بالآخر چیف جسٹس صاحب بھی پھٹ ہی پڑے ۔۔سید عارف مصطفیٰ

معجزہ ہوگیا ہے یا یہ بھی کوئی ادا ہے ۔۔۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ این ڈی ایم اے کی ناقص کارکردگی پہ پھٹ پڑے ہیں اور انہوں نے کرونا سے نپٹنے کی مد میں دیئےگئے خطیر فنڈز کے غیر شفاف استعمال پہ قطعی عدم اطمینان کا اظہار کردیا ہے ۔

واضح رہے کہ انہی چیف جسٹس نے ابھی چند روز قبل ہوئی سماعت میں اسی ڈی ایم کے چیئرمین جنرل محمد افضل کی ستائش کی تھی اور اس سے قبل کی سماعت میں ان کی پرفارمنس پہ خفگی کا اظہار کیا تھا ۔۔۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایسے رویئے بھی ناقابل قبول ہیں کیونکہ اس سے صحیح مؤقف بھی غیرسنجیدہ ہوجاتا ہے ۔ ہم شروع سے ہی یہ کہتے رہے ہیں کہ چیئرمین این ڈی ایم اے جنرل افضل کے ادارے نے انکی سربراہی یں 500 ارب روپے کے خطیر فنڈز خرچ کئے ہیں اس سے انکا پورا تفصیلی حساب لیا جائے کیونکہ اس مد میں ہوئی پہلی سماعت میں تو موصوف نے کرونا کی روک تھا م اور علاج کے نام پہ فی فرد 25 لاکھ روپے کا تخمینہ بیان کیا تھا جس پہ فاضل ججوں‌کے ہوش اڑ گئے تھے اور چیف جسٹس کو ان سے یہ پوچھنا پڑا تھا کہ آخر یہ 25 لاکھ روپے فی فرد کا خرچ کس طرح آگیا جبکہ آپ تو سوائے نام نہاد قرنطینہ فراہم کرنے کے اور کچھ کرتے نہیں پائے جارہے تو موصوف سوائے بغلیں جھانکنے کے کچھ بھی نہ کرپائے تھے ۔۔

تازہ سماعت اس از خود نوٹس کیس کے  ضمن میں ہوئی ہے جو این ڈی ایم اے کے نام پہ الحفیظ کمپنی کی جانب سے بدعنوانی سے مشینری امپورٹ کرنے کے حوالے سے ہوئی ہے اس معاملے میں پراسرار بات یہ ہے کہ اب این ڈی ایم اے اس مشینری کی درآمد سے انکاری ہے جبکہ تین بارجس خصوصی اختیار سے اسے یہ اجازت دلوائی گئی ہے اس کے کھرے بہت مشکوک ہیں اور اسی لئے اس سلسلے میں چیف جسٹس گلزاراحمد نے کہاکہ شایدبہت کچھ غلط ہوا ہے جس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے ،کیوں نہ چیئرمین این ڈی ایم اے کو توہین عدالت کانوٹس جاری کردیں ۔ انہوں نےکہا کہ تمام اداروں کو شفاف انداز میں چلنا چاہیے،عجیب بات ہے کہ نقدادائیگی اس کمپنی کو کی گئی جس کااس ضمن میں کوئی واسطہ ہی نہیں تھا، یوں لگتا ہے چائنا میں پاکستانی سفارتخانے نے چین کونقدادائیگی کی ہے،این ڈی ایم اے کو فری ہینڈاوربھاری فنڈز دیے گئے تاکہ کورونا سے لڑا جا سکے ۔

مجھے یہ سننا بہت اچھا مگر بیحد عجیب لگ رہا ہے کہ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ہے کہ این ڈی ایم اے عدالت اورعوام کو جوابدہ ہے کیونکہ برسر زمین حقیقت یہ ہے کہ ابتک این ڈی ایم کسی اے کو کبھی خاطر میں نہیں لایا اور اسکی جانب سے اربوں روپے ڈکار لئے جانے کے بعد ہی محترم جسٹس اعجاز الاحسن کو اب جاکے اس صورتحال کا جائزہ لینے کا ہوش آیا ہے ۔ اور جہاں تک بات ہے چیف جسٹس پاکستان کے ان ریمارکس کی کہ این ڈی ایم اے ٹڈی دل کیلئے جہاز اورمشینری منگوارہا ہے ،صرف زبانی نہیں دستاویزسے شفافیت دکھانا پڑے گی ،کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ وہ اربوں روپے کیسے خرچ کررہا ہے ۔۔۔ اس سلسلے میں مری گزارش یہ ہے کہ اب محترم چیف جسٹس معاملہ کو صرف ریمارکس دینے تک ہی محدود نہ رکھیں بلکہ اس کا تفصیلی آڈٹ کرکے جنرل افضل سے پائی پائی کا حساب لیں کیونکہ انکی جانب سے پیش کردہ سرسری حساب کے حق میں شواہد دور دور تک نظر نہیں آرہے اور یہ غریب قوم اب مزید لؤٹے کھسوٹے جانے کی متحمل نہیں ہوسکتی خواہ لٹیرا کسی طرح کے حلئے اور کسی بھی لباس میں ہو ۔

Advertisements
julia rana solicitors

مجھے یہاں یہ بھی عرض کرنے دیجیے کہ این ڈی ایم اے کو خدارا فوج کی گرفت سے نکال لیں اور اسے وفاقی محتسب یا اسی طرز کے کسی خصوصی بنائے گئے ادارے کے ماتحت کردیا جائے کیونکہ اس سے فوج بدنام ہورہی ہے جس کی وجہ یہ عام طور پہ پایا جانے والا یہ تاثر ہے کہ قومی بحران سے نپٹنے کے ایسے ادارے بھی کمائی اور لوٹ مار کے اڈے بن چکے ہیں اور اسی لئے چیف جسٹس  نے کل جو یہ اعتراض بھی کیا ہے کہ کورونا ،سیلاب،ٹڈی دل اورسب کچھ این ڈی ایم کو سونپا گیا۔۔۔ تو یہ اعتراض ہرگز بیجا نہیں خصوصاً  اس تناظر میں کہ ملک کے اہل فکر ونظر ہی نہیں بلکہ عام عوام کے لبوں پہ یہی باتیں اور وسوسے ہیں اور ہم واضح سفاک حقائق کی روشنی میں ان کو کیسے نظرانداز کرسکتے ہیں ۔۔۔ شدید ضرورت اس بات کی ہے یہ وقت آگیا ہے کہ اب واضح انداز میں فوج سے یہ کہہ دیا جانا چاہیے کہ یہ سب براہ راست آپکے نیچے کیے جانے کے کام نہیں ہیں بلکہ اس سلسلے میں آپکا دائرہء عمل حسب طلب متعلقہ سویلین اداروں کی معاونت ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں ۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply