اور پھر میری تحریک اغوا ہو گئی۔۔راحیلہ کوثر

وومینز ڈے جس کا تصور و تخیل ہی میرے سامنے ایک حسین و پُر تسکین احساس کو لے آتا  ہے،مجھے بچپن ہی سے اس دن کا منائے جا نا پسند تھا ۔
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز و دروں

ان پُر کیف حروف میں جڑے اس شعر سے میری آشنائی بھی اسی دن کی نسبت سے ترتیب شدہ خصوصی ٹرانسمیشنزکی بصارت وسماعت کے دوران ہی ہوئی تھی۔ جب میں ہر مرد کی گفتار میں عورت کے قصیدےسنتی تومجھے میری عظمتوں کے قصے اچھےلگتے۔جب جب عورت کی قربانیوں کے تعریفی و تعظیمی جملے میری سماعتوں سے ٹکراتے مجھے میرا لڑکی ہونا اچھا لگتا اور میرے فطرتاً نازک ہونے پر میرے زیادہ خیال و توجہ و پیار کی حقدار ہونے کے دلائل سنتی تو مجھے میرا صنف نازک ہونا اک حسین احساس دیتا۔مجھے اس دن کا انتظار رہتا کہ کب پھر سے ان خواتین کو ان کی سال بھر کی خدمات و قربانیوں پر خراج تحسین پیش کیا جائے گا ۔جب بڑی ہوئی تو یہ دن مجھے رزلٹ ڈے کی مانند لگنے لگا کہ آج پھر میرے گن گائے جائیں گےان کا ہر ہر لفظ ا ور تعظیم و تعریف مجھے ہر کمزور لمحے میں تقویت دینے کے لیے کانوں میں دھیرے سے سرگوشی کرنے لگتی اورجب میں تھک کر حالات کی ستم ظریفی کے آگے گھٹنے ٹیکنے لگتی تو میں اپنی عظمت کو قائم ودائم رکھنے کےلیے پھر سے اٹھ کھڑی ہوتی۔ اس روز جب میں اپنی زندگی کے گرداب میں پُر آشوب ہونے کے باوجود ساحل پر آنے والی عظیم خواتین کے انٹرویوز سنتی ان کی زندگیوں پر مبنی ڈرامے دیکھتی تو من میں ان جیسا بننے کی تمنا ہوتی۔اپنی چھوٹی موٹی مشکلات کے دوران میں دل میں ان کے حالات کا تصور لاتی تو ہمت بندھ جاتی۔

اب ایسا بھی ہر گز نہیں تھا کہ ان پروگرامز اور نشریات کے نتیجے میں عورت کو اس کے سب حقوق جو قرآن میں اللہ کی ذات اقدس نے بیاں کیے ہیں حاصل ہو جاتے تھے۔
زیادتیاں تو جاری تھیں کبھی بیٹی پیدا کرنے پر طلاق یا بیٹیاں پیدا کرتے جانے پر سوتن کا تحفہ ، کہیں جہیز کی استعاعت نہ ہونے کے سبب رشتوں کا ٹوٹنا تو کہیں سسرال کی فرمائشوں کا سامان ٹوٹے ہاتھوں کے ساتھ ماں باپ سے لے لے کر دینا ۔ کبھی عورت کی عصمت جرگے والوں کی نذر ہونا تو کبھی باپ بھائی کے جرم کی باداش میں ونی ہونا ، کہیں جائیداد ہڑپنے کے لیے کاری کرنا تو کہیں قرآن سے بیاہے جانا۔ کہیں تعلیم یافتہ عورت کو وبال سمجھ کر قبول نہ کیا جانا ، تو کہیں جاہل و پُر فتنا عورت کےحکم سے اس کے مرید مردوں کے ہاتھوں مختلف رشتوں میں عورت کا استحصال ہونا۔ اسلام نے عورت کو جو حقوق دئیے تھے ان کو حذف کیے جانا معمول کی بات تھی ۔

جب خواتین کو اندازہ ہوا کہ ان کا عالمی دن قوالی و تالی کی نذرہوتا چلا آرہا ہے اور مسائل جوٖں کے توں ہیں تو ان کے مطالبات نے اس دن تحریک کی شکل لےلی ۔ اب ٹی وی پر تعریف کے ساتھ ساتھ ان کے جائز حقوق کے حصول کی بات زورو شور سے ہونے لگی اور عورت اپنے بہت سے جائز حق لینے میں کامیاب ہوتی گئی۔ اس کو مردوں کے جرم کے نتیجے میں بطور نذرانہ پیش کیے جانے کے خلاف قانون بنے ،اسے سازش کے تحت کاری کرنے پر بھی سزائیں مختص ہوئیں۔ عورت کی تعلیم عام ہوئی اس کا جاب کرنا عیب نہ  سمجھا جانے لگا، بلکہ وہ اعلیٰ  تعلیم حاصل کرنے لگی اور اسکا مردوں کے شانہ  بشانہ کام کرنا باعث عزت گردانا جانے لگا۔ اس کی پسند نا پسند کا احترام کرنا معیوب نہیں سمجھا جانے لگا تھا الغرض اب وہ بنیادی ، اسلامی وقانونی حقوق اس کو میسر تھے جن کا پہلے وہ گماں کیا کرتی تھی۔ ما سوائے مٹھی بھر طبقہ کے سب اس تحریک کو عزت کی نگا ہ سے دیکھتے، عورت کا دن پُر وقار انداز سے آتا اور دعاؤں کے ساتھ ساتھ مظلوم عورت کی آواز بننے کے عزم کے ساتھ اختتام پذیر ہو جاتا۔اب ایسا بھی نہیں تھا کہ عورت پر تمام مظالم ہونا بند ہوگئے تھے ریپ کا درجہ روز بروز بڑھتا ہی جارہا تھا جس پر عورت کو ہی مشکوک قرار دے کر مردوں کو شہ دی جاتی اس کے نتائج نا بالغ بچیوں اور بچوں نے بھگتے تو مرد کا جرم جرم لگنے لگا ۔ عورت سے زیادتی ہوتی تھی ہورہی ہے مگر مجرمانہ زہنیت کے افراد کے ہاتھوں، ویسے بھی جن کو خدا کا خوف نہ رہے ،حیا نہ  رہے ان کے ہاتھوں  سے عورت کیا مرد، بچے حتی کہ مردے بھی محفوظ نہیں رہتے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب عورت تعلیم یافتہ اور با شعور ہونے کے ساتھ ساتھ اپنےروزگار اورامور خانہ داری کے فرائض بھی سرانجام دینے لگی تھی ۔ اب وہ اپنے حقوق کا تعین و حصول سیکھ چکی تھی اور معاشرہ بھی انہیں تسلیم کرنے لگا تھا اس تسلیم کیے جانے کے عمل نے عورت کی جرات و ہمت کو تقویت دی ۔ مگرپھر کچھ نئی طرز کے مسائل جنم لینے لگ گئے اب ان کے بھی حصول کے لیے عورت نے اپنے مطالبات کی درجہ بندی شروع کی دوسری جانب ابھی تک بہت سے پرانے مسائل بھی ان کو منہ چڑا رہے تھے سو ایسی صورت حال میں جدید دور کے تقاضوں کے پیش نظر اس تحریک کی علمبردار خواتین کے سائے تلے عورت مارچ کا ہونا ناگزیر ہوگیا۔ عورت کی کامیابیوں کی یہ تحریک اپنے حسن و وقار کے ساتھ کامیابیوں کو بٹورے جاری ہی تھی کہ ۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر میری تحریک اغوا ہو گئی ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply