کون سی “عورت” خطرناک ہے؟ /تحریر -ابصار فاطمہ

ہم سمجھتے ہیں عورت ہمیشہ ہر صورت حال میں کمزور، بے وقوف، مظلوم اور کردار کی کچی ہوتی ہے۔ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ عورت چالاک ہوتی ہے اور اچھے خاصے مرد کو ادائیں دکھا کر بے وقوف بنا سکتی ہے اور اسے جنسی جرائم میں مبتلا کرسکتی ہے اور مظلوم بن جاتی ہے۔

ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ عورت مکمل طور پہ بچوں کی تربیت کی ضامن ہوتی ہے کیوں کہ اس کی ذمہ داری اور فطرت ہے کہ بچوں کے ساتھ گھر میں رہے گی اور چوں کہ اسے کمانا نہیں ہے صرف گھر پہ رہنا ہے تو وہ یہ کام بخوبی نبھا سکتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ عورت بے ضرر ہوتی ہے۔
دوسری طرف ہم نے مرد کا صنفی کردار بہادر، عقل مند، کمانے کی صلاحیت اور اختیار رکھنے والا لیکن جنسی معاملات میں بے بس سمجھا ہوا ہے۔ ساتھ ہی ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ مرد خطرناک ہوتا ہے بلکہ سارے مرد خطرناک ہوتے ہیں۔
اب یہاں مسئلہ یہ آتا ہے کہ ہم نہ صرف ان صنفی کرداروں کی بنیاد پہ پہلے یہ اصول بناتے ہیں مرد کو فلاں کام نہیں کرنا چاہیے اور عورت کو فلاں نہیں کرنا چاہیے اور پھر اسے کائناتی سچائی سمجھ کے مطمئین ہوجاتے ہیں کہ مرد فلاں کام کر ہی نہیں سکتا کیوں کہ معاشرے نے منع کردیااور عورت فلاں کام کر ہی نہیں سکتی کیونکہ معاشرے نے ایسا کہہ دیا۔
یہ ایسا ہے کہ کسی جانور کے بارے میں خود ہی فیصلہ کر لیا جائے کہ یہ انڈے نہیں دے سکتا اور جب وہ انڈہ دے دے تو ہم نہ صرف حیران ہوجائیں بلکہ پریشان ہوجائیں کہ اس نے معاشرتی اقدار سے رو گردانی کیسے کی۔ یہ سمجھے بغیر کہ اس میں انڈہ دینے کی صلاحیت تھی آپ کو پتا نہیں تھا۔
اسی طرح ایک طبی حوالے سے عورت کی شناخت رکھنے والا انسان اور ایک طبی حوالے سے مرد کی شناخت رکھنے والا انسان دونوں سوائے تولیدی عمل کے باقی سارے وہ کام بھی کر سکتا ہے جو اپ کے معاشرے میں دوسری صنف کے لیے مخصوص ہیں۔
اور چوں کہ اس اصول کی بنیاد پہ عورت مردوں جیسے تمام کام کر سکتی ہے تو وہ جرائم بھی کر سکتی ہے۔ کئی جگہ عورتیں باآسانی جرائم کرکے صاف بچ نکلتی ہیں کیوں کہ وہاں مجرم کو نہیں مرد مجرم کو ڈھونڈا جارہا ہوتا ہے۔
اکثر زمانے سے خوف زدہ والدین بچوں کو مرد قاری یا مرد ٹیوشن ٹیچر کے پاس اکیلا چھوڑنے سے ڈرتے ہیں لیکن عورت کے پاس بے خوف و جھجھک بچوں کو اکیلا چھوڑ دیتے ہیں جب کہ کئی خواتین بھی بچوں کو اپنے جنسی تلذذ کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
یہ بھی سمجھیے کہ ہر طبقے میں مجرمانہ سوچ رکھنے والے لوگ محدود ہوتے ہیں یعنی ایسی مجرمانہ سوچ جس پہ وہ بلا خوف و خطر عمل بھی کر سکتے ہوں۔ اور اس کے پیچھے بھی عوامل ہوتے ہیں۔ اور ان کے طبقے کے مطابق ان کے جرائم بھی مخصوص نوعیت کے ہوں گے۔ یعنی غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے مجرموں کے جرائم متوسط طبقے کے مجرموں سے مختلف ہوں گے، اور متوسط طبقے والوں کے امیروں سے مختلف ہوں گے۔ ان کا معاشرے کو متاثر کرنے کا دائرہ بھی مختلف ہوگا۔
ہر مجرم اپنی مخصوص طبقے میں نسبتاً طاقتور ہوتا ہے یا تو جسمانی اعتبار سے، یا اپنی ذہانت یا چالاکی کی وجہ سے یا اپنی سیاسی یا سماجی حیثیت کی وجہ سے۔ جس کے باعث ہر طبقے میں مرد مجرم زیادہ نظر آتے ہیں۔ لیکن عوامل کو نظر میں رکھتے ہوئے یہ سمجھیے جب خواتین ان خصوصیات کی حامل ہوتی ہیں تو اپنے متعلقہ طبقے میں وہ بھی ان جرائم کی مرتکب ہوسکتی ہیں اور ہوتی ہیں عورت چور، دھوکہ باز، ہراساں کرنے والی، زبردستی جنسی تشدد کرنے والی، قتل کرنے والی، کارپوریٹ کرائم کرنے والی اور ممالک میں جنگ کروانے والی کچھ بھی ہوسکتی ہے۔ لیکن اس کا عورت ہونا اس کی وجہ نہیں بلکہ اس کے پاس اپنے طبقے کے متعلق مخصوص طاقت ہونا اس کی وجہ ہے۔ جب مجرمانہ ذہنیت اور طاقت یکجا ہوتے ہیں تو ایک مجرم بنتا ہے اس کی جنس کچھ بھی ہوسکتی ہے۔
جس طرح اس موضوع سے متعلق پچھلے مضمون ” کون سا مرد خطرناک ہے” میں یہ بتایا تھا کہ ہر مرد خطرناک یا جنسی مجرم نہیں ہوتا کچھ مخصوص رویے ہوتے ہیں جن پہ نظر رکھیے اور ہر مرد سے نہ ڈریں۔ اسی طرح ہر عورت کو بے وقوف یا بے ضرر سمجھنا بھی درست نہیں۔ خواتین بھی کچھ مخصوص رویے رکھتی ہیں جن کو نظر میں رکھ کر آپ جان سکتے ہیں کہ ان سے فاصلہ رکھنا ہے۔ یہ بھی سمجھیے کہ ہر عورت چالاک اور جنسی حوالے سے کردار کی کمزور نہیں ہوتی۔
عورتوں کے ہاتھوں نقصان اٹھانے کی ایک بہت بڑی وجہ یہ غلط فہمی ہے کہ عورت آپ کے استعمال کی چیز ہے، کمزور اور بے وقوف ہے۔ یہ وہی سوچ ہے کہ فلاں جانور انڈہ نہیں دے سکتا۔ ایسے میں جب کوئی عورت دھوکا دینے کے لیے مرد تک رسائی کرتی ہے تو اسے بنیادی طور پہ کچھ خاص نہیں کرنا پڑتا اور مرد اپنی جنسی گھٹن کی وجہ سے کوئی وارننگ سائنز نہیں دیکھتا اور با آسانی دھوکے میں آجاتا ہے۔ یعنی وہ یہی رویہ مرد کی طرف سے دیکھے تو محتاط ہوجائے گا لیکن عورت پہ شک نہیں کرتا صرف اس آس میں کہ شاید اس سے دوستی محبت یا جنسی تعلق کی کوئی صورت نکل آئے۔ اسی لیے جو مرد حضرات اس جنسی گھٹن کا شکار نہ ہوں ان کا ایسے دھوکے میں آنا مشکل ہوتا ہے۔ دوسرا طریقہ ہوتا ہے عورت کا خود کو مظلوم بنا کے پیش کرنا یہاں مجرمانہ/منفی ذہنیت رکھنے والی خواتین اس نکتے سے بخوبی واقف ہوتی ہیں کہ مرد جذبات کو درست انداز میں سمجھنے میں زیادہ اچھا نہیں کیوں کہ اس کی تربیت ایسی ہوئی ہے۔ وہ بہت سطحی ڈرامائی رویہ کو بھی سچ مان لیتا ہے۔ حد یہ کہ یہ حربہ کئی گھریلو قسم کی خواتین پہ بھی کارگر ہوتا ہے اسی لیے ایسی خواتین مظلوم بن کر یا تو گھروں میں مخبری کے لیے جاگھستی ہیں یا خود ہی قیمتی سامان سمیٹ کے چلتی بنتی ہیں۔
ہمارے یہاں لوگ سب سے زیادہ تعلقات کی طرف سے شک و شبہے کا شکار ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ خواتین جو نفسیاتی حوالے سے کسی مسئلے کا شکار ہوں اور جھوٹے تعلقات بنانے کی عادی ہوں وہ چاہے دوستی ہو محبت ہو یا پیشہ ورانہ تعلق وہ سب سے پہلے دوسرے کو یہ یقین دلاتی ہیں کہ آپ سے زیادہ اہم میرے لیے کوئی ہے ہی نہیں۔ جو بات آپ کو بتارہی ہوں وہ تو کبھی کسی کو نہیں بتائی وغیرہ وغیرہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ جمعہ جمعہ آٹھ دن کے ساتھ میں آپ اس کے لیے اتنے اہم کیوں اور کیسے ہوگئے۔ ایسے دعوے پہ یقین کرنے سے پہلے بہت محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔ ہاں لیکن کسی پرانی دوست یا ساتھی کا یہ دعویٰ اتنا ہی اہم اور قیمتی ہوتا ہے جتنا کسی نئی کا مشکوک۔ یہاں ایک نکتہ سمجھیے کہ ایک جذباتی ذہانت رکھنے والا فرد وہ مرد ہو یا عورت جب نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتا ہے خاص طور سے پرسنیلٹی ڈس اورڈر کا تو وہ زیادہ خطرناک ہوجاتا ہے کیوں کہ وہ لوگوں کے جذبات سمجھ کے ان کو اپنی انداز میں مینیوپولیٹ کر لیتا ہے۔ لیکن جذباتی طور پہ صحت مند شخص کبھی ایسا نہیں کرے گا۔
کچھ مخصوص قسم کے نفسیاتی مسائل یا پرسنیلٹی ڈس اورڈر کا شکار خواتین دوست یا شوہر یا کولیگ حد یہ کہ بہن بھائیوں اولاد اور ماں باپ کو بھی جذباتی طعنوں سے مغلوب رکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہ ثابت کرتی ہیں کہ وہ غلط ہو ہی نہیں سکتیں اس لیے دوسرا جو کر رہا ہے غلط ہے۔ وہ اپنے ہر منفی خاص طور سے جذباتی تشدد کے زمرے میں آتے عمل کو اپنی محبت اور نیک نیتی قرار دیتی ہیں۔
اب آجاتے ہیں بہت طاقتور پوزیشن پہ پائی جانے والی خواتین جو یا تو بہت سا سرمایہ رکھتی ہیں، ادارے کی اہم سیٹ پہ ہیں یا سیاسی طاقت رکھتی ہیں۔ ہوسکتا ہے یہ تناسب مردوں جیسا نہ ہو کہ اگر ہر سو میں سے پانچ مرد اپنی طاقت کا غلط فائدہ اٹھاتے ہیں تو عورتوں میں یہ تناسب ہر سو میں سے ایک عورت ہوسکتا ہے۔ لیکن ہوگا ضرور یہ امکان سو فیصد ختم نہیں ہوجاتا کہ عورت کے ہاتھ میں طاقت ہوگی تو وہ دوسرے کی تذلیل نہیں کرے گی یا انہیں اپنی عہدے کا خوف دلا کر غلط باتیں ماننے پہ مجبور نہیں کرے گی وہ جنسی ہراسانی بھی ہوسکتی ہے اور وہ کوئی مالی غبن بھی ہوسکتا ہے۔ ایسے منفی رویوں کی حامل مینیجرز یا مالکین عورتیں، مردوں کی طرح ہی سب سے پہلے کام کا بوجھ غیر منطقی حد تک بڑھا دیتی ہیں پھر آپ کو مستقل اس بات کا احساس دلاتی رہتی ہیں کہ آپ پیشہ ورانہ بد دیانتی کے مرتکب ہورہے ہیں ہمارے یہاں اس کا آسان طریقہ یہ طعنہ دینا بھی ہے کہ آپ تو رزق حلال کما ہی نہیں رہے۔ اور پھر آپ کو مستقل خوف میں رکھ کر اپنے مرضی کے کام کروائے جاتے ہیں جو کہ ملازمین کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتے ہیں۔
یعنی سارا نکتہ یہ ہے کہ منفی رویوں کا تعلق اکثر کسی جنس یا صنف سے نہیں ہوتا اس کا تعلق مخصوص ماحول میں مخصوص شخصیت اپنانے سے ہوتا ہے جو کسی مرد کی بھی ہوسکتی ہے اور عورت کی بھی۔ اس لیے عورتیں بھی خطرناک ہوسکتی ہیں۔ اور اگر آپ سیکھ جائیں کہ منفی رویے کون سے ہیں تو آپ خود کو منفی رویوں سے محفوظ رکھ سکتے/سکتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پچھلے متعلقہ مضمون کا لنک

کون سا “مرد” خطرناک ہے؟۔۔ابصار فاطمہ

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply