تکبیر تشریق اور ذو الحجہ کا مہینہ۔۔فائزہ عبدالسلام قریشی

ذوالحجہ کامہینہ خوب رحمتوں اور برکتوں کا ہے اور جیسا کہ اسکے نام سے ہی اس مہینے کی خصوصیت کا اندازہ ہوجاتا ہے اور لوگ پورے سال اس مہینے کا بے صبری سے انتظار کرتے ہیں جنھیں اللہ کے گھر کی حاضری نصیب ہوتی ہے۔ کیونکہ اس مہینے میں حج کا فریضہ ادا کیا جاتا ہے۔
اس مہینے کی دس راتوں کا ذکر قرآن کریم میں کچھ اسطرح بیان ہے کہ
وَ الْفَجْرِۙ(۱)وَ لَیَالٍ عَشْرٍۙ(۲)
صبح کی قسم۔ اور دس راتوں کی۔
{ وَ الْفَجْرِ : صبح کی قسم۔} اِس صبح سے مراد یا تویکم محرم کی صبح ہے جس سے سال شروع ہوتا ہے ،یا یکم ذی الحجہ کی جس سے دس راتیں ملی ہوئی ہیں جن میں بطورِ خاص حج کے اَیّام آتے ہیں ،یا عیدالاضحی کی صبح مراد ہے کہ یہ وہ صبح ہے جس میں حج کے اہم رکن طوافِ زیارت کا وقت شروع ہوتا ہے، اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس سے مراد ہر دن کی صبح ہے کیونکہ وہ رات کے گزرنے ، روشنی کے ظاہر ہونے اور تمام جانداروں کے رزق کی طلب کے لئے مُنتشر ہونے کا وقت ہے اور یہ وقت مُردوں کے قبروں سے اُٹھنے کے وقت کے ساتھ مشابہت و مناسبت رکھتا ہے۔ ( خازن، الفجر، تحت الآیۃ: ۱ ، ۴ / ۳۷۴ ، ملتقطاً )
{ وَ لَیَالٍ عَشْرٍ : اور دس راتوں کی۔} حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ ان سے مراد ذی الحجہ کی پہلی دس راتیں ہیں کیونکہ یہ زمانہ حج کے اعمال میں مشغول ہونے کا زمانہ ہے۔ ( خازن، الفجر، تحت الآیۃ: ۱ ، ۴ / ۳۷۴ )

ذی الحجہ کے ابتدائی  دنوں کے فضائل :
حدیث شریف میں اس عشرہ کی بہت فضیلتیں وارد ہوئی ہیں ۔
( 1 )… حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک ان دس دنوں کے مقابلے میں کسی دن کا عمل زیادہ محبوب نہیں ۔ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ، کیا اللّٰہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد بھی نہیں ؟ارشاد فرمایا:ہاں جہاد بھی نہیں ، البتہ وہ شخص جو اپنی جان اور مال کے ساتھ اللّٰہ تعالیٰ کی راہ میں نکلا،پھر ان میں سے کسی چیز کے ساتھ واپس نہ ہوا (یعنی شہید ہوگیا تو اس کا یہ عمل افضل ہے) ۔ ( ترمذی، کتاب الصوم، باب ما جاء فی العمل فی ایام العشر، ۲ / ۱۹۱ ، الحدیث: ۷۵۷ )
اب بات کرتے ہیں تکبیر تشریق کی کہ یہ کیا ہے اور اسکے کیا معنی ہیں۔
عربی زبان میں “تشريق” کا معنی ہے گوشت کے پارچے بنا کر ان کو دھوپ میں سکھانا اور عربوں کے یہاں گوشت خشک کرنے کو تشریق کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اسی مناسبت سے ان دنوں کو بھی ایام تشریق کا نام دیا گیا ہے جن کے دوران قربانی کا گوشت پارچوں میں تقسیم کر کے سکھایا جاتا ہے۔ مذکورہ ایام کو اس نام سے پکارے جانے کے حوالے سے ایک دوسرا قول یہ بھی ملتا ہے کہ قربانی کے جانور کو اس وقت تک ذبح نہیں کیا جاتا جب تک کہ سورج طلوع نہیں ہوتا۔
ایام تشریق قربانی کے دن کے بعد آنے والے تین روز ہوتے ہیں۔ یعنی کہ ذوالحجہ کی گیارہ ، بارہ اور تیرہ تاریخ۔
تاہم بعض دیگر افراد کی جانب سے ایام تشریق کو یہ نام دینے کے سبب کے طور پر دو اقوال بیان کیے گئے ہیں:
پہلا : لوگ ان دنوں میں قربانی کا گوشت دھوپ میں سکھایا کرتے تھے اس لیے ان دنوں کو ایام تشریق کا نام دے دیا۔
دوسرا قول : چوں کہ عید کی نماز یقینا سورج کے طلوع ہونے (شروق الشمس) کے بعد ہی ادا کی جاتی ہے لہذا پہلے روز کے بعد آنے والے ان تمام دنوں کو ایام تشریق کا نام دے دیا گیا۔
ابن منظور نے معروف عربی لغت لسان العرب میں کہا ہے کہ ” التشريق” کا معنی دھوپ میں گوشت سکھانا ہے اسی واسطے ان دنوں کو ایام تشریق کہا جاتا ہے۔ ابن اعرابی کے مطابق یہ نام اسی وجہ سے دیا گیا کہ سورج طلوع ہونے (شروق) تک قربانی کا جانور ذبح نہیں کیا جاتا۔
مگر۔۔

ایام تشریق ہیں کیا؟
پہلا روز : یہ یوم ِ قرار کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہ نام اس لیے دیا گیا کیوں کہ اس روز حاجی منی میں قرار پکڑ کر رہتا ہے۔
دوسرا روز : یہ یوم ِ نفرِ اول کے نام سے جانا جاتا ہے اس لیے کہ اس روز حاجی کے لیے منی سے نکل جانا جائز ہوتا ہے اس شرط کے ساتھ کہ وہ غروب آفتاب سے قبل منی سے باہر نکل آئے۔ اگر اس سورج غروب ہو گیا اور حاجی منی میں ہی رہا تو اس کا نکلنا ممکن نہیں۔
تیسرا روز : یوم ِ نفرِ ثانی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مراد یہ کہ جس نے دو روز میں جلدی کر لی اس پر کوئی گناہ نہیں اور جس نے ایک روز تاخیر کر لی اس پر بھی کوئی گناہ نہیں آیا۔
یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ حجاج کرام ایام تشریق منی میں گزارتے ہیں۔

تکبیرات تشریق کی حکمت:
حافظ ابن حجر رحمه اللہ تکبیرات تشریق کی حکمت یوں بیان فرمارہے ہیں کہ ہر مشکل اور ہر خوشی کے موقعے پر تکبیر کا پڑھنا سنت سے ثابت ہے کہ اللہ تعالی کا شکر ادا کیا جائے اور اس میں اللہ تعالی کی ذات کے ہر عیب سے منزہ (پاک) ہونے کا اقرار کرنا مقصود ہے،خصوصا وہ نامناسب باتیں جن کی نسبت بدبخت یہودیوں نے اللہ تعالی کی ذات کی طرف کی ہے۔
▪قال الحافظ: وأما التكبير فلأنه ذكر مأثور عند كل أمر مهول وعند كل حادث سرور شكرا لله تعالى وتبرئة له من كل ما نسب إليه أعداؤه ولاسيما اليهود قبحهم الله تعالى۔(فتح الباري لابن حجر: 2/4)

Advertisements
julia rana solicitors

تکبیرات تشریق کا وقت:
اس کا وقت صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور سلف صالحین کے نزدیک عرفہ (9 ذی الحج) کی صبح سے ایام منی کے آخری دن (13 ذی الحج) تک ہے۔ لہذا ان پانچ ایام میں ہر مسلمان عاقل بالغ مرد اور عورت پر ہر فرض نماز کے بعد ان تکبیرات کا پڑھنا واجب ہے۔
تکبیر تشریق یہ ہے
اﷲُ اَکْبَرُ اﷲُ اَکْبَرُ لَا اِلٰه اِلَّا اﷲُ وَاﷲُ اَکْبَرُ اﷲُ اَکْبَرُ وَِﷲِ الْحَمْد۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply