انور مقصود اور وسی بابا۔۔عامر کاکازئی

انور مقصود صاحب کو 88 کے آخر میں حوالداروں کےایک فنکشن میں بطور ہوسٹ بلایا گیا۔ ایک جوان نے سوال کیا کہ “پاکستان میں جمہوریت بےنظیر لائی یا اسلم بیگ یا غلام اسحاق؟

انہوں نے جواب دیا : پاکستان میں جمہوریت “سی ون 30 ” لایا تھا۔ پہلے تو کسی کو سمجھ نہ آئی کہ حوالداروں کو سمجھ ذرا دیر سے  آتی ہے، مگر کچھ دیر بعد سمجھ آئی کہ پورا ہال قہقہوں سے گونج اُٹھا  تھا۔ کچھ تلملا  اُٹھے مگر مزاح کے سامنے کسی کی نہیں چلتی۔

اسی طرح آج کے انور مقصود وسی بابا ہیں۔ انور مقصود صاحب نستعلیق بول چال اور شائستہ انداز میں طنز و مزاح لکھتے  ہیں  جبکہ وسی بابا کھلے ڈ لے عوامی سٹائل میں لکھتے ہیں کہ اس ملک کی ہر بولی بولنے والے کسان سے لے کر افسر تک کو سمجھ آ جاتی ہے۔ ان کی ایک اضافی خوبی یہ ہے کہ طنز کا اس انداز سے وار کرتے ہیں کہ انصافی اور چوکیدار سواۓ تلملانے اور کھسیانی ہنسی کے کچھ نہیں کر سکتا۔

آئیے پڑھتے ہیں، ان کی ایک حقیقت پر مبنی پھلجھڑی، کچھ تخفیف و اضافہ کے ساتھ۔

بواسیر اور گائناکالوجسٹ (وسی بابا)

اللہ دتہ میرے بہت اپنے اور قریبی عزیز ہیں ۔ ان کو بواسیر ہوئی تو ڈاکٹروں سے مشورہ لیا اور آپریشن کروا لیا ۔ کم خراب ہو گیا ، مزید علاج کے لیے پشاور آ گئے ۔

ڈاکٹر نے کہا کہ آپریشن دوبارہ کرنا ہو گا یہ پتہ نہیں کس قندھاری یمنی یا بنوسی سے کھلوا بیٹھا ہے ، اللہ دتہ نے بتایا کہ بہت سیارنی گائناکالوجسٹ ہے اس سے کروایا ہے آپریشن ۔

پشاوری ڈاکٹر نے اللہ دتہ پر حملہ ہی کر دینا تھا بڑی مشکل سے بچایا ، ڈاکٹر کو غیرت دلائی کہ  مہمان ہیں مریض ہیں ، حوصلہ کر ۔ ڈاکٹر کہتا ہے اس   سے پوچھو کہ گائناکالوجسٹ سے بواسیر کا آپریشن کیوں کروایا تو   اللہ دتہ نے فرمایا کہ اک تو سوئنڑی تھی دوسری سستی بھی تھی ۔

تیسرا میں نے سوچا کہ گائنی اور بواسیر کول کول ہی ہوتے  ہیں یعنی اک دوجے کے آس پاس یا قریب قریب والا معاملہ ہے ، تو جو ایک کا ماہر وہ دوسرے کا بھی ماہر ہو گا۔

حوالدار بشیر اس اللہ دتہ کے بڑے یا چھوٹے بھائی ہیں ۔ انہوں نے بھی ایسا ہی حساب لگایا تھا کہ ایک تو سوہنڑا ہے، دوسرا مانڑا سا ہے، دب کے رہے گا، تیسرا جو گیارہ بندوں کی ٹیم چلا سکتا ، وہ بائیس کروڑ کا ملک بھی چلا سکتا ہے۔

اب بائیس کروڑ گوپیاں اپنی بواسیر کا علاج کروانے بیٹھی ہیں اور حوالدار بشیر نہ جنرل سرجن ہے نہ گائنا کالوجسٹ ۔وہ بیچارہ کمپونڈر بھی نہیں ہے، بلکہ ہسپتال کے باہر کھڑا ایک  ماڑہ  سا چوکیدار ہے۔ 

آگ لگی جب گھر میں

تو اس نے پوچھا کہ بچا کیا ہے

ہم نے کہا کہ “ہم”

تو اس نے پوچھا “پھر جلا کیا ہے؟ “

اس ملک کو ہر کچھ عرصے بعد اسی طرح برباد کیا جاتا ہے، جلایا جاتا ہے۔ چوکیداروں سے پوچھیں کہ اتنی بربادی کے بعد بچا کیا ؟ بولتے ہیں کہ شکر ادا کرو کہ اس ملک کا واحد مضبوط ادارہ بچ گیا ہے۔

یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے

ہوئے تم دوست جس کے ،دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

پاکستان ایک ایسے گھن چکر میں گرفتار ہے کہ جونہی ملک سنبھلتا ہے اور پھر کوئی چوکیدار اُٹھ کر بواسیر کا آپریشن گائناکالوجسٹ سے کروا بیٹھتا ہے۔  ایک ملک بنایا گیا تھا مگر بدقسمتی سے  اس ملک کو ایک ظالم ریاست میں بدل دیا گیا۔ یا شاید ارادہ ہی ایک بازیچہ ظالم ریاست بنانے کا تھا۔

جو ان معصوم آنکھوں نے دیے تھے

Advertisements
julia rana solicitors

وہ دھوکے آج تک میں کھا رہا ہوں!

Facebook Comments

عامر کاکازئی
پشاور پختونخواہ سے تعلق ۔ پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق اور تحقیق کی بنیاد پر متنازعہ موضوعات پر تحاریر لکھنی پسند ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply