قافلہ کیوں لٹا؟۔۔۔ اویس احمد

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک قافلہ سوئے منزل رواں تھا۔ یہ ایک عجیب قافلہ تھا جو تقریباً ستر سال پہلے عازم سفر ہوا تھا اور اس کا سفر اب تک جاری ہے۔اکثر ایسا ہوا کہ  قافلے کو اپنی منزل  اپنی نظروں کےسامنے دکھائی دینے لگی مگر ہر مرتبہ منزل کی بجائے سراب ثابت ہوا۔کبھی راستے بدلنے پڑے تو کبھی کچھ لوگوں نے رہبری کا بیڑا اٹھایا مگر منزل نہ ملنی تھی نہ ملی۔ بار بار راستےسے بھٹک جانے والے اسی قافلے کا یہ   ذکر ہے۔قافلے نے اپنے سفر کا آغاز کیا تو قافلے کے شاملین تعداد میں قلیل تھے۔قافلے کا راہنما ایک نحیف مگر اولولعزم ، دیانت دار، راست گو اور ایماندار بوڑھا تھا جو اپنی جسمانی کمزوری اور بیماریوں کے باوجود قافلے کی قیادت کا حق ادا کرتا ہوا اسے منزل تک پہنچانے کے لیے ڈٹا ہوا تھا۔

سفر کے آغاز ہی میں راہنما  اپنی بیماریوں سے لڑتے لڑتے تھک کر   اپنے خالق حقیقی کے حضور حاضر ہو گیا۔یہ قافلے کے لیے انتہائی صدمے کا وقت تھا کیوں کہ منزل کا شعور اور منزل کے حصول کا ادراک دینے  والا  وہ راہنما ہی تھا جس نے یہ قافلہ ترتیب دیا تھا۔ ذمہ دارانِ قافلہ نے باہمی مشورے سے راہنما کے سب سے قریبی ساتھی کو، جو اپنی لیاقت کی بنا پر معروف تھا، اپنا اگلا راہنما چن لیا۔لائق راہنما نے قافلے کو اسی سمت رواں رکھا جو سمت راہنما ء اول  نے متعین کی تھی۔

جب بہت سے لوگ ایک ساتھ سفر کر رہے ہوں تو رفتہ رفتہ اختلافات سر اٹھانے لگتے ہیں۔ راہنما سے اختلافات کے بعد اس کو راہ سے ہٹا دیا گیا۔ یکے بعد دیگرے مختلف راہنماؤں کی تقرری کے بعد ایک رعب دار محافظ نے راہنمائی ازخود سنبھالی اور راستہ تبدیل ہو گیا۔محافظوں کے اپنے انداز ہوتے ہیں ۔رعب دار محافظ کی راہنمائی میں قافلہ کچھ آگے بڑھا۔ساتھ والے قافلے سے لڑائی بھی ہوئی اور مہنگائی بھی بڑھی۔مسافروں کے احتجاج کی بدولت رعب دار محافظ مجبور ہو گیا  کہ وہ قافلے کی راہنمائی سے دستبردار ہوجائے۔ وہ قافلے کی کمان ایک عیاش محافظ کو سونپ گیا۔راستہ پھر تبدیل ہو گیا۔ عیاش محافظ نے مسافروں کو اپنا راہنما  خود چننے کی دعوت دی۔ قافلے کے مسافروں کے لیے یہ ایک نئی بات تھی۔اس سے پہلے انہوں نےکبھی اپنا راہنما اپنی مرضی سے منتخب نہیں کیا تھا ،چنانچہ مسافروں میں جوش وخروش پیدا ہو گیا۔ سفر کے تئیسویں برس قافلے کے مسافروں نے پہلی مرتبہ اپناراہنما خود چننے کے لیے رائے دی۔نتیجہ المناک نکلا۔قافلے کے مشرقی سرےپر ایک نمائندہ مقبول ہوا تو مغربی سرے پر ایک دوسرا نمائندہ مقبول ہو گیا۔مغربی سرے والے مقبول نمائندےنے مشرقی سرے والے مقبول نمائندےکی مقبولیت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ۔مشرقی سرے والا مقبول آدمی قافلے کا مشرقی حصہ لے کر الگ ہو گیا۔

یہ ایک سانحہ تھا۔اس بار صرف راستہ ہی تبدیل نہ ہوا بلکہ منزل کا نشان بھی دھندلا گیا۔ماضی کے تجربات کوسامنے رکھتے ہوئے مسافروں نے فیصلہ کیا کہ قافلے کے لیے نئے قواعد وضوابط وضع کیے جائیں اور ان کو قافلے پر نافذ کیا جائے تاکہ مستقبل میں تنازعات نہ جنم لے سکیں۔چنانچہ مقبول  راہنما نے اپنے  مشیروں اور مسافروں کے نمائندوں کو  اکٹھا کیا اور سب سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔خوب غور و خوض کے بعد ایک متفقہ دستاویز تیار کی گئی جس میں مسافروں کی تمام ضروریات اور مسائل کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی۔مسافروں نے اس دستاویز کو قبول کیا اوربچا کھچا  قافلہ ایک مرتبہ پھر رواں دواں ہو ا۔

مگر جلد ہی مسافروں کے درمیان تنازعات جنم لینے لگے۔کچھ مسافروں کو مذہبی بنیاد پر نشانہ بنا دیا گیا تو کچھ مسافروں کے ساتھ یونٹ کی بنیاد پر تعصب برتا جانے لگا۔ انتشاربڑھ گیا۔ مقبول راہنما نے اعلان کر دیا کہ مسافر اپنا راہنما دوبارہ منتخب کر لیں۔مسافروں  کی اکثریت نے دوبارہ مقبول راہنما کو منتخب کر لیا مگر کچھ مسافروں نے اس کو ماننے سے انکار کر دیا۔قافلے میں پھیلا انتشار دیکھ کر ایک چالاک محافظ نے قدم بڑھائے اور ازخود قافلے کی راہنمائی سنبھالی۔متفقہ دستاویز کو لپیٹ کر طاق میں سجا دیا گیا۔ چالاک محافظ نے اپنی راہنمائی کو مستحکم کرنے کی خاطر مسافروں پر جبر  شروع کیا ۔مقبول  راہنما کو مقدمات قائم کر کے سزائے موت دے دی اور  اپنی راہنمائی کو دوام بخشنے کے لیے دوسرے قافلے کے پھڈوں میں ٹانگ اڑانی شروع کر دی تاکہ اسے دیگر قافلوں کی حمایت میسر آسکے۔ساتھ ہی ساتھ اس چالاک محافظ نے مسافروں کو منزل کے حصول کے لیے شدت پسندی پر مبنی نئے خواب دکھانے شروع کیے اور قافلے کا راستہ تبدیل ہوتا چلا گیا۔

چالاک  محافظ نے اپنے من پسند مسافروں کو چن کر مسافروں کے نمائندہ کے طور پر متعارف کروانا شروع کیا۔یہ لوگ مسافروں کی نمائندگی سے اتنے ہی دور تھے جتنا کہ چالاک محافظ مسافروں کی راہنمائی سے دور تھا۔ایک نام نہاد نمائندے کو محافظ کی چھتری میسر آئی تواس نےاپنی دولت میں اضافے کرنا شروع کر دیا۔سزائے موت پا جانے والے راہنما کی ایک بیٹی نے، جو اپنے باپ کے قتل کے خلاف میدان میں آگئی تھی، قافلے کو چالاک محافظ سے نجات دلانے کے لئے جد وجہد شروع کی۔اس کی جدوجہد جاری تھی کہ چالاک محافظ ایک حادثے میں چل بسا۔مگر مرنے سے پہلے وہ متفقہ دستاویز میں اتنی چھیڑ چھاڑ کر چکا تھا کہ جس کی وجہ سے مستقبل میں بہت ہنگامے ہونے والے تھے۔راستہ دوبارہ تبدیل ہو گیا۔

چالاک محافظ کے بعد مقبول راہنما کی بیٹی اور نام نہاد نمائندے کے درمیان راہنمائی کی کشمکش شروع ہوئی۔مقبول  راہنما  کی بیٹی  پہلی خاتون راہنما بنی۔وہ کم عمر اور ناتجربہ کار تھی۔ نا تجربہ کاری کی وجہ سے غلطیاں  ہوتی گئیں۔ ان غلطیوں کو بنیاد بنا کر قافلے کی بزرگ شخصیت نے مقبول راہنما کی بیٹی  کو قافلے کی راہنمائی سے ہٹا دیا۔بزرگ شخصیت کو یہ اختیار متفقہ دستاویز میں کی گئی چالاک محافظ کی   چھیڑ چھاڑ نے دے دیا تھا۔ راستہ پھر تبدیل ہو گیا۔

مسافروں کو ایک مرتبہ پھر اپنا راہنما چننے کا موقع ملا۔ اس وقت تک محافظ قافلے میں اپنی جڑیں  مضبوط کر چکے تھے۔چناچہ محافظوں کی ملی بھگت سے چالاک محافظ کا چنیدہ نام نہاد نمائندہ قافلے کی راہنمائی کا مجاز قرار پایا۔راستہ پھر تبدیل ہوا۔مقبول راہنما کی بیٹی نے بھی نام نہاد نمائندے کو راہنمائی سے ہٹانے پر کمر کس لی۔متفقہ دستاویز میں چھیڑ چھاڑ بہت کام آئی  اور نام نہاد نمائندہ بھی فارغ قرار پایا۔پھر باریاں لگ گئیں۔مقبول راہنما کی بیٹی تو کبھی نام نہاد نمائندہ قافلے کے راہنما بننے لگے۔ اس کشمکش میں قافلے کی راہ کھوٹی ہوتی چلی گئی اور منزل دھندلاتی چلی گئی۔قافلہ بے نشان راستوں پرچلتا رہا۔

مقبول راہنما کی بیٹی اور نام نہاد نمائندے کی جوتم پیزار سے تنگ آکر  ایک روشن خیال محافظ چوتھی بار قافلے کا ازخود راہنما بن گیا۔ راستہ ایک بار پھر تبدیل ہو گیا۔متفقہ دستاویز میں مزید چھیڑ چھاڑ ہوئی۔اتفاق کی بات کہ ایک  مغربی قافلے نے مسافر قافلے کے پڑوس میں رواں ایک قافلے پر حملہ کیا۔اس حملہ میں سہولت کار کا کردار روشن خیال محافظ نے ادا کیا اور قافلہ ایک دوسرےقافلوں کی لڑائی کی لپیٹ میں آگیا۔قافلے کے مسافر دہشت گردی کی بھینٹ چڑھنے لگے۔روشن خیال محافظ طاقتور ہوتا چلا گیا اور  اپنی طاقت کے گھمنڈ میں قافلے کے قاضی سے الجھ بیٹھا جس کے نتیجے میں قافلے میں بے چینی پھیل گئی اور انجام کار روشن خیال محافظ کو راہنمائی سے ہٹنا پڑا۔اور راستہ پھر تبدیل ہوا۔

مقبول راہنما کی بیٹی اور نام نہاد نمائندہ  انتظار میں تھے ۔وہ طے کر چکے تھے کہ مل کر قافلے کی راہنمائی کریں گے اور قافلے کے مسافروں کی رائے کا احترام کریں گے۔مگر مقبول راہنما کی بیٹی کو بھی بیچ سڑک قتل کر دیا گیا۔ مقتول بیٹی کا شوہر موقع سے فائدہ اٹھا کر اور نام نہاد نمائندے سے ساز باز کر کے قافلے کا  راہنما بن گیا۔متفقہ دستاویز کو اس کی اصل حالت میں واپس لانے کے نام پر مزید چھیڑ چھاڑ کی گئی۔قافلے میں انتشار بڑھ  گیا۔مقتول بیٹی کا شوہر حصول منزل کے بجائےحصول دولت میں مبتلا تھا۔اور نام نہاد نمائندہ اس کادم بھر رہا تھا۔چناچہ قافلے کی دولت کم ہوتی اور مقتول بیٹی کے شوہر اور نام نہاد نمائندہ کی دولت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔قافلے کے وسائل کی بڑے پیمانے پر لوٹ مار قافلے کے چنیدہ نمائندوں کے ذریعے کی گئی۔قافلے کا راستہ مکمل طور پر تبدیل ہو چکا تھا۔قافلہ منزل کی جانب چلنے کی بجائے لٹنا شروع ہو چکا تھا۔

قافلے کی پانچ برس راہنمائی کے بعد مقتول بیٹی کا شوہر راہنمائی سے دست بردار ہوا اورقافلے نے نمائندے کو تیسری مرتبہ پھر اپنا راہنما چن لیا۔ نام نہاد نمائندے نے خود کو قافلے کا سب سے مقبول اورزیرک راہنما قرار دیا ۔۔قافلہ بد سے بدحال ہوتا چلا گیا۔چنے ہوئے نمائندے خوش حال ہوتے چلے گئے۔نام نہاد نمائندہ قافلے کی بدحالی کا ذمہ دار محافظوں کو قرار دیتا رہا  اور ساتھ ساتھ قافلے کی راہنمائی کرتا رہا۔قافلہ لٹتا رہا۔

قافلے میں ایک کھلاڑی مسافر بھی موجود تھا جو قافلے میں بے حد مقبول تھا۔ وہ خم ٹھونک کر نام نہاد نمائندے کے مقابل میدان میں اترا اور نام نہاد نمائندے کو قاضی کے پاس لے گیا۔قاضی نے نام نہاد نمائندے کی بے اندازہ دولت کے بارے میں سوال کیے تو نام نہاد نمائندہ تسلی بخش جواب نہ دے سکا۔ قاضی نے نام نہاد نمائندے کو جھوٹا اور بددیانت قرار دے کر حق راہنمائی سے محروم کر دیا۔نام نہاد نمائندے  اور اس کی اولاد نے قاضی کو نشانے پر رکھ لیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ قافلہ  لٹا پٹا پریشان حال ہے۔منزل کا نشان دھندلایا ہوا ہے۔قاضی پوچھتا ہے کہ دولت کہاں سے آئی۔نام نہاد نمائندہ کہتا ہے کہ اس کے خلاف سازش ہوئی ہے۔قاضی پوچھتا ہے کہ تمہارے بچے اتنے امیر کیسے ہو گئے۔نام نہاد نمائندہ کہتا ہے کہ  مجھے بتاؤ میرا قصور کیا ہے؟  قاضی کہتا ہے کہ کوئی ایک ثبوت لے آؤ کہ دولت جائز طریقے سے کمائی گئی ہے۔نام نہاد نمائندہ کہتا ہے کہ محافظ اور قاضی اس کے خلاف گٹھ جوڑ کر کے سازش کر رہے ہیں۔ قاضی مجبور ہو کر سوال کرتاہے “یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا؟”   نام نہاد نمائندہ کہتا ہے کہ مسافر پھر اسے راہنما چن لیں گے۔

Facebook Comments

اویس احمد
ایک نووارد نوآموز لکھاری جو لکھنا نہیں جانتا مگر زہن میں مچلتے خیالات کو الفاظ کا روپ دینے پر بضد ہے۔ تعلق اسلام آباد سے اور پیشہ ایک نجی مالیاتی ادارے میں کل وقتی ملازمت ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply