راغبؔ کا خط، والدین اور بزرگوں کے نام۔۔۔۔محمد حسین آزاد

انسان دنیا میں اکیلا آتا ہے اور اکیلا ہی چلا جاتا ہے لیکن درمیان میں مختلف لوگوں سے ناتے جوڑنا زندگی کے تقاضے ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو جوڑے جوڑے پیدا کیا ہے۔ انسانوں کو بھی جوڑے میں  پیدا کیا ہے ، مرد اور عورت۔ کوئی بھی مخلوق نر ومادہ اپنے  جوڑی دار کے بغیر اپنی  نسل بر قرار نہیں رکھ سکتا ۔انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے ،اسے عقل و شعور سے نوازا ہے  ۔ انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے ایسی خصوصیا ت دی  ہیں جو   کسی بھی مخلوق میں نہیں پائی جاتی۔
انسان بھی مختلف مذاہب ، مسالک اور فرقوں میں بٹ چکا  ہے ۔لیکن  ہمیں  اللہ تعالیٰ نے مسلما ن پیدا کیا  ہے  ، مسلمان اللہ تعالیٰ کے  بنائے  گئے  قانون پر عمل پیرا ہوتے ہیں جس قانون کو انگریزی میں God made law کہتے ہے اور غیر مسلم اپنے لئے خود قانون بناتے ہیں ۔ جنہیں Man made law کہتے ہیں  ۔ چونکہ ہم نے مسلمان ہونے کا دعویٰ کیا ہوا ہے ، اس لئے ہم اللہ تعالیٰ کی بنائے  ہوئے  اسلامی قانون کے ساتھ اپنے اعمال کا موازنہ کریں گے۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک سارے مسلمان برابر ہیں   ،اسلام میں سارے مسلمانوں کے لئے ایک جیسا قانون ہے ،انسان آزاد پیدا ہوا ہے اور اسلام میں اس کی آزادی کا  احترام کیا  جاتا  ہے ،اس کی  رائے کا  احترام کیا  جاتا  ہے، چاہے مرد ہو یا عورت، امیر ہو یا غریب سب کو آزادی سے جینے کا حق حاصل ہے۔ اب اپنے  موضوع کی طرف آتے ہیں ، اسلام نے انسانوں ( مرد وعورت ) کو اپنی مرضی سے شادی کرنے کا حق بھی دیا ہوا ہے ،لیکن ہم اپنی پرانی روایات کو برقرار رکھنے کے لیے کسی بھی قانون کا خیال نہیں رکھتے چاہے وہ اسلامی ہو یا غیر اسلامی، فائدے میں ہو یا نقصان میں ، ہمیں اپنی روایات کا خیال رکھنا ہے !لیکن آفسوس کی بات یہ ہے کہ ان فرسودہ روایات کی وجہ سے ہماری  نئی نسل اسلامی نظریات کے بارے میں کیا تاثرات رکھے گی ؟
اس ضمن میں ہمارے ہاں لڑکیا ں زیادہ بے بس نظر آرہی ہیں اور لڑکو ں کی رائے کا بھی کوئی خیال نہیں رکھا جا تا،یہاں پر اکثر بچپن میں یا ماں کے  پیٹ میں بھی بچوں کے رشتے طے ہو جاتے  ہیں ، جو بعد میں اکثر دشمنی میں بدل جاتی ہے ۔ کسی لڑکے کا بچپن میں رشتہ طے ہو جاتاہے ، جب وہ بڑا ہوجاتا ہے تو وہ اس رشتے سے انکا ر کرتا ہے جس کے باعث دونوں خاندانوں کے درمیان شدید اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں جو اکثر عداوت تک پہنچ جاتے  ہیں ، اسی کیس میں بھی لڑکی کو طعنے سہنے پڑتے ہیں ۔ جب کوئی لڑکی اپنے  بچپن کے  نکاح سے انکار کرتی ہے (جس کی اسلام نے اسے اجازت دی  ہے) تو وہ اکثر خاندان کی عزت و وقار کی خا طر قتل ہو جاتی ہے اور ان کے قاتلوں کو ہم قاتل نہیں ، غیرت مند سمجھتے ہیں !
غیر مسلم بھی اپنے  قوانین میں اسلام سے استفادہ کر رہے ہیں، کیونکہ اسلا م ایک مکمل مذہب ہے ، زندگی کے ہر موڑ پر ہم اس سے رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں ۔ لیکن ہمیں اپنی پرانی روایات زیادہ بہتر دکھائی دیتی  ہیں جن پر ہم ڈٹے رہتے ہیں ۔ ہمارے بزرگ زیادہ تر اَن پڑھ اور جاہل ہوتے ہیں لیکن  افسوس کی بات یہ ہے کہ معاشرے میں زیادہ تر عالم اور سمجھنے والے لوگ بھی ان پرانی روایات پر عمل پیرا ہوتے ہیں ، با اختیار لوگ بھی یہ فرسودہ روایات دوسرے لوگوں پر نافذ کرنے کی کو شش کرتے ہیں جن کے بہت برے نتائج نکلتے ہیں لیکن ہمیں دکھائی نہیں دے رہے ہیں ۔ یہ مضمون لکھنے پرایک لڑکے نے مجھے مجبور کیا جس کا نام لکھنے کی مجھے اجازت نہیں ، راغبؔ اس کا تخلص ہے ۔ چند ہفتے پہلے راغب ؔ نے مجھے ایک خط بھیجا جس کو میں اس مضمون کا حسن بنانا چاہتا ہوں ، آداب و تسلیمات کے بعد اس نے لکھا ہے ،’’ اس وقت میں سات سال کا تھا جب میری منگنی ہوئی ،شاید میرے والدین میری بھلائی کے لئے اپنی خوہش سے میرا گھر بسانا چاہتے تھے ۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ  مجھے ایک اور لڑکی سے عشق ہوا  اور جنون کی حد تک پہنچ گیا، میں  اسے اپنانے کی کوشش کرتالیکن یہ حق تو مجھ سے برسوں پہلے چھین لیا تھا جب میں نا سمجھ تھا ۔ خاندان اور والدین کی عزت و وقار کی خاطر میں خاموش رہ گیا ، اور دل پر پتھر رکھ کر اظہار کئے بغیر اُ س لڑکی کی شادی کا تما شہ دیکھ رہا تھا ۔ میرا حال دیوانے  جیسا ہو گیاتھا ، یہ میرے لئے ایک حادثے سے کم نہ تھا اور اس حادثے نے میری زندگی ، میری تعلیم اور میرے مستقبل پر بہت برا اثر ڈالا ، خدا سے موت کی  التجا کر رہا تھا۔آج بھی زندگی کے زندان میں تڑپتے ہوئے جی رہا ہوں ۔ سارے والدین سے میری درخواست ہے کہ خدا کے لیے اپنے بچوں کے مستقبل کو برباد مت کیا کرو،پہلے اپنے بچوں کو بڑھنے دو اور پھر پڑھنے دو ، پھر ان کی خواہش اور مرضی سے ان کے گھر بسانے دو ۔ جوان ہونے سے پہلے بچوں سے ان کی خواہشات کا حق چھین لینا ان پر ایک بڑا ظلم ہے جس کی کھلی مخالفت کرنی  چاہیے ‘‘۔
شادی سنتِ نبویؐ ہے، یہ دو انسانوں مرد اور عورت کے درمیان ایک معاہدہ ہو تا ہے جو دونوں کی مرضی سے طے ہو جا تا ہے لیکن یہاں پر ایسا نہیں ہوتا ۔ یہا ں زیادہ تر لوگ ان باتوں کو اتنی اہمیت نہیں دیتا ہے اور ان کے  مذہب میں بچوں کی شادی  میں ان کی مرضی معلوم کرنا گنا ہِ کبیرہ ہے ۔
راغبؔ صاحب کی بات پر اپنی تحریر کا اکتفا کرتا ہوں جس نے مجھے خط بھیجا تھا کہ سارے والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو زندگی کے زندان میں مت تڑپاؤ، ان پر ظلم مت کیا کرو،انہیں آزادی سے جینے دو!!!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply