• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • قاری اساس تنقید کے ضمن میں Virtual Textual analysis کی تکنیک پر ایک وضاحتی نو ٹ(دوسرا،آخری حصّہ)۔۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

قاری اساس تنقید کے ضمن میں Virtual Textual analysis کی تکنیک پر ایک وضاحتی نو ٹ(دوسرا،آخری حصّہ)۔۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

(۴)اس پریکٹس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ طالبعلم (یعنی قاری) کسی بھی متن سے ، شاعر کا نام ، اس کے زمان و مکان کو جانے بغیر، ’’اپنی اساس سے‘‘ کس طرح کے معانی اخذ کر سکتا ہے۔ یعنی ایک کاکیشین امریکی لڑکا یا ایک عرب نژاد طالبعلم جو امریکا میں اقامت پذیر ہے، یا ہندوستانی والدین کی اولاد لڑکی جو امریکا میں پیدا ہوئی ہے، کس طرح سے ایک ایسے متن کو دیکھتے ہیں جس کے بارے میں انہیں علم نہیں ہے کہ وہ دنیا کے کون سے حصے میں کب اور کہاں لکھا گیا۔ کیا اس کا لکھنے والا یورپی تھا، چینی تھا یا افریقی ۔ مرد تھا یا عورت، نوجوان تھا یا بوڑھا ، دولتمند تھا یا غریب، حاکم طبقے یا نسل سے تھا یا ایک محکوم ملک سے تعلق رکھتا تھا، یہودی تھا، عیسائی تھا، مسلم تھا، ہندو تھا یا لا دین تھا۔

چوبیس ہفتوں کے ایک سمسٹر کے ایسے بارہ سیشنز میں اک طالبعلم اس عملی ’’ورزش‘‘ سے کیا کچھ سیکھ سکتا ہے، راقم الحروف نے ہر سمسٹر میں آخری تین یا چار لیب کلاسز میں اس کا تجربہ کیا ہے۔ ان آخری ہفتوں میں ایک طالبعلم، اتنا سب کچھ تو نہیں جو ’’قاری اساس تنقید‘‘ کی تھیوری کی مکمل’اساس ‘ ہے ، لیکن اس کے ابجد سے ضرور واقف ہو جاتا ہے، عام طلبہ کے لیے تو یہ کورس اختیاری ہے لیکن جس کسی طالبعلم نے اس کے بعد لٹریچر میں’’ میجر‘‘ ہونے کا انتخاب کرنا ہو ،اس کے لیے یہ بنیادی تین کریڈٹ کا کورس لازمی ہے ۔اس طرح طالبعلم کی بنیاد بہت مضبوط ہو جاتی ہے۔ اس بات کا مجھے ذاتی طور پر بھی تجربہ ہے کیونکہ میں خود ان کورسز سے لے کر ’’میجر اِن انگلش ‘‘سے ہوتے ہوئے ایم اے انگلش تک کورسز کی تدریس کرتا رہا ہے۔
میں اردو کا معلم نہیں ہوں، انگریزی کا استاد ہوں اور میرا میدان اختصاص انگریزی ادب کے علاوہ تقابلی ادب میں نصاب سازی کا ہے، اس لیے میں بطور نمونہ مشتے از خروارے صرف ایک انگریزی نظم ضمیمہ کی شکل میں یہاں شامل کر رہا ہوں جو طلبہ کو ان کے سمسٹر امتحان میں دی گئی تھی تا کہ یہ واضح ہو سکے کہ قاری اساس تنقید کے حوالے سے کسی بھی نظم پر اظہارِ خیال میں کیا کچھ ممکن ہے۔

ایک انگریزی نظم جو سمسٹر امتحان میں لٹریچر (۲) کے طلبہ کو VTPA کے لیے دی گئی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک انگریزی نظم جو سمیسٹر امتحان میں لٹریچر (۲) کے طلبہ کو VTPA کے لیے دی گئی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
MORNING AFTER

Smoke-hooded monks suck
sockets of marble chill
to the tune
of circling doves across
William’s guitar-strung
nerves:
Oh, Poet
in the gullet of Being
they march! You have
no exit
but
Becoming
and I light one more
and puff until
maybe dawn may be
then this salt
will ooze off letting
a guy see clear.

ساتویں سطر میں لفظ poet راقم الحروف نے خود ڈال دیا ہے۔ یہاں شاعر نے اپنا نام لکھا تھا جو طلبہ کے لیے اخفا میں رکھ دیا گیا (قارئین کے تفنن طبع کے لیے یہ بعد میں لکھ دیا جائے گا)

امتحان کے پرچے کسی اور کو گریڈنگ کے لیے نہیں دیے جاتے۔ ٹیچر خود ہی انہیں گریڈ کرتا ہے۔ جب تیس کے قریب یہ پرچے میرے ڈیسک پر پہنچے تو میں نے دیکھا کہ ان میں تمام اسمائی  کے متبادل الفاظ کو ایک ایک کر کے پرکھا گیا ہے۔ (مثال کے طور پر پہلی تین سطور میں کو باقاعدگی سے انڈر لائن کر کے لکھا گیا تھا۔ ) اب یکے بعد دیگرے امتحانی پرچہ جات دیکھنے کے بعد یہ امر کھل کر سامنے آیا کہ طلبہ کے اپنے ذاتی، خاندانی، ملکی یا غیر ملکی، معاشرتی، معاشی، ثقافتی ،مذہبی پس منظر نے اس کی سمجھ میں آئے ہوئے معانی کو کیسے کیسے دشوا ر گذار راستوں میں سے گھسیٹ گھسیٹ کر نکالا ہے۔ البتہ کچھ اسم ایسے تھے جن پر کوئی متبادل لفظ انگریزی میں صحیح نہیں بیٹھتا تھا اس لیے تقریباً سبھی طلبہ نے ان پر صاد کیا, وغیرہ الفاظ کے نعم البدل تلاش نہیں کیے گئے، کو ایسے ہی رہنے دیا گیا۔آ خری پیراگرف کو جس میں عملی تنقید ہوتی ہے، بہت خوبصورتی سے طلبہ نے اپنے اپنے تجربے کے مطابق سنوار کر پیش کیا۔ کوریائی اور چینی نژاد امریکی طلبہ نے نظم کو بدھ مت کے بھکشو ؤں کی ٹولی سے مشابہت دی جو تمباکو کی صورت میں افیون کا دھواں پھیپھڑوں میں کھینچتے ہیں۔ دیگر طلبہ میں کچھ نے گزشتہ صدی کی پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں کے نوجوانوں ، خصوصی طور پر ویتنام جنگ سے لوٹے ہوئے امریکی فوجیوں کو مشابہ کیا۔ اس کے لیے march کا لفظ ان کا رہبر ثابت ہوا۔ یہ فوجی مختلف قسم کی ذہنی بیماریوں کا شکار تھے اور نشہ آور ادویات ہی ان کا ویتنام جنگ کی بھیانک یادوں سے دور رہنے کا ایک طریقہ تھا۔ ۔۔۔ سے بھی سمندر پار سے لوٹنے اور سمندر میں تیر کر پار نکلنے کا استعارہ سمجھا گیا۔ لیکن مجموعی طور پر ’’قاری اساس تنقید‘‘ کے حوالے سے تیس میں سے تقریباً نصف تعداد میں طلبہ نے A ,B+, B گریڈ حاصل کیے جو کہ ایک ریکارڈ تو نہیں تھا، لیکن مجموعی طور پر بہت تسلی بخش تھا۔

اب آئیں نظم کی طرف ۔ راقم الحروف نے لفظ poet اس لیے جڑ دیا تھا تا کہ قارئین کا تجسس قائم رہے۔ یہ نظم فرانز کافکا کی لکھی ہوئی ہے۔ اور اُس جگہ پرجہاں میں نے ’’شاعر‘‘ لکھ دیا ہے، اُس نے اپنا نام، یعنی Kafka ہی لکھا تھا اور نظم اُس نے خود کو مخاطب کی تھی۔اب میں اپنا بیان دینے کے بجائے فرانز کافکا کے ہی الفاظ لکھ رہا ہوں جو اُس نے معروف نقاد کے ایک سوال کے جواب میں 1920ء  میں لکھ کر بھیجے تھے۔ جڈسن جیروم گذشتہ صدی میں ’ ’ریڈرز ڈائجسٹ‘‘ کے لیے ایک کتاب مرتب کر رہا تھا (جو بعد میں کے زیر عنوان شائع ہوئی )اور اِس نظم کو بطور نمونہ شامل کر نا چاہتا تھا۔ لیکن اِس کی شرح و تفسیرجب اُس سے خود نہ ہو سکی تو اس نے کافکا کو لکھا۔ کافکا کے طویل جواب میں سے کچھ حصص حسب ذیل تھے۔ (میں متن میں سے غیر متعلق ریمارکس حذف کر رہا ہوں اور ۔۔۔ نقطوں سے ان کی شناخت کر رہا ہوں)

I am surprised you don’t get it. The monks, of course, are the critics. See they worship Kafka, but they are eating him up, they’re living off him. They’re foggy minded, dull, cold…Then the sky, see ۔۔۔ the doves. But these critics have been brought up on Wordsworth. ..Ideas are all based on old stuff like Wordsworth …There are allusions to Lorca, the guitar, the taut strings across the black hole …of the nervous system, and the mysterious unknown of the personality. ….(The monks, the critics) are hounding him out of hell, as though to save him., but they will destroy him unless he can be continually ۔۔۔ Becoming. That’s a pun. He is…always slipping out of their hands of the hands of the monks which would tie him to one meaning.
کافکا ؔ کا یہ خط تین صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔ See Judson Jerome “The Poet and the Poem” published by Writer’s Digest, Cincinnati, Ohio. 1974. pp.155-57.

اور اس میں وہ نقادوں کے علاوہ ایسے قارئین سے بھی الجھتا ہے جو اس کی نظموں کو سمجھ نہیں سکتے۔اس کا یہ کہنا کہ نقاد اُسے ’’ایک ہی معنی‘‘ کے ساتھ ’باندھنا چاہتے ہیں‘،
بہت معنی خیز ہے۔

ایک ضروری       نوٹ

’’پیش لفظ‘‘ میں قاری اساس تنقید اور اس کے ذیل میں اور اس کی جامع شکل کے بارے میں مختصراً معلومات فراہم کی گئی ہیں، لیکن انیسویں صدی کے عظیم شاعر غالبؔ کے بارے میں، جو ہماری قاری اساس تنقید کا ہدف ہے، کچھ بھی نہیں لکھا گیا۔ غالب الفاظ کا سوداگر ہے۔ اس کے ہاں جتنا بڑا خزانہ اس جنس ِ کمیاب کا ہے، اس پر راقم الحروف کی ناقدانہ رائے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ البتہ مغربی جامعات میں درسیات کے حوالے سے یہ کہنا ضروری ہے کہ بسیار تگ و دو کے بعد ، جونیئر اور سینئرسطحوں پر ، انگریزی ترجمے کی وساطت سے، غالب کو متعارف کیا جا چکا ہے۔ یہ سلسلہ جاری ہے اور تاحیات یہ خاکسار اوراس جیسے کچھ اور احباب اس کام کو آگے بڑھاتے رہیں گے۔

ایک مدت سے راقم الحروف کی خواہش تھی کہ وہ قاری اساس تنقید کے قواعد و ضوابط کو غالب کے اشعار پر آزما کر یہ دیکھنے کی کوشش کرے کہ یہ کس حد تک کارآمد ہیں۔ غالب تو صدیوں بعد تک زندہ رہے گا لیکن صدیوں بعد کا قاری (یعنی ایک طالبعلم یا استاد سے مختلف ’عام قاری‘) اُس سیاسی، اقتصادی،سماجی انتشار سے لا علم ہو گا جس میں غالب نے اپنی پہلی اور آخری سانس لی۔ اس قاری کو اپنی ’’اساس ‘‘ سے غالب کو سمجھنا پڑے گا۔ ابتدا میں یہ کام میں نے نثر میں کیا تو مجھے محسوس ہو ا کہ میں ایک ایسے شاعر سے انصاف نہیں کر رہا جو صرف دو سطور کی صدف میں بیسیوں گوہر محفوظ رکھ سکتا ہے۔ تو آزاد نظم میں (جو میرا میدان ِ اختصاص ہے) لکھنے کا ارادہ کیا۔ کئی بار کام شروع کیا اور کئی بار گھبرا کر چھوڑ دیا کہ یہ میری بساط سے بڑھ کر ہے۔ ایک ایک شعر پر تین تین چار دن، یعنی بیسیوں گھنٹے صرف کیے۔ ہم معنی الفاظ کی تلاش و ترتیب (جو کہ اور کا طریق ِ کار ہے)کئی بار مجھ کو اُن پارینہ تہہ در تہہ احاطوں میں بھی لے گئی جہاں غالب کے شارحین بھی نہیں پہنچ سکے تھے، لیکن غالب کے اشعار پر ان الفاظ کا اطلاق مجھے بہت بامعنی لگا۔

چالیس اشعار، نمونہ مشتے از خروارے، آپ کے سامنے ہیں۔یہ کاوش شاید صرف غالب کے حوالے سے ایک trend-setter ثابت نہ ہو سکے کہ ہم لوگ ہر نئے تجربے کو شک کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ اور فی زمانہ خصوصی طور پر یورپ یا امریکا سے درآمدہ نظریات کو تو بوجوہ انتہائی مشکوک سمجھا ہی جاتا ہے۔ لیکن کیا اد بی تنقید کی ایک نئی تھیوری ہماری تہذیبی اساس کو بگاڑ سکتی ہے، یہ سوال خود میں ہی لا یعنی ہے۔
اس خاکسار نے لگ بھگ چھہ ماہ تک اس پراجیکٹ پر کام کیا ہے۔
اس کا نتیجہ جو بھی ہے، قارئین کے سامنے ہے۔
س پ ا
قاری اساس تنقید (ایک مکالمہ)
Reader’s Response Criticism (A dialogue)
۰۰۰۰ ۰ ۰۰۰۰۰ ۰۰۰۰۰۰۰

قاری (۱)
مصنف ہی اگر مر کھپ چکاہو چار صدیاں پیشترتو*
اس کے تحریری متن کو کیسے سمجھے گا وہ قاری
جو”زماں” میں پانچ چھ صدیاں
“مکاں “میں پانچ چھ سو میل دوری پر کھڑا
کاغذ کا پرزہ ہاتھ میں لے کر
متن میں منہمک ہے، سر کھجاتا ہے؟

قاری (۲)
اگر معنی متن میں ہی نہاں ہے تو

مصنف کی ضرورت ایسی حالت میں کہاں محسوس ہوتی ہے؟
مصنف غیر حاضر ہے**
مگر قاری توحاضر ہے
اور اس کے سامنے کاغذ کے پرزے پر
متن موجود ہے، تو پھر
یقینا ’’حاضر و موجود‘‘ ہیں دونوں!

(مسئلے کا حل)
تو پھرایسا سمجھ لیجیے۔۔۔
کوئی اک شعر یا اک نظم ، یا کوئی بھی کیسا بھی متن
اک ’چیز ‘ ہی ٹھہرا
مکمل خود میں، با معنی و مطلب
کچھ بھی ہو
آساں، سریع الفہم ہو ۔۔
مشکل ، عسیر الفہم ہو *
کیسا بھی ہو!

چلیں، قاری سے پوچھیں ۔۔۔
کون قاری؟
وہ جسے سونے سے پہلے
یہ ’متن‘ پڑھنے کی خواہش ہے؟
بھلا پوچھے گا کیا پڑھنے سے پہلے
دوستوں سے، یا کسی ناقد سے
کیا مطلب ہے اس کا ۔۔۔
یا اسے جو کچھ سمجھ آتا ہے اپنے ہی حوالے سے
فقط اپنے ’زماں ‘سے ۔۔۔ حال، ماضی سے
’ مکاں‘ سے، ملک سے
اپنے ہی تہذیب و تمدّن سے
زباں پر اپنی قدرت سے
وہی کچھ ہی تو سمجھے گا یہ قاری
رات کو سونے سے پہلے!
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
* Roland Barthes: Death of the Author*

**The meaning is in the printed text: not outside it. Hence it is in the Readers’ domain. Wolfgang Iser.
*** An absentee author is like an absentee witness who cannot give his evidence. Wolfgang Iser.
(یہ مکالمہ پہلے انگریزی نظم میں تحریر کیاگیا۔ منظوم ترجمہ مصنف نے خود کیاہے)

Advertisements
julia rana solicitors

قاری اساس تنقید کے ضمن میں Virtual Textual analysis کی تکنیک پر ایک وضاحتی نو ٹ(حصّہ اوّل)۔۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply