• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کورونا وائرس، میڈیا، جانی نقصان کے ذمہ داران اور ہمارے ایمان و یقین کا حال۔۔محمد یاسر لاہوری

کورونا وائرس، میڈیا، جانی نقصان کے ذمہ داران اور ہمارے ایمان و یقین کا حال۔۔محمد یاسر لاہوری

کافروں نے مکہ میں اہلِ اسلام کا جینا مشکل کر دیا تو اللہ نے نبی علیہ السلام کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دے دیا۔ نبی علیہ السلام نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ساتھ لیا، چل پڑے۔ راستے میں اپنے تعاقب میں قتل کرنے کے ارادے سے آنے والے کافرینِ مکہ سے بچنے کے لئے نبی علیہ السلام اور اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ غارِ ثور میں پناہ لے لی۔

دشمن لوگ نبی علیہ السلام اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے غارِ ثور کے دہانے پر پہنچ گئے۔ اب جان جانے کا خطرہ ہے۔ اس سے بڑا خطرہ کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کچھ گھبرا گئے۔ ان کی گھبراہٹ دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”
“لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللہَ مَعَنَا”
اے ابو بکر! غم نا کر، اللہ ہمارے ساتھ ہے (سورہ التوبه)

اس   واقعہ سے اہم ترین دو باتیں سمجھ میں  آئیں۔

1- نبی علیہ السلام نے جان جانے کے خطرے کو بھانپ کر غار میں پناہ لی، یعنی احتیاطی پہلو پر حتی الامکان کوشش کی۔ جانی نقصان اور تکلیف سے بچنے کے لئے عقل کو استعمال کرتے ہوئے چھپ گئے اور عملاً یہ بتایا کہ “احتیاط کرنا بزدلی نہیں ہے بلکہ لازم ہے”۔

2- نبی علیہ السلام کی طرف سے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو دشمن کے خوف اور جان جانے کے ڈر میں مبتلا ہونے سے روکنے سے دوسری بات یہ سمجھ میں آئی کہ انسان کے اختیار میں فقط احتیاط کرنا ہے۔ زندگی اور موت، زندگی دینے والے کے ہاتھ میں ہے۔ جب انسان احتیاط کرتے ہوئے اپنی جان کی حفاظت کرتا ہے تو اس کے بعد اس کا ڈر و خوف میں مبتلا ہونا اس کے لئے مزید پریشانیاں تو پیدا کر سکتا ہے لیکن اسے فائدہ نہیں دے گا۔ ایک مسلمان کا اللہ پر کامل یقین ہونا چاہیے۔

کیسا یقین ہونا چاہیے؟
ایسا یقین کہ ہر وقت ہر مصیبت و پریشانی میں اس کے ذہن و زبان پر یہ بات ہونی چاہیے کہ “اللہ میرے ساتھ ہے” کبھی آنکھیں بند کر کے سوچیے گا کہ جب نبی علیہ السلام نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے یہ بات کہی ہو گی کہ (اے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ غم نا کر اللہ ہمارے ساتھ ہے) تو کس قدر پختہ یقین کے ساتھ یہ بات کہی ہو گی کہ اللہ نے مکڑی کو حکم دیا اور مکڑی نے غار کے منہ پر جالا بُن کے کافروں کو واپس پلٹا دیا کہ یہاں تو جالا لگا ہوا ہے، لہذا یہاں کوئی نہیں آیا گیا ورنہ جالا ختم ہو چکا ہوتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کورونا وائرس کو لے کر ہمارے لکیر کے فقیر اور ہڈی چاٹ الیکٹرانک میڈیا نے ایک بار پھر سے عوام کو ڈرا ڈرا کر نفسیاتی مریض بنانا شروع کر دیا ہے۔ ہر چینل پر اور ہر دوسرے اینکر کی زبان پر یہی واویلا مچا ہوا ہے کہ اب ہمارا کچھ نہیں ہو گا۔ اب اس تباہی کو کوئی نہیں روک سکتا۔ ہم لٹ گئے برباد ہو گئے۔ کورونا وائرس میں نئی علامات آ گئی ہیں، بچے بوڑھے سب ہی اس میں مبتلا ہو سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔

میڈیا کی طرف سے ڈر اور خوف پھیلانے کا یہ کاروبار اپنے عروج پر ہے۔ ظاہری بات ہے کہ میڈیا کو جو ہڈی ڈالی گئی ہے، اس نے اس ہڈی کی قیمت بھی تو چکانی ہے نا۔ لہذا میڈیا کی کسی بات پر بھی کان مت دھریں۔ جتنی احتیاط کر سکتے ہیں، کریں۔ اس سے زیادہ آپ کچھ کر بھی نہیں سکتے۔ ہاں خوف میں مبتلا ہو کر خود کو پاگل کر کے مارنا چاہتے ہیں تو پھر وہ آپ کی مرضی۔۔!!!

یہ یاد رکھیں کہ انسانی صحت کا اتنا نقصان یہ وائرس نہیں کر رہا ہے جتنا ذہنی صحت کا نقصان میڈیا خوف پھیلا کر کر رہا ہے۔ لہذا ان وبائی ایام میں الیکٹرانک میڈیا سے کوسوں دور رہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس وائرس سے پاکستان میں بے احتیاطی اور اختلاط کی وجہ سے (خدانخواستہ) جتنا بھی جانی نقصان ہو گا، اس کی ذمہ داری عوام اور حکومت دونوں پر عائد ہو گی۔ شروع ایام میں پاکستانی بارڈرز کو ہر طرف سے بند کر کے اور دو سے تین ہفتوں کا سخت ترین کرفیو لگا کر اس وباء سے 90 فیصد تک جان چھڑائی جا سکتی تھی۔ مگر حکومت و متعلقہ اداروں کی طرف سے ایسا کیا نہیں گیا، کیوں؟ ہم نہیں جانتے۔ یہ بات سب کے سامنے ہے کہ حکومت کی طرف سے کس طرح بیرون ممالک سے کورونا وائرس کے مرضوں کو پاکستان میں داخل کر کے پورے ملک میں پھیلایا گیا۔

دو ماہ کے نیم لاک ڈاؤن سے سوائے معیشت تباہ ہونے اور غریب کے بھوکا مرنے سے کچھ بھی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ چھپ چھپا کر عوام اور حکومت کی طرف سے ہٹ دھرمی اختیار کرتے ہوئے وائرس پھیلانے کے لئے سب ہی کچھ ہوتا رہا۔ اگر حکومت واقعی ملک و عوام کی بھلائی کے حق میں ہوتی تو اس وقت حالات اس سے کافی مختلف ہونے تھے۔

اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ڈاکٹرز کی طرف سے بھی کچھ اچھا سننے کو نہیں مل رہا ہے۔ ڈاکٹرز حضرات ڈاکٹریت سے ڈاکہ زنی کی طرف سفر کر چکے ہیں۔ پے در پے بہت سے معتبر لوگوں کی طرف سے سینکڑوں ایسے واقعات منظر عام پر آ چکے ہیں کہ جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں رہا کہ ڈاکٹرز حضرات انسانیت سے بھی نیچے گر چکے ہیں۔ کسی بھی عام بیماری میں مبتلا مریض پر ڈاکٹرز کی طرف سے کورونا کا ٹھپہ لگانا لوگوں کو ہسپتالوں سے دور کر چکا ہے۔ لوگوں کا ڈاکٹرز سے بھروسہ اٹھ چکا ہے۔ کورونا کے نام پر اہل اسلام کی میتوں کی بے حرمتی کرنے میں بھی ڈاکٹر طبقہ پیش پیش ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لہذا عوام الناس سے انسانیت کے ناطے گزارش ہے کہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق مکمل احتیاط برتیں۔ اپنا اور اپنے پیاروں کا خیال رکھیں۔ رب العالمین پر مکمل یقین رکھیں۔ اس بات پر بھی مکمل یقین کر لیں کہ یہ حکومت اور نام نہاد مسیحا (ڈاکٹرز) آپ کے رکھوالے اور ہمدرد نہیں ہیں۔ آپ نے اپنا، اپنے پیاروں کا اور ہمارے اس پیارے ملک کا خود خیال رکھنا ہے۔

خدارا! اپنے شعور کو بیدار کیجیے، اسلامی اقدار و شعائر کی تعظیم کیجیے۔ الیکٹرانک میڈیا کے جھوٹوں اور افواہوں کو پاؤں کی ٹھوکر پر رکھتے ہوئے انسانیت کو عام کیجیے۔

جہاں تک ممکن ہو احتیاط برتیں اور ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات کو اپنے ایمان و یقین میں شامل کر لیجیے کہ
“اللہ ہمارے ساتھ ہے”

Advertisements
julia rana solicitors london

اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین!

Facebook Comments

محمد یاسر لاہوری
محمد یاسر لاہوری صاحب لاہور شہر سے تعلق رکھتے ہیں۔ دینی و دنیاوی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بہت عرصہ سے ٹیچنگ کے شعبہ سے منسلک ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سائنس، فلکیات، معاشرتی بگاڑ کا سبب بننے والے حقائق اور اسلام پر آرٹیکلز لکھتے رہتے ہیں۔ جس میں سے فلکیات اور معاشرے کی عکاسی کرنا ان کا بہترین کام ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply