مراکو؛ماضی و حال کے آئینے میں ۔۔سیّد مہدی بخاری

دو لاکھ سال قبل از مسیح سے مراکو کا سراغ ملتا ہے۔اس وقت صحارا خوبصورت جنگل تھا۔اس میں سات دریا بہتے تھے۔ جنگلی جانور تھے۔گھاس کے میدان تھے۔ چھ ہزار سال قبل بارشیں رُک گئیں۔دریا خشک ہو گئے۔ جانور مر گئے اور صحارا ریگستان بن گیا۔ جو آج دی گریٹ ڈیزرٹ صحارا کے نام سے جانا جاتا ہے۔
سلطنت روم نے یہاں قبضہ جمایا۔ بازنطینی ریاست نے روم سے مراکو چھین لیا تو رومنز دور ہو گئے۔ دنیا میں اسلام کی روشنی طلوع ہوئی تو افریقہ کے تاریک علاقے بھی جگمگا اُٹھے۔مسلمانوں نے بازنطینی ریاست کو شکست دے کر ہرا جھنڈا لہرا دیا۔عرب حکمران موسیٰ نصیر نے اپنے سپہ سالار طارق بن زیاد کے ساتھ اسپین تک فتح کر لیا اور فرانس میں داخل ہو گئے لیکن دمشق کے بادشاہ ولید بن مالک نے عین وقت پر آگے بڑھنے سے روک دیا۔ تاریخ وہیں رک گئی۔وقت بدلنے میں صدیاں لگتی ہیں جو لمحوں میں گزر جاتی ہیں۔ سات سو سال بعد مسلمانوں کو حکومت اور اسپین دونوں چھوڑنا پڑے اور مراکو سے بھی بے دخل ہو گئے۔وقت گزرتا رہا۔

بنو امیہ سے ادریس نامی شخص عباسیوں سے جان بچا کر بھاگا اور اس نے مراکو میں پناہ لی۔ یہاں ادریس اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے بربر قبائل کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہوا اور اس نے بربروں کی مدد سے مراکو میں حکومت قائم کر لی۔ یہ یہاں پہلی مسلمان ریاست مانی جاتی ہے۔ ادریس کی بڑھتی ہوئی شہرت و طاقت سے عباسی خلیفہ خائف ہو گئے۔ ہارون رشید نے ایک مشن بھیجا تاکہ ادریس کو قتل کر دیا جائے۔ مشن کامیاب رہا۔ ادریس کے قتل کے بعد اس کا بیٹا مراکو کے تخت پر بیٹھا اور اس نے چھبیس سال حکومت کی۔ مراکو کو مضبوط ملک بنایا۔

پُرتگالی ریاست نے اپنے بحری بیڑوں کے ذریعہ مراکو پر حملہ کیا اور ایک حصے پر قبضہ کر لیا۔ اسپین بھی مسلمانوں کے پیچھے آیا اور ایک حصہ پر قابض ہوا۔ مراکو تین ریاستوں میں بٹ گیا۔ ایک جانب پرتگالی تھے۔ ایک جانب اسپین اور ایک جانب مراکو کی اپنی ریاست۔ مولوی عبدالرشید نے مراکو کی حکومت سنبھالی تو اس نے شدید جنگ لڑتے ہوئے مراکو کو پرتگالیوں اور اسپین سے آزاد کروا لیا۔

فرانس نے سر اٹھایا تو اسے مراکو کا شہر اور بندرگاہ کاسابلانکا پسند آئی۔ فرانس نے مراکو پر حملہ آور ہو کر قبضہ کر لیا اور یوں مراکو فرانس کے زیر ِ تسلط چلا گیا۔ فرانس مراکو کا مائی باپ بن گیا اور مراکو فرنچ کالونی۔ بادشاہ کو رسمی طور پر باقی رکھا مگر سارے اختیارات فرنچ گورنر جنرل کو منتقل ہو گئے۔ وہی ہوا جو ہندوستان میں مغل بادشاہ کے آخری دور میں ہوا تھا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد بربر رہنما عبدالکریم نے جنگ آزادی شروع کی۔ اس نے بربر قبائل کو جمع کر کے فرانس سے لڑائی کا آغاز کیا۔ فرانس نے ہر ممکن طریقے سے اس کو کچلنے کی کوشش کی۔ عوامی سہولیات کی خاطر ریلوے اور سڑکوں کا نظام بہتر بنایا تاکہ عوام بغاوت سے باز آ سکے۔دوسری عالمی جنگ کے بعد فرانس کی اپنی حالت پتلی ہو چکی تھی۔

مراکو کی عوام نے فرانسیسی اشیاء کا بائیکاٹ کر دیا اور فرانس سے آزادی کی خاطر ہڑتالوں اور مسلح مزاحمت پر اتر آئے۔ اس وقت مراکو کے رسمی بادشاہ محمد الخامس تھے۔ فرانس نے بادشاہ کو جلا وطن کر دیا۔ بادشاہ کے جلاوطن ہوتے ہی عوام میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ فرانس کا تسلط برقرار رکھنا مشکل ہوتا گیا۔ امریکی صدر روز ویلٹ نے پیرس میں فرانس سے سمجھوتہ کروایا جس کے نتیجے میں بادشاہ محمد الخامس کو واپس مراکو بھجوا دیا گیا۔ بادشاہ کی واپسی پر ان کا شاندار استقبال ہوا۔ اور واپسی کے دو سال بعد فرانس نے مراکو چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔

بادشاہ محمد الخامس کو مراکو کے مکمل اختیارات مل گئے۔ محمد الخامس کو مراکو کو بابائے قوم کہا جاتا ہے۔ مراکو کو فرانس سے آزادی ملنے کے چار سال بعد وہ انتقال کر گئے۔ اس کی بعد ولی عہد حسن دوئم تخت پر بیٹھے۔ حسن دوئم نے پارلیمنٹ تحلیل کرتے ہوئے تمام تر اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لئے۔ مراکو کو نیا آئین دیا۔

حسن دوئم پر دو بار قاتلانہ حملے ہوئے۔ یہ حملے مراکو کی فوج کی جانب سے کیے گئے۔ جب وہ اپنی بیالیسویں سالگرہ منا رہے تھے تو فوج نے شاہی محل پر حملہ کر دیا۔ سپاہی جب بادشاہ کے پاس قتل کی نیت سے پہنچے تو حسن دوئم نے قرآن کی تلاوت شروع کر دی۔ یہ دیکھ کر سپاہیوں نے ہتھیار پھینک دئیے۔ اسے انگریزی میں کہتے ہیں “ گاڈ سیو دی کنگ” ۔

دوسری بار یوں ہوا کہ وزیر دفاع جنرل اوفگر نے بادشاہ حسن دوئم کو طیارے میں مار گرانے کا منصوبہ بنایا۔ بادشاہ سلامت طیارے میں سفر کر رہے تھے۔ ان کو فضا میں ہی اس منصوبے کی خبر ہو گئی۔ انہوں نے پائلٹ سے کہا کہ میسج بھیج دو کہ بادشاہ دل کا دورہ پڑنے سے طیارے میں انتقال کر گئے ہیں۔ پائلٹ نے کنٹرول ٹاور کو میسج بھیج دیا۔ جنرل اوفگر نے سنا تو خوش ہوا۔ اس نے کہا کہ اللہ کی جانب سے ہی کام ہو گیا لہذا طیارے کو گرا کر اس میں موجود لوگوں کو کیوں مارا جائے۔ فوجی سربراہ کو بیوقوف بنا کر بادشاہ سلامت بحفاظت زمین پر اتر گئے اور اترتے ہی جنرل کو گرفتار کرنے کے احکامات دے دئیے۔ اس کے ساتھ ہی اپنا بنایا آئین معطل کر کے افسران کو گرفتار کروا دیا۔ اپنے انتقال تک حسن دوئم مطلق العنان بادشاہ رہے۔

مراکو کا رقبہ برطانیہ سے آٹھ گنا بڑا ہے۔نہ جانے یہ برطانیہ سے کیوں مقابلہ کرتے ہیں اگر سنگاپور سے کریں تو 64 گنا بڑا ہے اور اپنے برادر عرب ملک یمن سے کریں تو سو گنا بڑا ہو جائے گا۔ اس ملک کی بندرگاہ کاسابلانکا ہے۔ ساٹھ فیصد تجارت کا انحصار اسی شہر پر ہے۔مراکو کا عربی نام “مملکت المغربیہ” ہے یعنی مغرب کا ملک۔ مراکش اس ملک کا قدیمی شہر ہے جس کی تہذیب دو ہزار برس پرانی ہے۔ مراکش شہر اتنا تہذیب یافتہ ہے کہ اس کی بدولت ہم پاکستانی مراکو کو مراکش ہی پکارتے ہیں۔

مراکش کوہ اطلس کے پہاڑی سلسلے میں واقع ایک وادی ہے۔ کوہ اطلس کا پہاڑی سلسلہ مغربی افریقہ میں پھیلا ہوا ہے۔ اس کی سب سے بڑی چوٹی “توب کال” ہے کس کی اونچائی چار ہزار میٹرز ہے۔ وادی مراکش کبھی مراکو کا دارلحکومت ہوتا تھا مگر پھر اسے رباط منتقل کر دیا گیا۔ اب رباط شہر ہی مراکو کا دارلحکومت ہے۔

اس ملک میں 75 فیصد بربر لوگ اور 24 فیصد عربی ہیں اور بقیہ ایک فیصد دوسرے ممالک سے آ کر آباد ہیں۔ بربر لوگوں کو آپ غیر عرب کہہ سکتے ہیں۔ یہ لوگ شمالی افریقہ کے پہاڑوں پر بسا کرتے تھے۔ فاتح اسپین طارق بن زیاد کا تعلق بربر قبیلے سے ہی تھا۔ بربر لفظ رومنز نے ان کو عطا کیا۔ یہ لفظ “بربریت” سے نکلا ہے۔ اہلیان مغرب ان کی بہادری کو بربریت گردانتے تھے لہذا ان کو Barbarism کہنے لگے۔ بربر کا لفظی مطلب “اجنبی” ہے۔یہاں کسی غیر عرب کو بربر کہیں تو وہ بُرا منا سکتا ہے۔ ان کو بربر کی بجائے امازغ کہا جاتا ہے۔امازغ لوگ اس دھرتی کے صدیوں قدیمی مقامی ہیں۔

مراکو میں ہر شخص کو پانچ زبانیں بولنا آتی ہیں۔ ان کے نظام تعلیم میں پڑھائی جاتی ہیں۔ انگریزی، عربی، بربر، سپینش اور فرنچ۔ کاسابلانکا سے دارلحکومت رباط ستر کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ دارلحکومت میں بادشاہ سلامت رہائش پذیر ہیں۔ مراکو میں ہائبرڈ نظام نافذ ہے۔ اصل اختیارات بادشاہ سلامت کے پاس ہیں اور کچھ اختیارات وزیراعظم اور قومی اسمبلی کو بھی دئیے گئے ہیں۔بادشاہ سلامت کا کوئی بیٹا نہ ہو تو بھائی یا بھائی کی اولاد کو تخت مل جاتا ہے مگر یہاں بادشاہ سلامت کا ایک ولی عہد ان کا بیٹا سلامت ہے۔ ولی عہد صاحب بہترین یونیورسٹی میں ایڈمنسٹریشن کی ڈگری لے رہے ہیں۔

بادشاہ سلامت مراکو کے کمانڈر انچیف اور مذہبی سربراہ بھی ہیں۔ یہ حسن دوئم کے بیٹے ہیں۔ ان کا نام محمد السادس ہے جسے انگریزی میں محمد دی سکستھ کہہ سکتے ہی۔ بادشاہ سلامت سادات سے ہیں اور مالکی فقہ کے پیروکار ہیں لہذا رعایا کی اکثریت بھی مالکی فقہ پر کاربند ہے۔بادشاہ سلامت وزیراعظم خود منتخب کرتے ہیں اور صوبوں کے گورنرز کا تقرر بھی خود فرماتے ہیں۔ عوام الناس بادشاہ سلامت سے خوش ہے اور ان کے گُن گاتی ہے۔

بادشاہ سلامت جب چاہیں پارلیمنٹ توڑ سکتے ہیں اور وزیراعظم کو برخاست کر سکتے ہیں۔ کیا اچھا نظام ہے۔ غالباً مرحوم جنرل ضیاالحق نے آٹھویں ترمیم کا تصور مراکو سے ہی لیا ہو گا۔ مراکو ایک خشک ملک ہے۔ یہاں سب سے زیادہ سنگترے پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ زیتون اگانے میں یہ دنیا میں چوتھے نمبر پر واقع ہے۔ ذریعہ آمدن فاسفیٹ کی پیداوار ہے۔ فاسفیٹ کھاد بنانے کا اہم عنصر ہے اور دنیا میں فاسفیٹ کے پچاس فیصد ذخائر مراکو کے پاس ہیں۔ قدرے پراگریسو یا خوشحال ملک ہے۔ مساجد ریاست کے کنٹرول میں ہیں۔ امام مسجد ریاست کے تنخواہ دار ہوتے ہیں۔ یہاں کوئی فقہ وارانہ یا نسلی یا لسانی یا صوبائی تفریق نہیں پنپ سکی۔ ایک ہی خطبہ نشر ہوتا ہے جو ریاست کی جانب سے دیا جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

عورت یہاں شہری علاقوں میں مکمل آزاد اور طاقتور ہے۔ دیہی علاقوں کی صورتحال مختلف ہے وہاں ابھی بھی سماج قدامت پسند ہے۔ ملکی قوانین انتہائی سخت ہیں اور عوام میں ان کو توڑنے کی ہمت بھی نہیں۔ شرح خواندگی بہت زیادہ ہے تقریباً پچاسی فیصد۔ سیاحت کے لئے بہترین ملک ہے۔ یہاں سیاحوں کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ سیاحوں کے واسطے بارز اور نائٹ کلبس ہیں۔ ملک میں امن و امان ہے۔ نظام مملکت سکون سے رواں دواں ہے۔ ساری دنیا بشمول اسرائیل کے ساتھ مراکو کے خوشگوار تعلقات ہیں صرف ہمسائیہ ملک الجیریا کے ساتھ تعلقات خوشگوار نہیں اور اس کی بنیادی وجہ دونوں ممالک کے مابین صحرائے صحارا کو لے کر ملکیت یا حدود کا تنازعہ ہے۔ دونوں ممالک صحارا کے مالک ہونے کے دعویٰ دار ہیں۔ الجیریا اور مراکو کے مابین صحارا کے تنازعے پر سنہ 1963 میں جنگ ہو چکی ہے جو ساڑھے چار ماہ جاری رہی۔ آج بھی سرحدوں پر صورتحال خوشگوار نہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply