شہرت سے مایوسی تک کا سفر۔۔سیدہ ہما شیرازی

؎وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
آج کا انسان زندگی سے زیادہ موت کو آسان تصور کیے بیٹھا ہے۔ اس عمل کے پیچھے سماجی نفسیاتی اور دیگر مسائل کارفرما ہیں۔ سوشانت سنگھ انڈین ایکٹر کی خودکشی نے ایک المیے کا روپ دھارتے ہوئے آج کے انسان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔
موجودہ دنیا کا انسان سرحد کے اس پار رہتا هو یا اُس پار زندگی کے سفر سے تھک چکا ہے وہ اندرونی طور پر تباہی کا شکار ہے اس صدی کے انسان کی پیدا کردہ مصروف زندگی اب اس کے لئے ہی وبالِ جان بن چکی ہے۔
اس دور کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ جو انسان جتنا زیادہ کامیاب ہوگا اتنا زیادہ ڈپریشن کا شکار ہوگا اس کی نجی زندگی اس قدر ہی تنہائی کا شکار ہوگی پچھلے دنوں ایک معزز ادبی شخصیت جناب آصف فرخی کا انتقال ہوا ،ان کی نجی زندگی کو دیکھا جائے تو وہ انتہائی تنہائی کا شکار تھے، ان کی اس تنہائی کا واحد مسیحا قلم اور کتاب تھی ۔اسی کے ساتھ “ساتھ” نبھاتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہو گئے ۔آصف فرخی جیسا انسان جو اپنے جذبات کو قلم کے ذریعے ٹھنڈک پہنچا سکتا تھا اس کی روح میں موجود دُکھ کو ادب کی تازہ ہوا سکون میسر کرسکتی تھی اس لیے وہ زندگی کی آخری سانس تک جیا۔
بالکل اسی طرح۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

؎”ہم دوہری اذیت کےگرفتارمسافر
پاؤں بھی ہیں شل ،شوقِ سفر بھی نہیں جاتا”
اُن کے ذوق کا یہ سفر قدرت کے بُلاوے پر ہی اختتام کو پہنچا ،اس کے برعکس کئی کردار نبھانے والا ایک فنکار جو زندگی کے جبر سے ہار گیا ،شاید اس کے پاس وہ ہتھیار موجود نہیں تھےجس سے وہ اس جبر کو سہہ سکتا ،اس کی آگ کی تپش کو ٹھنڈا کر سکتا، جو ہر آنے والے دن کے ساتھ اس کے لیے مزید حدت پیدا کر رہی تھی۔
اس دنیا میں مسلسل جدوجہد کے بعد جو لوگ کامیابی کی منازل طے کرلینے کے بعد کسی خاص مقام پر پہنچ جاتے ہیں اُن کے ہاں ڈپریشن شدت اختیار کر لیتا ہے۔
اس ڈپریشن کی پہلی وجہ لوگوں کا حریفانہ رویہ اور دوسری وجہ پیسہ بنتا ہے جب پیسہ آتا ہے تو ایسے لوگوں کو آرام و سکون میسر آنے کی بجائے ان کی نیندیں حرام ہو جاتی ہیں ان کو پیسہ چھن جانے کا خوف لاحق ہو جاتا ہے ایسے لوگوں کو اپنے مقام پر رہنے کے لئے شدید جدوجہد کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور لوگوں کے سامنے ہر وقت مسکرانا پڑتا ہے۔ یہ بات حقیقت ہے کہ زندگی میں سب کچھ حاصل ہو جائے تو زندگی دشوار ہو جاتی ہے، ایسے سانحے ہمیں اس بات کی سچائی کے لیے جواز فراہم کرتے ہیں۔ موجودہ سماج میں انسانوں کے ساتھ انسانوں کی بڑھتی ہوئی دوری اور مفاد پرست تعلقات نے زندگی سے زندگی کی رونق چھین لی ہے، ہر دوسرا انسان تنہائی کا شکار ہوکر نفسیاتی مسائل میں اُلجھا ہوا ہے ۔جس کا حل بھی وہ اپنی سمجھ کے مطابق نکال رہا ہے، کبھی خود کو تکلیف دے کر تو کبھی دوسروں کو اذیت سے دوچار کر کے، فلمی اور کتابی باتیں آج کے سماج کی پہچان بن چکی ہیں۔
پہلے خودکشی جیسے واقعات کو کتابوں میں شاذونادر ہی پڑھا جاتا تھا ،جس کا شکار اکثر حساس لوگ اور شاعر حضرات دکھائی دیتے تھے آج تو سماج کا ہر فرد ہی اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ طبعی موت کے انتظار میں بھی مشکل محسوس کرتا ہے اور من چاہی موت کو گلے لگا کر ہمیشہ کے لیے مشکلات سے جان چھڑوا لیتا ہے۔
ایسے واقعات کی کثرت وہ بھی نوجوان نسل میں، کسی بھی سماج کے کھوکھلے پن کا منہ بولتا ثبوت ہے اور آج کے انسان کے منہ پر طمانچہ ہے ۔ہمیں ایسے واقعات سے سبق سیکھ کر ان کے محرکات کو جاننے کی ضرورت ہے ،تاکہ کل کوئی ہمارا پیارا سوشانت سنگھ کی عملی تصویر نہ بنا بیٹھا ہو۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply