تخصص علومیہ کا تاریخی ارتقاء۔۔منصور ندیم

اعلیٰ تعلیم کی درجہ بندی یا کسی فرد کو ایک علمی میدان میں خاص مضمون Subject میں تخصص Specialization کا تصور معلوم تاریخ میں ہمیں ارسطو تک لے جاتا ہے، یونان Greece کے شہر قدیم ایتھنز Athens سے افلاطون نے (قبل مسیح ۳۸۵) ارسطو کی معیت میں چند شاگردوں کے ساتھ ایک نجی طور پر درس گاہ قائم کی تھی، جس کا نام “اکیڈمیا” رکھا گیا ،جو بعد ازاں اکیڈمی Acedamy کہلائی، یہیں سے عالمی سطح پر مقبول انسانی روایات میں اس خیال کو توسیع اور استحکام ملا جو بعد میں اعلیٰ تعلیم کے اداروں کو اکیڈمی کہنے کے رواج میں ڈھل گیا۔

یہ فلسفے کی تعلیمی درس گاہ تھی، مگر یہ اصطلاح وقت کے ساتھ مختلف تعریفوں کے ساتھ پھیلتی چلی گئی، اسی اکیڈمی سے فلسفہ پہلے ایتھنز کی سرحدوں سے باہر اور پھر دنیا میں مشرق و جنوب کی جانب پھیلتا چلا گیا، مزے کی بات ہے کہ فلسفے کا مفہوم ہمارے ہاں جو رائج ہے اس عہد میں یونانیوں میں ایسے مقبول نہ تھا بلکہ اس کا مطلب “حکمت” جو علم کے جوہر اور سائنس کے علوم کی بھی نمائندگی کرتا تھا۔ اسی طرح اکیڈمی جو دراصل فلسفے کو پڑھانے کے لئے شروع کی گئی مگر بعد ازاں یہ تعلمی ادارے کے نام سے جانا گیا، بلکہ آج پوری دنیا میں اسی نام سے جانا جاتا ہے۔

اس میں شک نہیں کہ یونانیوں کے نظریات نے تمام زمانوں میں انسانی ذہن کی تعمیر و تشریح میں اہم کردار ادا کیا، یہاں تک کہ یہ عربوں تک بھی پہنچ گیا، اہل عرب میں اس کا عربی اور بعض اوقات سریانی زبان کے ذریعے ترجمہ کرنے کے بعد، مسلمان مفکروں کو یقین تھا کہ دنیا میں یہ علوم انہیں مدد کریں گے۔ ایمان کے استحکام میں وہ اس بات پر بھی قائل تھے کہ ہر علم میں کوئی قیمتی شے ہوتی ہے، ایک ایسا نظریہ جسے دریافت کرنا اس وقت کی عیسائیت کے لیے مشکل تھا، اور وہاں پادری اور حکمراانوں کے غلبے کی وجہ سے انہیں اس کی شناخت میں بہت تاخیر رہی، لیکن اسی تصور کو عربوں نے اکیڈمی سے نہیں بلکہ یونان کے فلسفے سے لیا تھا کیونکہ سائنس کے مذہب کے ساتھ قریبی تعلق پر ان کے اعتقاد نے انہیں مساجد میں تعلیمی حلقے قائم کرنے پر اکسایا، اور انہوں نے سب سے پہلے قرآن اور الہیات کے علوم کی تعلیم دینا شروع کی۔

اس کی سب سے بڑی مثال تیونس میں زیتونہ مسجد، ہے، جہاں کے معلمین نے جلد ہی باقاعدہ علوم کی سطح پر قانونی، لسانی اور فلسفیانہ علوم کو پڑھانا شروع کر دیا، یہاں تک کہ سنہء ۷۳۷ عیسوی میں یہ جامعہ “University” میں تبدیل ہوچکی تھی۔ اس طرح “الزیتونہ” تاریخ کی قدیم ترین یونیورسٹی بن گئی۔ ویسے ہمارے ہاں مراکش کی یونیورسٹی جامعہ القرویین (فیض شہر) کی سنہء ۸۵۹ میں تعمیر کی نسبت سے پہلی بڑی جامعہ مانی جاتی ہے، بلکہ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی اسے دنیا کی سب سے قدیم جاری رہنے والی یونیورسٹی مانا جاتا ہے، جسے ایک خاتون فاطمہ الفہیری نے تعمیر کروایا تھا، جسے اس لحاظ سے پہلا علمی سائنسی ادارہ سمجھا جاتا ہے کہ جہاں ابتداء سے ہی ایک مکتب طے کردیا گیا تھا، جس کو آج ہم جامعہ ہی سمجھتے ہیں، مگر فاطمہ الفہیری نے یہاں پہلے مسجد ہی تعمیر کروائی تھی، جامعہ القرویین Mosque and University Karaouiyn نے اس عہد میں سائنس میں مہارت پیدا کی اور اعلیٰ تعلیمی ڈگریاں عطا کیں، جن میں طب، فلکیات، فکر، اسلام، منطق، فلسفہ، ریاضی اور دیگر پڑھائے جاتے تھے۔ اس عہد میں اندلس کے ممتاز اسکالرز جامعہ القروبین جا رہے تھے تاکہ وہاں کے علماسے استفادہ کریں اور ان کے ہاتھوں اعلیٰ ڈگریاں حاصل کریں۔ اس کے بعد دنیا کے سب سے بڑے مذہبی اور سائنسی ادارے کا کردار آیا اور تاریخ کی تیسری قدیم ترین جامعہ الزیتونہ اور القرویین کے بعد بننے والی جامعتہ الازہر ہے، اسے بھی پہلی بار “قاہرہ مسجد” کے نام سے ہی جانا جاتا تھا۔ سنہء ۹۷۰ میں میں یہاں سے بھی القرویین یونیورسٹی کی طرح مذہب، زبان، مطالعہ، منطق، فلکیات اور ریاضی کے علوم کی تعلیم شروع ہوگئی۔

ویسے عرب میں علوم کی تعلیم کا یہ سب سلسلہ یورپ میں یونیورسٹیوں کے قیام سے پہلے ہوا تھا۔ سنہء ۱۰۸۸ میں اٹلی کے شہر بولوگنا میں پہلی یورپی یونیورسٹی University of Bologna قائم ہوئی, یہ یعرپ کی سب سے قدیم یونیورسٹی ہے جو آج بھی جاری ہے، جسے طلباء کی ایک منظم جماعت نے قائم کیا تھا، یہ دنیا کی پہلی یونیورسٹی تھی، جہاں پر یونیورسٹی کی تعریف ’’اساتذہ اور اسکالرز کی جماعت‘‘ کے طور پر مرتب کی گئی، یہیں سے اس ادارے کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ طلباء کی تعلیمی درجے کی ڈگری کا پہلی بار اجراء ہوا تھا، یہ universitas اسی بنیاد پر اصطلاحی لفظ وجود میں آیا۔ اس کے بعد یورپ میں فرانس کی پیرس یونیورسٹی، جسے سوربون Sorbonne University Paris کے نام سے جانا جاتا ہے، جس کی ابتداء سنہء ۱۲۵۷ میں Robert de Sorbon نے ابتدائی طور پر Sorbonne College کے طور سے آغاز کیا تھا بعد ازاں جس کا سفر آج دنیا کی بہترین اور معروف ریسرچ یونیورسٹی میں گنا جاتا ہے۔

اسی سلسلے کا پھیلاؤ پھر انگلینڈ England میں آکسفورڈ Oxford University اور کیمبرج Cambridge University، اور دیگر یونیورسٹیوں کو سمجھا جاتا ہے جو آج کے وقت میں دنیا کے سب سے اہم سائنسی اور جدید تعلیمی اداروں میں سے ایک ہیں، اب اگر یہ کہا جائے کہ ان کی جڑیں پہلی تین عرب یونیورسٹیوں سے متصل ہیں تو کیا مبالغہ آرائی ہوگی؟ یہ مبالغہ آرائی ضرور ہوتی اگر مسلمانوں کی ان ابتدائی جامعات کے علوم صرف دینی مضامین تک محدود ہوتے کیونکہ عرب صرف یونانی ورثے کو منتقل کرنے والے اور اس کی تشریح کرنے والے نہیں تھے بلکہ انہوں نے یورپین طلباء کا خیر مقدم بھی کیا تھا، عرب درسگاہوں اور یونیورسٹیوں سے مستفید ہونے کے لیے اس عہد کے یورپین طلباء آتے تھے، اس زمانے میں ترجمے کی تحریک کے آغاز کے علاوہ تمام علوم بالخصوص طب، فلسفہ، کیمیا اور ریاضی کی یورپ منتقلی میں جغرافیائی محل وقوع بھی بہت اہمیت کا حامل تھا۔ پھر صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا، جس کے وجہ سے اس وقت مشرق کی حیثیت بڑھی، اسی عہد میں یورپین ممالک میں مشرق یا مشرق کے افکار میں دلچسپی لینے والے مستشرقین Orientalist کی ایک بڑی تعداد سامنے آئی تھی، اسپین Spain کا شہر تولیڈو Toledo, اور مارسیلی Marcelo, فرانس France کے شہر ٹولوز Toulouse, اور مونٹپیلیئر Montpellier, اٹلی Italy میں سسلی Sicily شہرخصوصاً عرب کتب و علوم کے تراجم کے مراکز رہے، اور اسی نسبت سے یہاں پر عرب ثقافت کی یورپ کے ان حصوں میں منتقلی نے بھی ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔

عرب علوم کی ترقی نے یورپین تہذیب کے ظہور پر واضح اثر ڈالا تھا، جسے جرمن مصنفہ سگریڈ ہنکے Sigrid Hunke جن کا علمی میدان Research racial physhology تھا، انہوں نے اپنی کتاب “The Sun of Arabia Shines on the West” (دی سن آف دی عرب شائنز آن دی ویسٹ) میں اس بات کی تصدیق کی ہے (جس کا اصل عنوان تھا “The Sun of God Shines on the West”) یہ کہتے ہوئے کہ
“یورپ کے سائنسدانوں میں ایک بھی سائنسدان ایسا نہیں تھا سوائے اس کے کہ اس نے اپنے پاس موجود خلا کو پُر کرنے اور اپنے سائنسی دور کی سطح کو بلند کرنے کے لیے عرب کے خزانوں کی طرف ہاتھ بڑھایا ہو۔ درحقیقت عرب فکر کے پاس یورپ تک پہنچنے کے ذرائع کی کمی نہیں تھی، جہاں نشاۃ ثانیہ کے پہلے آثار پیدا ہوئے، جن کا اندازہ عام طور پر ابن رشد کے ہم عصر ممتاز یہودی مفکر موسی بن میمون جنہیں “میمونائیڈز” Maimonides کے نام سے جانا جاتا ہے، اس کے ذریعے یورپی فلسفے میں ابن رشد کے نظریات کی آمد سے ہوتا ہے۔ موسی بن میمون نے اپنے فلسفے کو تقریباً مکمل طور پر اپنایا، اور ایک طرف انسانی ذہن کی وحدت اور دوسری طرف آسمانی پیغامات کی وحدت کا مظاہرہ کرنے کا ایک منفرد نمونہ تھا۔” (حوالہ : “The Sun of Arabia Shines on the West”).

یورپ میں نشاۃ ثانیہ کے ظہور میں عرب یونیورسٹیوں کے تعاون کے بعد، تمام دنیا میں یونیورسٹی کو بطور ایک ایسے ادارے کے خیال نے ایک ترقی یافتہ مرحلے میں دیکھا، جو اپنے آپ میں ایک خودمختار تعلیمی ادارے تھے، جن کی اپنی عمارتیں ہوتی تھیں، جن میں موجود تخصصات Specialization کے مطابق تقسیم ہوتی تھیں، اور ہر ایک شعبے کی اپنی فیکلٹی ہوتی تھی جس میں وہ مکمل شعبہ اس کے زیر انتظام ہوتے تھے، یورپ میں یہ سب کچھ سائنس کی آزادی اور ان پر عائد سخت مذہبی سنسرشپ سے ان کی آزادی کی وکالت کرنے کی وجوہات میں اس وقت کے نئے سیکولر نظریات سب سے اہم سبب میں سے ایک تھا۔ یورپ میں اس تعلیمی آزادی نے سائنس اور علم کے طریقوں کی ترقی کے لیے مناسب مٹی فراہم کی ہے، اور ان کی درجہ بندیوں Bachelor’s, Masters & Ph.d (بیچلر، ماسٹرز، اور ڈاکٹریٹ) کے ساتھ دیگر تعلیمی ڈگریوں کی اسناد کی درجہ بندیاں کی۔ ان اداروں کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنے تجربے کی بنیاد پر اپنے انفراسٹرکچر اور تعلیمی طریقہ کار بنائیں، تاکہ وہ اپنے اعلیٰ درجے کو برقرار رکھیں اور سائنسی طبقے میں اپنا مقام برقرار رکھیں جس کے تقاضے ہمہ وقت آج تک متواتر ترقی کر رہے ہیں، خاص طور پر جدید دور میں، اور بالخصوص مواصلاتی انقلاب کے بعد تو اب ایسا ہے کہ کسی ملک میں کوئی ایسا تعلیمی ادارہ نہ ہو ہے جو اس کی تہذیب کا معیار کو ڈیفائن نہ کرے، تاہم آج ملکوں کی معیشت و معاش میں اس ملک کے تعلیمی ادارے اور ان کی سائنس ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانا ہی اس ملک کی صلاحیت کا بنیادی معیار بن گیا ہے۔

انہی یورپین یونیورسٹیز کے تعلیمی و علمی تجربات اور نئے خیالات نے سیکھنے کے عمل اور معاشی طور پر مارکیٹ کی پیداوار کے درمیانی فاصلے کو کم کرنے کی کوشش کی، کئی تعلیمی و آرٹ یا ٹیکنالوجی کے میدان کے طلباء کے لئے باوجود تعلمی سند کی رسائی کے بعد عملی طور پر پیداواری مارکیٹ کا حصہ بننے میں مسائل رھے، جسے ایک اچھوتے خیال کے ذریعے سب سے پہلے جرمنی کی کمپنی “سیمنز” Siemens نے دوران تعلیم نوجوانوں کے لیے ان کی تعلیمی سطح سے قطع نظر اپنے دروازے کھولے، اور یورپ کی یونیورسٹیوں کے ساتھ شراکت داریاں قائم کی۔ مثال کے طور پر، برطانیہ میں نیو کیسل یونیورسٹی Newcastle University سمیت دنیا بھر میں آج موجود کئی ممالک خصوصا خلیجی ممالک کی یونیورسٹیز بھی تعلیم اور محدود عملی مشق پر مبنی روایتی تعلیم سے بالاتر ہو کر سیمنز کمپنی Siemens کی جانب سے قائم کردہ شراکت داری سے طلباء کو عملی تجربہ حاصل کرنے کے لیے انجینئرز، ماہرین اور تجارتی حکام کے ساتھ شانہ بشانہ کام کرنے کی اجازت دیتی ہیں۔ یہ ایک ایسا الگ آئیڈیا تھا جو آج طلباء کو عملی زندگی کے شعبوں میں سیکھنے کا موقع فراہم کرنے کے علاوہ، بھی عملا آج یونیورسٹیوں نے معاشیات، تعلیم اور سیاست سمیت مختلف شعبوں میں پریکٹس کے ذریعے تعلیم کے ساتھ ساتھ عملی زندگی کے کسی بھی شعبے میں ساتھ ساتھ مہارت حاصل کرلیتا ہے۔ علاوہ ازیں کچھ شعبہ جات تعلیم کے بعد کچھ دورانیہ عملا اس میدان میں لازمی کسی ادارے میں گزارنے کو بھی تعلیم کا ہی حصہ مانتے ہیں، جیسے انٹرن شپ یا ہاؤس جاب وغیرہ ۔ آج دنیا کی تمام نامور کمپنیاں وہ چاہے جس شعبے میں کام کررہی ہوں، زمانہ تعلیم سے ہی طالبعلموں کو یونیورسٹیز سے Joint venture کے زریعے بزنس کے ہر شعبے میں مواقع دیتی ہیں۔

بدقسمتی سے آج یہ تجربات ہمارے مسلمان ملکوں میں انہیں یورپین یونیورسٹیز کے طریقہ کار کو فالو تو کیا جاتا ہے مگر معیار میں خواہ عرب ممالک ہوں یا دوسرے مسلمان ممالک کی یونیورسٹیاں، یہ سب انتہائی نچلے درجے کے مقابلے میں بھی بہت دور نظر آتے ہیں، ہمارے ممالک خاص طور پر برصغیر کے طلباء کے لیے ہماری مارکیٹ تقریباً کسی بھی عملی تجربے سے خالی ہیں اور وہ طالب علم جو برسوں کی تربیت کے بعد فارغ التحصیل ہوتے ہیں, اپنے آپ کو محنت کی منڈی میں صرف مشکلات میں ہی پاتا ہے۔ ہمارے لیے یہ بات اب تقریباً ناقابلِ فہم ہے کہ ہمارے مسلمان تاریخِ انسانی کی پہلی بااثر یونیورسٹیوں کا گہوارہ تھے، یہ سب فکری علوم کی آبیاری کے مراکز تھے جنہوں نے یورپی نشاۃ ثانیہ کی بنیاد رکھی، تاہم اب ایسا لگتا ہے جیسے وقت ہمارے لیے پیچھے کی طرف چلا گیا ہے۔ اس کی ایک الم ناک حقیقت فرانس کی Sorbonne University سے محقق پروفیسر ایلین ٹالون Professor Eilien Toline نے کہا کہ
“عربوں کا المیہ اس حقیقت میں مضمر ہے کہ ان کا قرون وسطیٰ ان کی نشاۃ ثانیہ اور روشن خیالی کے بعد آیا۔

حقیقت یہی ہے خصوصا عربوں میں تو اب پھر بھی قدرے شعور کی آگاہی نظر آرہی ہے، جتنی تیزی سے وہاں پر تبدیلی آرہی ہے، بدقسمتی سے پاکستان میں تنزلی اتنی ہی تیزی سے بڑھ رہی ہے، برصغیر نے ماسوائے پہاڑوں سے آنے والے جنگجووں کو اپنا ہیرو تسلیم کیا، اور ہمارے برصغیر سے آج پاکستان میں منتقل ہونے والے انگریز کے اسکول و کالج کے بعد ہمارے برصغیر کے دو شاہکار دیوبند و بریلوی مدارس کی ایک ایسا سلسلہ ہے، جہاں سے آج تک کوئی بھی بین الاقوامی سطح تک تو کیا مقامی سطح کی کوئی علمی یا انسانی خدمت دنیا میں کسی طور نظر نہیں اتی، ماسوائے حفاظ و قراء کی تعداد یا پھر سند یافتہ پچھلی صدیوں کے فقہ حضرات کی فقہی تعبیرات کے مباحث، یہاں کے اساتذہ عملی زندگی میں صرف یہی مخصوص تعلیم کے پھیلاؤ کے علاوہ دنیا میں کسی شعبے میں نہیں ہیں۔ برطانوی راج سے آزادی تک ہمارے پاس نہری نظام، ریلوے، ڈاکخانہ، عدالتی نظام حتی کہ اسکول و کالج کے نظام میں انگریزوں کا ہی حصہ رہا ان سے لی جانی والی آزادی کے بعد انگریزوں کے تعلیمی اداروں کے علاوہ سنہء ۱۹۶۰ کے بعد پاکستان میں ضرور کچھ کالج و یونیورسٹیز بنی تھیں، مگر اس کے بعد کچھ پرائیویٹ سطح کے کالج و یونیورسٹیز کے علاوہ کچھ نہیں، یہاں سے تعلیم یافتہ افراد ایک ایسا خام مال ہیں، جو بیرون ممالک جاکر افرادی قوت تو مہیا کرسکتے ہیں، یا پھر مقامی سطح پر صرف منڈی کی ضرورت پورا کرتے ہیں، مگر حقیقتا ترقی، نئے خیالات، سائنس و ٹیکنالوجی، خصوصا طب، ارضیات، فلکیات، ارٹ، فنون، ہنر مندی، زراعت جیسے کسی شعبے میں ہم دنیا میں کہیں بھی کسی بھی فورم پر بیٹھنے لائق نہیں۔ اگر ہمیں ایسا لگتا ہے تو کوئی مجھے بتاسکتا ہے کہ کیا پچھلی دو دہائیوں میں ہم دنیا میں ہونے والے کتنے بین اقوامی تعلیمی فورمز ، سیمینار، آرٹیفیشل انٹیلیجنس ، فلسفے سائنس و ٹیکنالوجی سے لے کر طب کی جدید ریسرچ کے کسی فورم پر نمائندگی کے لئے بلائے گئے ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہاں ہم یہ ضرور بتاسکتے ہیں کہ یونیورسٹیز میں جو گریجویشن کیپس (ٹوپیاں) پہننے کی جو روایت ہے وہ اندلس کی تعلیم گاہوں میں پہلی بار پہنائی گئی تھیں۔ (ایک روایت ہی ہے) ہمارے پاس ماضی کے تفاخر کے سوا اپنے حال کو جانچنے اور اپنی حالت کی وجوہات تک جاننے کا ادراک نہیں ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply