• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • قربانی اور سنت ابراہیمی کا صحیح تصور۔۔ملک گوہر اقبال خان رما خیل

قربانی اور سنت ابراہیمی کا صحیح تصور۔۔ملک گوہر اقبال خان رما خیل

ایک دن سیدنا ابرھیم اپنے بیٹے سے مخاطب ہوئے کہ”اے میرے فرزند! میں خواب دیکھتا ہوں کہ تجھے ذبح کر رہا ہوں، سو غور کرو اور بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے؟ بیٹا آدابِ فرزندی بجا لاتے ہوئے گویا ہوا کہ” اے میرے ابا جان رب کائنات نے جو بھی حکم  آپ کو دیا ہے آپ اس کی تعمیل کریں اللّٰہ نے چاہا تو آپ مجھے صابرین میں سے پائیں گے” مشیت ایزدی کے آگے سرِ تسلیم خم کر کے تقرب الٰہی حاصل کرنے کے لیے جب باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹا دیا تو بارگاہِ الٰہی سے ندا آئی کہ” اے ابراھیم تم نے خواب سچ کر دکھایا” تمہاری قربانی قبول ہوئی۔
عزیزانِ من۔ سیدنا ابرھیم کی قربانی روئے زمین کی پہلی قربانی نہیں تھی بلکہ چشمِ فلک ہزاروں قربانیوں کا نظارہ اس سے پہلے کرچکاتھا۔ قرآن کریم ابتداء بشریت کے زمانے میں سیدنا آدم کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کی قربانیوں کا ذکر کرتاہے۔ جب ایک کی قربانی عند اللّٰہ مقبول ہوئی اور دوسرے کی نہیں تو اس نے اپنے ہی بھائی کو قتل کردیا اور یوں تاریخ انسانی کا پہلا قتل قربانی کے معاملے پر ہوا۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کا عبادت ہونا سیدنا آدم کے زمانے سے ہے۔ قربانی کےقبولیت کی شرط پہلے ہی دن سے تقوی پر رکھی گئی ہے جیسا کہ قرآن مجید میں صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ” اللّٰہ کو نہ تو قربانی کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون بلکہ تمہاری تقوی پہنچتی ہیں” یعنی جو شخص پرہیزگار ہو اور اس نے اللّٰہ کے مقرر کردہ تمام حدود کی پاسداری کرکے خالص اللّٰہ کی رضا کے لیے قربانی کی ہو تو اسی کو وہ قبول کرتا ہے۔ اور قبولیت کی نشانی سیدنا آدم سے لیکر سیدنا مسیح ابنِ مریم کے زمانے تک یہ تھی کہ قربانی کرنے کے بعد وقت کے نبی دعا مانگتے تو آسمان سے ایک آگ اترتی اور جس کی قربانی کو کھا جاتی وہ عند اللّٰہ مقبول تصور ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ جو لوگ انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات سے دور تھے وہ بھی اپنے عقیدے کے مطابق اپنے خداؤں اور دیوی دیوتاؤں کو خوش رکھنے کے لیے قربانی کرتے تھے۔ جو ان کے عقیدے میں ان کے مقدر پر تسلط رکھتے تھے۔ مثلاً جنگ میں فتح، ناگہانی مصیبتوں سے بچنے، زمین کی بارآوری کو برقرار رکھنے، بارش برسانے اور حصول اولاد کے لیے خونی قربانی دی جاتی تھی۔ پہلے پہل ” نربلی” یعنی مرد کی قربانی کا رواج تھا۔ پھر گھوڑوں اور بھیڑ بکریوں کی قربانی دی جانے لگی۔ قدیم یونان اور رومہ میں جنگ چھڑنے سے پہلے کسی کنواری لڑکی یا گھوڑے کی قربانی دی جاتی تھی۔ دھرتی کی زرخیزی میں اضافے کے لیے”رامائن میں سیاہ” جبکہ”مہابھارت میں سفید گھوڑے کی قربانی کا ذکر آیا ہے۔ رومہ میں”ڈیانہ دیوی”کے معبد پر گھوڑے جبکہ قدیم ایران میں” متھرا دیوتا”کے لیے سانڈ کی قربانی دی جاتی تھی۔ رومی جرنیل فتح کے بعد”دیوتا مریخ” کے معبد میں مفتوح سپہ سالار کو ذبح کرتے تھے۔ قرطاجنہ میں مصیبت کے دفعے کے لیے”دیوتا مولک” پر ننھے منے بچے آگ کے شعلوں میں پھینک کر قربان کیا کرتے تھے۔ جنوبی ہند کے گونڈ اور ماریا قبائل دھرتی کے زرخیزی کو بڑھانے کے لیے فصلیں بوتے وقت ایک جوان لڑکی کی قربانی اس طرح دیتے کہ لڑکی کو کھمبے سے باندھ دیتے اور قبیلے کے سردار باری باری اس پر خنجروں سے وار کرتے تھے اور اس کا بہتا ہوا خون کھیتوں میں چھڑکتے تھے۔ میکسیکو میں سورج دیوتا”ہوئی پولوکتلی” کی روشنی کو بحال رکھنے کے لیے ہر روز طلوع آفتاب کے وقت قربان گاہ پر جنگی قیدی ذبح کیے جاتے تھے۔ ہندوستان میں کالی دیوی کے سامنے نربلی دینے کا رواج تھا۔ فراعنہ مصر ہر سال دریائے نیل میں بروقت طغیانی لانے کے لیے ایک حسین دوشیزہ کو دلہن بنا کر منجدھار میں ڈبویا کرتے تھے۔ “اموری” مقدس کھمبے پر جو لنگ کی علامت تھا اپنے پہلے بچے کی قربانی دیتے تھے۔ سپارٹا کے بادشاہ”آگا میمنون” نے سمندر کے دیوتا کو خوش کرنے کے لیے اپنی بیٹی” آئفی جینا” کی قربانی دی تھی۔ یہودی سپہ سالار جفنہ نے امونیوں پر فتح پائی تو اس نے خوشی میں اپنی بیٹی قربان کی تھی۔ اور کعبتہ اللہ کے مجاور قریش مکہ اپنے اونٹ یا بکری کے پہلے بچے کو جسے فرع کہتے تھے اپنے بتوں کے سامنے ذبح کرتے تھے۔ اس کے علاوہ نذر پوری کرنے کے لیے اپنے بیٹوں کو ذبح کرنے کا بھی ان میں رواج تھا۔ چناں چہ رسول اللہ کے والد جنابِ عبد اللہ کے ذبیح کہلانے کی وجہ یہ تھی کہ جب عبد المطلب کے بیٹوں کی تعداد پوری دس ہوگئی اور وہ بچاؤ کے لائق ہوگئے۔ تو عبد المطلب نے انہیں اپنی نذر سے آگاہ کیا سب نے بات مان لی۔ عبد المطلب نے قسمت کے تیروں پر سب بیٹوں کے نام لکھے۔ جب ہبل بت کے نگران نے گردش دیکر قرعہ نکالا تو نام عبداللہ کا نکلا۔ عبد المطلب نے عبداللہ کا ہاتھ پکڑا،چھری لی اور ذبح کرنے کعبہ کے پاس لے گئے۔ عبداللہ چوں کہ سب سے زیادہ خوبصورت اور چہیتے تھے اسی لیے قریش، عبداللہ کے ننھیال اور بھائی ابو طالب آڑے آئے۔ عبد المطلب نے کہا پھر میں اپنی نذر کا کیا کروں؟ تو یہ مسلہ حل کرنے سب ایک کاہنہ عورت کے پاس گئے جس نے عبداللہ اور دس اونٹوں کے درمیان قرعہ اندازی کا کہا۔ چناں چہ دس دس اونٹ بڑھانے کے بعد جب تعداد 100 تک پہنچی تب قرعہ اونٹوں کے نام نکلا۔ اسی طرح عبد المطلب نے عبداللہ کے بدلے میں 100 اونٹ ذبح کئے۔
عزیزانِ من۔ تاریخ کے صحیفوں سے یہ واقعات تراش کر آپ کے گوش گزار کرنے سے مقصود یہ ہے کہ قربانی کا تصور ہر قوم اور ہر تہذیب میں تسلسل کے ساتھ چلا آرہا ہے۔ البتہ جن لوگوں کی قربانیاں ظلم اور درندگی سے لبریز تھی اس کی وجہ انبیاء کی تعلیمات سے دوری تھی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب قربانی کا تصور ہر قوم میں رائج رہا ہے تو پھر پروردگارِ عالم نے صرف سیدنا ابرھیم کی قربانی کو کیوں” ذبح عظیم” قرار دے دیا؟ اور کیوں ان کی سنت کو قیامت تک کے لیے معیار بنادیا۔ اور دین اسلام کے ماننے والوں کو بھی اسی سنت ابراھیمی پر عمل کرنے کا پابند بنا کر” الیوم اکملت لکم دینکم”کی مہر لگا دی۔ لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم سنت ابراھیمی کوصحیح طرح سمجھتے ہی نہیں جسے ہمارے لیے معیار بنایا گیا ہے۔ ہم تو صرف جانور کے گلے پر چھُری پھیرنے کو سنت ابراھیمی سمجھتے ہیں۔ درحقیقت سنت ابراھیمی عشق الٰہی کا ایک کامل تصور ہے۔ سنت ابراھیمی اطاعت خداوندی کی عملی تفسیر ہے۔ سنت ابراھیمی ایک عاشق عابد اور معشوق معبود کی سرگزشت ہے اور قربانی اس عشق کی انتہا ہے نہ کہ ابتداء۔ جس کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ سیدنا ابرھیم نے اپنے خالق کو پہچاننے کی جستجو میں ستاروں کو بے نور دیکھ برملا کہا کہ نہیں میرے رب کا نور زائل نہیں ہوسکتا۔ اور اس بڑے سورج کو ڈھلتے دیکھ کر بولے جسے خود فنا ہونا ہے وہ کسی اور کے حیات کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔ اسی کشمکش کی حالت میں خدا نے ابراھیم کوجب حقیقت سے روشناس کرایا تو نوجوان ابراھیم کے جوش ایمانی سے زمینی خداؤں کے سارے بت گر کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ اور اکیلا ابراھیم توحید کا علم بلند کرکے شرک و بت پرستی کے خلاف لڑتا رہا۔ قوم کے ہاتھوں پہنچے ہوئے مصائب اور آتش نمرود کے بھڑکتے ہوئے شعلے ابراھیم کے استقامت میں ذرا سی لغزش نہ لاسکے۔ کبھی معبود کے فرمان پر یہ عابد اپنے وطن سے ہجرت کرتا ہے، تو کبھی معشوق کے رضا کے خاطر یہ عاشق اپنی بیوی اور بچے کو بے آب و گیاہ ریگستان میں اکیلا چھوڑ واپس جاتا ہے۔ اور 100 سال کے عمر میں نبوت کے 40ویں حصے یعنی محض ایک خواب کو معشوق کا حکم جان کر اپنے بڑھاپے کے اکیلے سہارے سیدنا اسماعیل کے گلے پر چھُری پھیرتے ہیں تو بارگاہِ الٰہی سے آواز آتی ہے کہ سلامتی ہو تم پر اے ابراھیم. تم نے خواب سچ کر دکھایا، اب قیامت تک ہونے والی قربانی تیرے اس عظیم قربانی کا فدیہ ہوگا۔
عزیزانِ من۔ سیدنا ابرھیم کی قربانی عشقِ الٰہی کی انتہا تھی۔ لیکن ہمارے مولوی صاحبان پہلے ہی دن ہمیں عشق کے آخری سیڑھی پر قدم رکھنے کو کہتے ہیں نہ کہ پہلے سیڑھی پر۔ سنت ابراھیمی کی پہلی سیڑھی زمین کے باطل خداؤں سے بےزاری ،اور برملا اللّٰہ کی توحید کا چرچا کرنا ہے، اللّٰہ تعالٰی کے مقرر کردہ حدود کی پاسداری کرنا ہے اور اطاعت خداوندی کو بیوی بچوں اور مال و وطن پر مقدم رکھنا ہے۔ اور یہ کہ ہمیں اپنےہر کام کو خدا کے مقرر کیے ہوئے حلال وحرام کے اصولوں پر پرکھنا ہے۔ لیکن آج ہمارا یہ حال ہے کہ ہم جیب میں حرام کی کمائی رکھ کر سیدنا ابرھیم کی قربانی کا فدیہ دینے حلال جانور ڈھونڈتے ہیں۔ ہم میں ایسے لوگ بھی ہیں جو بہن کو وراثت میں حصہ نہیں دیتے اور قربانی کے تین حصے یہ سمجھ کر کرتے ہیں کہ ان میں لوگوں کا حق ہے۔ ہم میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے والدین کے علاج اور دوائیوں تک کی فکر نہیں کرتے لیکن جانور اس لیے ذبح کرتے ہیں کہ ہم سے رب راضی ہو جائے حالاں کہ والد کی رضا میں رب کی رضا ہے۔ اور ماتم تو اس بات پر کرنا چاہیے کہ ہم قربانی کے دن تک بال اور ناخن ثواب سمجھ کر نہیں کاٹتے لیکن رشوت،سود، ذخیرہ اندوزی اور ملاوٹ جیسے تباہی کے کاموں کو گناہ نہیں سمجھتے۔
قصۂ مختصر یہ کہ صرف جانور ذبح کرنے پر نہیں بلکہ پوری سنت ابراھیمی پر عمل کریں کیوں کہ اسی میں تقوی ہے اگر بغیر تقوی کہ قربانی قبول ہوتی تو سیدنا آدم کے دوسرے بیٹے کی بھی قبول ہوجاتی۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply