داستانِ عزم و وفا پاکستان ۔۔۔ کیا کھویا کیا پایا/گل ساج

جس کے خاکی رنگ کی خاطر کئی بدن خشک ہوئے
جس کے ٹھنڈے سائے کی قیمت ایک عہد کے خواب ہوئے
اپنی مٹی اپنی چھاؤں کتنی پیاری ہے ۔۔۔۔
ہم سے پوچھو!

وطن سے محبت فطرت انسانی میں شامل ہے
آقا صل اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے
حب الوطن من الْإِيمَان
”وطن سے محبت جزو ایمان ہے۔“
دیار وطن کے درودیوار بھی پیارے لگتے ہیں
بخاری شریف میں ہے
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ، فَنَظَرَ إِلَى جُدُرَاتِ المَدِينَةِ، أَوْضَعَ رَاحِلَتَهُ وَإِنْ كَانَ عَلَى دَابَّةٍ حَرَّكَهَا مِنْ حُبِّهَا
“بلاشبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سفر سے واپس آتے اور مدینہ کی دیواروں پر نظر پڑتی تو مدینہ کی محبت کی وجہ سے سواری (اونٹنی) کو تیز کرتے اور اگر کسی چوپائے پر سوار ہوتے تو اسے بھی دوڑاتے”

اور اس سے بڑھ کر اعزاز اس سے بڑھ کر خوش قسمتی کیا ہوگی کہ جان مادرِ وطن پہ نچھاور ہو جائے شہید کے خون کا ایک ایک قطرہ انمول ہے اسکی قیمت کوئی نہیں چکا سکتا
فقیر کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ  اس پاک وطن کی پاک دھرتی میں ہمارے پرکھوں کا لہو بھی شامل ہے اس لئے اس وطن کی محبت میرے جسد میں خون بن کے دوڑتی ہے
میرے نانا نے ہندوستان کےگاؤں(سنگویا ضلع کرنال) سے ہجرت کی پارٹیشن کے وقت شہروں کی نسبت گاؤں میں رہنے والوں کوہجرت میں بہت مشکلات پیش آئیں کئی بار سکھ بلوائیوں کے نرغے میں آئے تمام راہ موت زندگی کی آنکھ مچولی جاری رہی مگر کسی نہ کسی طرح جان بچا کے کرنال ریفیوجی کیمپ میں پہنچے اس دوران ایک ماموں جو اسوقت آٹھ سال کے تھے شہید ہوئے دو بچے کیمپوں میں بیماری پھیلنے سے فوت ہوگئے ۔۔

یوں دکھوں صدموں سے بوجھل ننھیال خاندان کرنال سے بذریعہ ٹرین عازمِ پاکستان ہوا مگر ابھی مصائب کے بادل نہ چھَٹے تھے ٹرین کچھوے کی سی چال سے چل رہی تھی(یہ پری پلان تھا ڈرائیور ہندو تھا) ڈرائیور نے ویران جگہ پہ ٹرین کی خرابی کا بہانہ بنا کے ٹرین روک لی۔وہاں بلوائیوں نے آلیا خونریز لڑائی ہوئی کئی مسلمان شہید ہوئےان میں میرےناناکےبھائی(کزن ) بھی شہید ہوئے ڈرائیور ٹرین کو اسی جگہ چھوڑ کے فرار ہوگیا۔

اب ٹرین میں اعلان کیا گیا کہ کوئی مسلمان مہاجر جو ٹرین چلانا جانتا ہو بزرگ بتاتے ہیں ایک نحیف و نزار شخص ضُعف سے جسکے ہاتھوں میں رعشہ تھا مگر اس نے ٹرین ایسے جذبے سے چلائی کہ مہاجرین بہت جلد انڈین سرحد عبور کر آئے آگ اور خون کا دریا عبور کرکے ملتان بعد ازاں لیہ آباد ہوئے۔۔۔اُدھر میرے ددھیال خاندان نے مشرقی پنجاب موجودہ ہریانہ کے قصبے گھرونڈہ تحصیل پانی پت ضلع کرنال سے ہجرت کی۔

میرے دادا گھرونڈا شہر کے تین پڑھے لکھے مسلمانوں میں شمار ہوتے تھے اسوقت کے میٹرک پاس تھے محکمہ انہار میں بطور گیج ریڈر ملازم تھے گھرونڈہ شہر پٹوار پنا محلے میں ڈیڑھ کنال پہ مشتمل وسیع و عریض گھر تھا میرے پڑ دادا مسجد میں امامت بھی کراتے تھے کرنال سے متصل ضلع سہارنپور کے کسی گاوں میں اچھی خاصی زرعی زمین تھی
بے سروسامانی میں ہجرت کے باوجود دادا جان ایک پاؤ کے لگ بھگ سونا اور 20 کلو چاندی بچا لائے تھے  یعنی دادا آسودہ حال اور شہر میں رہائش ہونے کی وجہ سے سولائزڈ فیملی تھی۔

دادا ابو نے تحریکِ پاکستان میں حصہ بھی لیا انہیں دورانِ تحریکِ قیامِ پاکستان مسلم لیگ کے جلسے میں براہِ راست قائداعظم کی جھلک دیکھنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا
ہمارے ایک عزیز پاکستان کے پہلے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کے مینجر تھے (ہجرت کے دوران ہندوستان میں ہی انہیں دھوکے سے زہر دے کے شہید کر دیا گیا) ہمارے عزیزوں میں ایک بینکر تھے اسوقت کی بینکنگ کی اعلی تعلیم (آج کے چارٹرڈ اکاونٹنٹ) کے برابر حاصل کی تھی پاکستان میں دو سال بینک میں سٹیٹ بنک میں ملازمت کی بعدازاں دوبئی شفٹ ہوگئے۔

پارٹیشن کے وقت ہمارے دادا کے خاندان کے لوگ گھرونڈہ سے کرنال کیمپ میں اکٹھے ہوئے وہاں سے ٹرین میں براہ راست واہ کینٹ اترے یہانتک کوئی مشکلات پیش نہ آئیں تقریبا ایک ماہ واہ کینٹ کے ریفیوجیز کیمپ میں رہے اسکے بعد پنڈی کے قریب ایک گاوں سرکی میں ایک بڑی حویلی میں منتقل کر دئیے گئے۔پاکستان بننے کے بعد مشرقی پنجاب کے علاوہ کسی ریاست صوبے کے کلیم قبول نہ کئے گئے اس بنیاد پہ ہمیں کلیم میں زمین الاٹ نہ ہو سکی مگر سب خاندانوں کو دو دو ایکڑ زمین بمعہ دو بیل اور کچھ رقم کاشت کے لئیےدی گئی بزرگ بتاتے ہیں کہ پارٹیشن کے وقت انڈیا ہجرت کرجانے والوں کے چھوڑے ہوئے گھر پختہ اورنہایت صاف ستھرے بہترین حالت میں تھے۔

سرکی گاؤں میں جو حویلی نما گھر ہمیں الاٹ ہوا وہ بہترین حالت اور ہرقسم کی سہولیات سے آراستہ تھا۔پاکستان آمد کے وقت ہندووں کے چھوڑے ہوئے کھیت پکی فصلوں سے اٹے پڑے تھے۔میرے دادا کو جو دو ایکڑ زمیں الاٹ ہوئی اس سے گندم کی فصل بھی دادا نے اٹھائی گھر کا ایک کمرہ گندم سے بھر گیا تھا حکومت نے مہاجرین کودو دو سو روپے دئیے کہ دو بیل اور خریدیں زمین کاشت کریں اور خاندان کی کفالت کریں۔یہ اتنی بری صورتحال نہ تھی مگر بزرگوں کے بقول وہ ہندوستان میں اس سے بہتر حالت میں تھے۔ہندوستان سے پاکستان ہجرت تمام ہوئی مگر ابھی خانہ بدوشوں کو سکون میسر نہ ہوا۔ہمارے کچھ عزیز ہندوستان سے مظفرگڑھ کے ایک قصبے پہنچے انہوں نے ہمارے دادا کو مجبور کیا کہ ادھر ہی آ جائیں یہاں اشیاء خودونوش نہایت سستی ہیں بیرنگ پہ بیرنگ لکھ کے پنڈی چھوڑنے پہ مجبور کر دیا۔

یوں دادا جان بھرا پُرا گھراور ہرے بھرے کھیت کھلیان چھوڑ کر چھوٹے سے قصبے نما شہر میں پدھارے یہاں پہنچے تو حالات ابتر تھے مکانوں پہ قبضہ ہو چکا تھا کچھ گندم اور سونا بیچ کے گھر خریدا گیا یہاں بازار میں دو دکانیں بھی لیں پارٹنرشپ میں کپڑے کا کاروبار شروع کیا خود دادا جان رشتے ناطوں کے مقدمات میں الجھ گئے  پارٹنر نے نقصان دکھا کے دوکان پہ قبضہ کر لیا بہت سا پیسہ مقدموں میں برباد ہو گیا آسودہ حالی سےکُسمپرسی کا دور شروع ہوا میری دادی بہت سلیقہ شعار خاتون تھیں انہوں نے کچھ نہ کچھ پیسہ پس انداز کئیے رکھا جو بچوں کی پڑھائی میں کام آیا۔دادا میں بچوں کو افسر بنانے کاجذبہ تھا۔

میرے والد تین بھائی تھےوالد سب میں بڑے تھے اسی وجہ سے وہ ذیادہ پڑھ لکھ نہ پائے میرے دو چچاوں نے البتہ بہت محنت کی والدین نے غربت کے باوجود انکی تعلیم کے اخراجات محنت مزدوری کر کے پورے کئے بچوں نے بھی انکی محنت کو رائیگاں نہ جانے دیا میرے دوچچا شہر کے پہلے انجینئرز کہلائے غریب گھرانوں کے لئیے رول ماڈل بنے۔۔ہندوستان میں میرے دادا اریگیشن (محکمہ انہار) میں ملازم تھے عجیب اتفاق ہے پاکستان میں انکی اولاد میں سے میرے والد اور ایک چچا اریگیشن (محکمہ انہار )میں ملازم ہوئے چچا ایکسئین ہیں(ایس ای ہونے والے ہیں) دلچسپ بات انکا ایک پوتا (فقیر بقلم خود)بھی محکمہ انہار میں ہے یوں تیسری نسل ایک ہی ڈیپارٹمنٹ میں سرو کر رہی میرےدوسراچچا اٹامک انرجی کمیشن میں ڈی سی ای (ڈپٹی چیف انجینئر ) ہیں مزیدبراں دادا کی تینوں اولادوں میں سے سب نوجوان مختلف محکموں میں ہیں ڈاکٹرز انجینئرز ٹیچرز اور آرمی میں پاکستان کی تعمیرو ترقی میں بھرپور کردار ادا کر رہے پاکستان نےہمیں بہت کچھ دیا اس دھرتی کا جتنا شکر کیا جائے کم ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

6 ستمبر   کی مناسبت سے مجھے اپنے شہید نانا شہید ماموں کی یاد تازہ کرنے کا خیال آ یا یوں بھی آرمی سے ہمارے خاندان کا رشتہ پرانا اورمضبوط ہےپاکستان بننے سے پہلے بھی ہمارے کئی عزیز رائل آرمی میں رہےابھی بھی پاکستان آرمی میں میرے کئی عزیز تین چار کمیشنڈ آفیسر لیفٹینٹ دو میجر ایک کرنل رینک میں بریگیڈئیر سہیل ملیر کینٹ کراچی میں پوسٹنگ ہے۔میرے قریبی عزیز صوبیدار میجر اور میرا بھائی پاکستان ائیر فورس میں اسسٹنٹ وارنٹ آفیسر ہے۔اس لئے وطن سے پاک آرمی سے یک گونہ عقیدت و محبت قدرتی امر ہے۔مجھے پاک آرمی سے پیار ہے

Facebook Comments

گل ساج
محمد ساجد قلمی نام "گل ساج" مظفر گڑھ جنوبی پنجاب ۔۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply