہی آئی تو اس قوم کے شعور میں جنگ بربادی تباہی کا خوف بیٹھ گیا، کسی زمانے میں کوئی بُرا واقعہ رونما ہوتا ہے تو اس زمانے کے انسانوں کے اجتماعی شعور پر اثر انداز ہوتا ہے، اسی طرح کوئی اچھا واقعہ پیش آئے تو وہ بھی اپنے اثرات مرتب کرتا ہے۔
انبیاء اکرام نے اپنے اپنے ادوار میں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کی خبر دی اور انسانی شعور کو آپکی آمد کیلئے تیار کیا۔
انسانی عقل دلیل اور مثال سے معاملہ فہمی پاتی ہے عقل انسانی کیلئے اللہ رب العزت نے اپنے رسول کو ایسا بنایا کہ اسکی بار بار قسم کھائی کہ آپ اللہ کا فخر ہیں اللہ کی بہترین تخلیق ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یعنی
میں اخلاق عالیہ کو انکے اتمام تک پہنچانے ہی کیلئے مبعوث کیا گیا ہوں۔
اللہ رب العزت نے اپنے رسول کو بھیجا کہ وہ ہمیں معاشرت سیکھائے اخلاق سیکھائے رواداری سیکھائے سخاوت سیکھائے عدل و انصاف سیکھائے۔
اس ہدایت کے بعد وہ پوچھے گا کہ بتاؤ زندگی کیسے گزار کر آئے؟
اگر زندگی میں یہ دل سے مان کر ایمان لایا ہوگا کہ اللہ واحد کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہمارا سب کچھ ہیں تو وہ جان رکھے کہ اللہ کی رحمت صرف دنیا میں نہیں تھی اسکی یہ بھی عظیم رحمت ہے کہ وہ اپنے رسول سے وعدہ کرتا ہے کہ میں تمہیں راضی کر کے چھوڑوں گا۔

ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں جب آپ سے اللہ تعالی کے اس فرمان کے بارے میں پوچھا گیا یعنی “ یقیناً  آپ کا رب آپکو مقام محمود پر فائز کرے گا” (بنی اسرائیل) تو آپ نے فرمایا “وہ مقام شفاعت ہے”۔

اور شفاعت کیلئے رحمت کتنی وسیع ہے اسکے لئے سمجھ لیں کہ جابر بن عبداللہ سے روایت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری شفاعت میری امت کے کبیرہ گناہ کرنے والوں کیلئے ہے۔

ہر جگہ رب العالمین ہے انہی عالمین کیلئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمتہ العالمین بنایا ہے، صرف انسانوں کیلئے نہیں ہر مخلوق کیلئے پتھروں جانوروں پرندوں درختوں کی زبان بھی اللہ نے ان کیلئے قابل فہم بنا دی کہ آپ سب کو رحمت بانٹیں۔

خواتین و حضرات !
میرے آقا میرے صاحب میرے رسول کی تعریف بیان کرو تو بے حد و بے حساب کیا کرو۔
درود و سلام کا مقام اور کیا بیان ہو کہ
إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّھا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
بیشک اﷲ اور اُس کے فرشتے نبی پر دُرود بھیجتے ہیں ۔ اے ایمان والو ! تم بھی اُن پر دُرود بھیجو، اور خوب سلام بھیجا کرو
آئمہ لغت کے نزدیک لفظ صلوۂ کے لغوی معنی کا پہلا مادہ صلی اور دوسرا مادہ صلو ہے، صلو کا معنی ہے دو کو آپس میں جمع کر دینا اور جوڑ دینا یعنی انضمام کر کے ایک بنا دینا۔ ریڑھ کی ہڈی کے نچلے حصے کو الصلی کہتے ہیں اس لئے کہ یہ جسم کے اوپر کے دھڑ کو اور نیچے والے دھڑ کو جوڑتا ہے۔

میرے آقا میرے صاحب میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ کو اللہ نے اپنا ہاتھ کہا اور  ذرا غور فرمائیں وہ لوگ کیسی اعلی و ارفع شان رکھتے ہیں جنہوں نے اس ہاتھ پر بیعت کی، ان اصحاب کی محبتوں کی بھی شان کیا ہی اعلی تھی ہر طرف طوفان محبت نظر آتا ہے، انکا زکر بھی ادب سے کرنا چاہیئے انکے رتبے پر کلام کرنا بھی اللہ کے غضب کو  دعوت دینا ہے کیونکہ اللہ اپنے دوستوں کو تنہا نہیں چھوڑتا۔
محبت ایسی کہ حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ سواری پر سوار ہوئے مسنون دعا پڑھی اور مسکرانے لگے، کسی نے پوچھا حضرت یہ مسکرانا کیسا آپ نے فرمایا میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دعا پڑھ کر مسکراتے دیکھا تھا میں بھی حضور کی اتباع میں مسکرایا ہوں۔

ان اصحاب کی کیا شان قدر و منزلت ہے غور فرمائیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یعنی جس نے ان سے محبت کی میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی، جس نے ان سے بغض رکھا مجھ سے بغض رکھنے کی وجہ سے ان سے بغض رکھا، جس نے ان کو اذیت دی پس اس نے مجھ کو اذیت دی، جس نے مجھے اذیت دی اس نے اللہ کو اذیت دی اللہ بہت جلد اسکو پکڑ لے گا۔
یہ بھی انہی اصحاب کی بدولت اللہ نے ممکن بنایا کہ اپنے محبوب کی ساری زندگی ایک ایک پہلو ایک ایک ادا محفوظ فرما دی۔ رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان جائیے آپ نے ہم بعد میں آنے والے امتیوں کیلئے کسی خوشی اور اطمینان کا اعلان فرمایا، ایک بار صحابہ رضی اللہ تعالی عنہما نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم اچھے ہیں یا بعد میں آنے والے امتی اچھے ہیں، تو رحمت اللعالمین نے فرمایا میری امت بارش کی طرح ہے کوئی پتہ نہیں کہ اسکا کونسا حصہ اچھا ہے۔

ایک دوسری جگہ اصحاب نے دریافت فرمایا ، ہم میں اور ہمارے پیچھے آنے والوں میں کیا فرق ہے، تو آپ نے فرمایا تم میں سے کوئی اگر دس میں سے ایک حکم چھوڑے گا تو مواخذہ ہو گا اور ان میں کوئی اگر دس میں سے ایک حکم ہر عمل کرے گا تو اجر پائے گا۔
حضرت انس بن مبارک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا یعنی جس نے مجھے دیکھا اور ایمان لایا اسے ایک بار مبارکباد ہو اور جس نے مجھے نہیں دیکھا اور مجھ پر ایمان لایا اس کو سات بار مبارکباد ہو۔

آج کی گزارشات ہدیہ تبریک حسان بن ثابت ؓ کے اس شعر کے مصداق ہیں

مَا اِن مَدَحتُ مُحَمَّدًا ﷺ بِمَقَالَتِى
لكِن مَدَحتُ مَقَالَتِى بِمُحَمَّدٍﷺ

Advertisements
julia rana solicitors

میں نے اپنے اشعار سے محمد ﷺ کی تعریف نہیں کی بلکہ محمد ﷺ کے ذریعے میں نے اپنے اشعار کی تعریف کی ہے

Facebook Comments