وگرنا دشمنِ ایماں کا رقص جاری ہے ۔۔ گل بخشالوی

وگرنا دشمنِ ایماں کا رقص جاری ہے ۔۔ گل بخشالوی/ وزیراعظم عمران خان کا ٹرمپ کارڈ بھی ”بھٹو“ ہی نکلا۔ ان کی تقریر نے 1977ءکے راجہ بازار کی یاد تازہ کر دی جب بھٹو نے اسی طرح کا ایک خط لہرایا تھا۔ مگر شاید پاکستان تحریک انصاف کے کارکن کسی اورسرپرائز کے منتظر تھے اور تقریر نے خود ان کو سرپرائز دے ڈالا۔ آخر عمران نے بھٹو کا ذکر کیوں کیا۔ شاید اس کے بغیر سیاست نامکمل ہے، اگر   بین الاقوامی سازش کی  بات کی جائے تو  مثال آ پ ا سی کی دیتے ہیں جو مثال بنا۔ سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو بندنہ کرنے کی صورت میں ذوالفقار علی بھٹو کو ’نشانِ عبرت‘ بنانے کی دھمکی دی تھی۔ لیکن بھٹو نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان مرحوم کو بلا کر کہا پروگرام جتنی جلدی ہو مکمل کرو۔ اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ ملک میں مارشل لا لگنے کے بعد بھی اس کی مقبولیت میں کمی نہیں آ ئی ، بھٹو ایک عدالتی قتل کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔آ خری وقتوں میں اسے بھی NROکی آ فر ہوئی تھی مگر ا ُس نے یہ کہہ کر مسترد کر دی کہ ”میں تاریخ کے ہاتھوں مرنا نہیں چاہتا“۔ آ ج 43سال بعد بھی سیاسی تقریر اس کے ذکر کے بغیر نامکمل ہے۔

بھٹو کو سزا امریکی معاہدوں سیٹو اور سینٹوسے نکلنے، غیر جانبدار تحریک کا حصہ بننے، تیسری دنیا اور اسلامک بلاک بنانے اور امریکی مخالفت کے باوجود اسلامی سربراہی  کانفرنس منعقد کرنے اور سب سے بڑھ کر ایٹمی پروگرام شروع کرنے پر ملی۔ اس وقت کی اسلامی اور عرب دنیا اور آ ج کے سربراہوں میں زمین آ سمان کا فرق ہے۔ اس وقت یہ بلاک روس کے ہونے کی وجہ سے بہت مضبوط تھا اب صورتحال مختلف ہے، اب تو اسرائیل سے دوستی بڑھ رہی ہے۔

بھٹو سے عمران تک ،ان پچاس برسوں میں جمہوریت پر بار بار حملے ہوئے۔ دو طویل دورانیے کے مارشل لا لگے ،دو مقبول لیڈر عدالتی قتل اور دہشت گردوں کا شکار بنے اور جمہوریت کی بساط کبھی آمروں کی جانب سے آ ئین میں ترمیم کی بھینٹ چڑھتی رہی ،تو کہیں سیاست کو اتنا کرپٹ کر دیا گیا کہ لوگ جمہوریت سے ہی دور ہوتے چلے گئے۔

بدقسمتی سے سیاسی جماعتوں نے بھی سبق نہ سیکھا، بلکہ مخالفوں کی حکومتیں گرانے میں ان جماعتوں نے سہولت کار کا کردار ادا کیا۔ مجھے لگتا نہیں کہ عدم اعتماد کی اس تحریک کی منظوری یا ناکامی سے سیاسی استحکام آ ئے گا۔ ماضی میں قبل از وقت حکومتوں کے خاتمے سے عدم استحکام بڑھا ہے، کم نہیں ہوا۔ ابھی تو جمہوریت کے تسلسل کے 15 سال مکمل ہونے میں ایک سال باقی تھا مگر جب سیاست   ایوانوں سے میدانوں اور پھر بازاروں میں آ جائے تو پھر سیاسی زبان بھی بازاری ہو جاتی ہے۔ لوگوں کو امربا لمعروف کا درس دیتے وقت اگر تربیت بھی دی گئی ہوتی تو سیاست میں مثبت رجحان سامنے آ تا۔ دوسری طرف بلاول بھٹو ابھی جوان ہیں خون بھی گرم ہو گا مگر جو زبان وہ اب استعمال کر رہے ہیں وہ نہ ان کو فائدہ دے گی نہ ہی ان کے کارکنوں کو۔

پاکستان کی سیاست اور سیاسی جماعتیں مرہون منت رہتی ہیں، جماعتیں بنانے، توڑنے اور اس سب کے لئے احتساب کے استعمال نے صرف اور صرف کرپشن کو فروغ دیا ہے۔ ہماری سیاست میں کچھ غیر ملکی دوستوں کا کردار ہے۔ 2000ء کا NRO اور رہائی ہو یا 2007ء کا NRO ہو کوئی بھی خود اپنے بنائے ہوئے اصول پر کھڑا نہ رہ سکا۔اب جب کہ آ خری چند گیندوں کا کھیل باقی ہے ٹیم میں ہی بغاوت ہو جائے تو مشکل تو کپتان کو ہی ہو گی کہ آ خر ایسی ٹیم بنائی کیوں۔ عمران سیاست میں کھیلوں کی دنیا سے آ ئے البتہ بھٹو کا سفر بحیثیت وکیل  سکندر مرزا کے زمانے میں ایوان صدر کی لائبریری سے شروع ہوا، 35 سال کی عمر میں اور پھر جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار پر صرف 21سال رہا، جس میں عروج بھی دیکھا اور زوال بھی، مگر دار نے اسے مر کر بھی امر کر دیا۔ آ خر کوئی تو وجہ ہو گی کہ آج کا وزیر اعظم بھی اس کا مداح نکلا۔سیاسی شعور رکھنے والوں کے لئے آ ج بھی یہ سوال حل طلب ہے آ خر کب یہ جماعتیں اور قائدین ” احترام جمہوریت“ پر آ ئیں گی۔ شاید آ ج میثاق جمہوریت کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔(ممتاز کالم نکار مظہر برلاس کے کالم سے اقتباس)

Advertisements
julia rana solicitors

انا کے عرش پہ بیٹھے ہیں وہ منافق جو
غرض کی بھوک میں بکتے ہیں دام لیتے ہیں
یزید ِوقت کے جومغربی حواری ہیں
وہ اپنی قوم کی تعظیم سوچتے کب ہیں
جو اپنی ذات کی شاہی میں ہوچکے اندھے
نظر میں اُن کی ہے توقیر کب اداروں کی
کہاں وہ سوچتے ہیں ہیربے نظیروں کو
شبِ سیاہ میں جگنو بدن بھی ہیںگھائل
اے میری قوم کے زندہ ضمیر پروانو!
نظامِ وقت میں جینا بھی ہو گیا مشکل
ابھی بھی وقت ہے سوچو وطن کی آزادی
وگرنا دشمنِ ایماں کا رقص جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply