نام و نصب:
آپ کا نام محمد،آپ کی کنیت ابو عبداللہ آپ کا لقب ناصر حدیث اور نسبت شافعی ہے جو کہ آپ کے جدّاعلیٰ شا فع کی جانب نسبت ہے۔ [1]
امام شافعی ؒ کا نسب مولانا ڈاکٹر محمد عاصم عظمیٰ اپنی کتاب “سیرت امام شافعی ” میں “تاریخِ بغداد “سے نکل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
“محمد بن ادریس بن عباس بن عثمان بن شافع بن سائب بن عبیدہ بن عبدالعزیز بن ہاشم بن مطلب بن عبدالمناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضربن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معدبن عدنان۔” [2]
امام شافعی کا سلسلہ ِ نسب آپﷺ کے نسب سے عبد مناف پر مل جاتا ہے۔[3]
ولادت:
آپؒ کی ولادت کے متعلق مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ کہ آپ کی پیدایش یمن میں ہوئی یاغزہ میں یا عسقلان میں یامدینہ میں۔ان سب میں غالب قول یہ ہے کہ آپ بماقام غزہ میں جو عسقلان (مصر) کاایک قضبہ ہے رجب 150 ھ بمطابق 767ء میں پیداہوئے ۔باپ کا سایہ آپ کی ولادت سے چند روزقبل ہی اٹھ چکا تھا۔[4]
تعلیم و تربیت:
مولانا مولوی نجم الدین صاحب نے اپنی کتاسیرۃ ِ شافعی میں امام شافعیؒ کی ابتدائی تعلیم کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ” جس وقت امام شافعیؒ کی عمر دوبرس کو پہنچی اور انکی مدّت رضاع ختم ہوگئی ۔اس وقت انکی والدہ ان کو عسقلان سے حجاز لے گئیں اور اپنے قبیلے ازدمیں سکونت اختیار کی ۔دس سال کی عمر تک انہوں نے وہیں اپنا ننہال میں نشوونما پائی اور وہیں تحصیل علم شروع کی ۔چونکہ امام صاحب کے ماموں آسودہ حال تھے اس لیے دس سال کی عمر تک انکا زمانہ طالب علمی نہایت بے فکری اور آرام سے بسر ہوا۔گو کسی تاریخ سے اس امر کا ثبوت نہیں ملتا کہ انہوں نے کس عمر میں تحصیل علم شروع کی مگر اتنا یقینی طور پر ثابت ہے کہ انہوں نے سات برس کی عمر میں قرآن مجید اور دس سال کی عمر میں موطاامام مالک حفظ کرلیاتھا۔”[5]
آپ نے انتہائی غربت کے دورمیں آنکھ کھولی لیکن آپ نے اس غربت کو اپنی تعلیم کے بیچ حائل نہیں ہونے دیا ۔آپ نے سات سال کی عمر میں قرآن حفظ کیااور آپکو آپکے اساتذہ نے طلاب کے لیئےبطور نگران رکھ لیا جو کہ مالی عوض کا بدل تھا۔تکمیل ِحفظ کے بعدآپ نےباقائدہ تعلیم کا آغاز کیا ۔آپ نے کم عمری میں ہی مسجد الحرام جانا شروع کیا جہاں اپنےوقت کےبڑے بڑے علما کے دروس ہوا کرتے تھے۔وہاں آپ درس حدیث اور درس فقہ کے لیے کئی علما کی خدمت میں حاضر ہوتے اور فیض حاصل کرتے۔[6]
حفظ ِقرآن کے بعد آپ کو احادیث مبارکہ یاد کرنے سے دلچسپی پیدا ہوئی ۔امام مالک ؒ کی موطا امام مالک ہر جگہ عام ہوچکی تھی آپ نے دس سال کی عمر میں اسے یادکرلیا۔آپ مسجدِ حرام جا کر علما کی محافل میں بیٹھا کرتے اور احادث مسائل یادکیا کرتے چونکہ ابتداء میں کاغذ وقلم نہیں تھا تو ہڈیوں پر لکھ کرمحفوظ کرلیتےاور جب لکھی ہوئی چیزیں کافی تعداد میں ہوجاتیں توایک مٹکےمیں ڈال کرمحفوظ کرلیتےاس طرح آپ کے پاس کئی مٹکے جمع ہوگئے ۔یہ سلسلہ لگ بھگ سات سال کی عمر سے لے کرپندرہ سال کی عمر تک جاری رہا۔اس دوران آپ نےاپنے تمام اساتذہ کا اعتماد حاصل کرلیا ۔بلکہ آپ کے فقہ کے استاذ امام مسلم بن خالد زنجیؒ اس قدر متاثر ہوئےکہ امام شافعیؒ کو صرف پندرہ سال کی عمر میں فتویٰ دینےکی اجازت دے دی گئی ۔[7]
محمد ابو زہرہ نے اپنی کتاب “اثارِ امام شافعیؒ”میں کتاب”آداب ِشافعیؒ” سے امام مسلم بن خالد زنجیؒ کا قول نکل کیا ہے ؛“اے عبداللہ!تم فتویٰ دے سکتے ہو یہ ذمہ داری تمہیں سجتی ہے۔“[8] اسی دوران آپ کو عربی ادب سے دلچسپی پیدا ہوئی اور آپ نے کتاب و سنت کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے صحیح اور فصیح عربی زبان پرعبور حاصل کرنے کے لیے کوششیں شروع کردیں ۔آپ عربی ادب و تاریخ،ثقافت و تہذیب اور شعر اور شاعری سے واقفیت حاصل کرنے کےلیے قبیلہ ہذیل کی ایک شاخ مکہ کے جنوب مشرق کے اطراف میںآباد تھی وہاں جاتے۔یہ سلسلہ تقریباً بیس سال کی عمر تک چلتارہا۔ تحصیل ِ علوم کے ساتھ اس میں بھی دلچسپ رہی۔[9]
علمی سفر:
یہاں اس بات پر اختلاف پایا جاتا ہے کہ آپ ؒ کی عمر قبیلہ ہذیل میں رہنے تک 18 سال تھی یا 20 سال ،لیکن غالب رائے یہی ہے کہ آپؒ 18 برس کے تھے تو قبیلہ ہذیل سے مدینہ میں امام مالکؒ کی خدمت میں حاظر ہوئے۔[10] اما م مسلم بن خالد زنجی کی مجلس میں امام مالک ؒ کا ذکر بار بار ہوا کرتا تھا،اس بنا پر آپ ؒ کو امام مالک ؒ سے سمائے حدیث کا شوق پیدا ہوا۔امام مالک ؒ کی خدمت میں جانے سے پہلے آپ نے دو کام کیے ،پہلا تو یہ کہ پہلے تو آپ نے موطا امام مالک کو زبانی یاد کرلیا دوسرا یہ کہ امیرِ مکہ سے خطوط لکھوائے اور مدینہ پہنچ کر والیِ مدینہ کو پیش کیے ۔[11] کتاب “سیرتِ امام شافعیؒ” میں مصنف نے والیِ مدینہ کا جواب نقل کیا ہے،
یافتی ان مشیتنی من جوف المدینۃ الی ٰمکۃ حافیا راجلا اھون علی من المشی الیٰ باب مالک بن انس
“اے نوجوان !میرا مدینہ سے مکہ تک پیدل جانا زیادہ آسان ہے ،اس کام سے کہ میں مالک بن انس کے دروازے تک جاؤں”[12]
پہلاطویل علمی سفر امام مالکؒ کی مجلس درس میں
البتہ والی مدینہ امام شافعی کے ساتھ امام مالک ؒکی خدمت میں حاضر ہوئے۔کتاب”حیاتِ امام شافعیؒ” میں مصنف لکھتے ہیں؛
“جب امام شافعی ؒ ،امام مالک ؒ سے ملے تو اپنے استاد کی چِٹھی پیش کی ۔امام مالکؒ نے چٹھی پڑھ کر پھینک دی اور غصہ سے فرمایا کہ کیاسرکار دو عالم نبی ﷺ کا یہ علم چھٹیوں کی سفارش پر پڑھنا چاہیے ؟ یہ تو مطلب صادق پر موقف ہے اور طلب صادق ہی اس کی سفارش ہے ۔امام شا فعیؒ نے اپنا شوق اور بے قراری پیش کی تو محبت سے پوچھا تمہارا نام؟ آپ نے جواب دیا ،محمد بن ادریس فرمایا اللہ سے ڈرتے ہو تمہاری بڑی شان ہونے والی ہے۔”[13]
پھر امام مالک ؒ نے کہاٹھیک ہے تم کل آنا اور اپنے ساتھ ایسے آدمی کو لانا جو تمہارے لئے موطا پڑھے ،امام شافعیؒ نے کہا کہ میں خود اس کی قرات کروں گا چنانچہ میں امام صاحب کے حلقہ درس میں شامل ہوکر موطا زبانی پڑھتا تھا اور کتاب میرے ہاتھ میں ہوتی تھی۔ بعض اوقات امام صاحب کی ہیبت سے پڑھنا بند کردیتا تھا تو پڑھنے کی فرمائش کرتے تھے۔ اسی طرح میں نے چند دنوں میں موطا پڑھ لی۔ امام صاحب کی وفات تک مدینہ میں مقیم رہے۔[14]
یمن کا سفراور سرکاری ذمہ داری
امام مالک کی وفات کے بعد آپ مکہ واپس تشریف لے آئے اور یہاں آپ کو فکر معاش دامن گیر ہوئی۔چنانچہ سوچا کہ ا ب کوئی ایسا کام کرنا چاہیے جس سے کھانا پینا میسر ہوسکے اور ضروریات زندگی پوری کی جاسکیں۔ کتاب ” حیاتِ امام شافعی ؒ” میں مصنف لکھتے ہیں؛
“اتفا ق کی بات اسی زمانے میں والی ِ یمن حجاز میں آیا۔بعض قریشیوں نے اس سے شافعیؒ کی سفارش کی چنانچہ وہ انہیں اپنے ساتھ لے گیا۔اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے شافعیؒ کہتے ہیں کہ اس وقت میری والدہ کے پاس اتنے روپے بھی نہیں تھے کہ میں سر وسامان سفر بہم پہنچا سکتا۔آخر بے چاری نے گھر رہ کر کام چلا ۔ جب میں یمن پہنچا تو میں نے باقائدہ کام شروع کردیا اور والی کی طرف سے امور سر انجام دینے لگا ۔شافعی ؒ کے اس عمل نے ان کے مواہب اور اختیارات ،ذکاوت،فراست،علم اور وسعت نظر اور عالی ہمتی کو زیادہ اجاگر کردیا۔”[15]
لیکن آپ نے یہ ذمہ داری زیادہ عرصہ نہیں سنبھالی کیونکہ جب آپ مکہ واپس آئے تو عالم ابن یحییٰ نے آپ کی سر کاری ذمہ داری کو دیکھ کر نا پسندیدگی کا اظہار کیا ۔آپ کے اساتذہ نے آپ کو یہ مشورہ دیا کہ اپنی زندگی علم کے لیے وقف کردو ۔جس پر امام شافعیؒ کو اپنی حقیقی قدر و قیمت کا احساس ہوا اور خود کو دین کے لیے پورے طور پر وقف کرنے کا فیصلہ کیا۔[16]
سفر بغداد
آپ کے لیے بغداد کا سفر ایک معجزہ ہی تھا ۔یہ دور چونکہ عباسیوں کا تھا تو اس دور میں علوی تحریک سراٹھا رہی تھی جس پر عباسیوں نے ان کا سر کچلنے کا فیصلہ کیا۔ہارون الرشید نے حکم دیا کہ ان تمام شر پسندوں کو زنجیر میں جکڑ کر لایا جائے۔والیِ یمن چونکہ ایک ظالم شخص تھا اور امام شافعی حق پسند،آپ کو دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتا تھا ۔ والیِ یمن کو آپ کے خلاف سازش کا موقع مل گیااور آپ کا نام ان سر پسندوں کےساتھ ہارون الرشید کو بتا دیا۔اس طرح امام شافعیؒ کو بے قصور گرفتار کرلیا گیا ۔لیکن جب دربار میں آئے تو بادشاہ آپ کو دیکھ کر بہت متاثر ہوااور آپ کو بڑی شان و شوکت کے ساتھ محل سے رخصت کیا۔امام شافعیؒ کا یہ سفر مجبوری کے کے تحت ہوا لیکن آپ نے اس سفر سے خوب فائدہ اٹھایا اپنے اندر اجتہادی شان پیدا کی ۔علما عراق کی تصنیفات کا بغور مطالعہ کیا ،بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ان کی پوری فقہ کو ازاول تا آخر اپنے ذہن میں محفوظ کرلیا۔ یہاں آپ کی ملا قات امام ابو حنیفہؒ کے مشہور امام محمد ؒ بن الحسن سے ہوئی ۔دوران ِ قیام آپ نے امام محمد بن الحسن سے خوب علمی استفاذہ کیا ۔اس وقت آپ کی عمر تیس سے چونتیس سال تھی۔[17]
اعراق کا دوسرا اہم سفر
کتاب”حیات ِامام شافعی ؒ”میں مصنف کتاب ” الطبقاتالشافعیؒ” سے نکل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ؛
“195ھ میں امام شافعیؒ دوسری مرتبہ بغداد تشریف لائے اس دفعہ آپ کی آمد طالب علم کی حیثیت سے نہ تھی۔ بلکہ اس وقت آپ کا آفتاب شہرت بغداد کے آسمان پر نمودار ہو چکا تھا اور آپ کے مخالف و موافق سب کی زبانیں آپ کے فضل و کمال کے ذکر سے تر تھیں۔امام صاحب اس مرتبہ بغداد دو سال رہے۔اس عرصہ میں ائمہ اور جلیل القدر فقہاء محدثین سے لے کر عام عام طالبانِ علم تک سب پروانوں کی طرح آپ کے گرد جمع رہتے اور آپ کے منبع علم سے سیراب ہوتے اس قیام کے دوران امام شافعیؒ نےقدیم اقوال پر مشتمل اپنی کتاب ‘الحجۃ ‘ تصنیف کی جس کے چاروں رواۃ یعنی امام محمد بن حنبل،ابو ثور،زعفرانی اورکرابیسی رحمۃ اللہ علیہم اجمعین ،امام شافعیؒ کے جلیل القدر شاگرد ہیں۔”[18]
دو سال مصر میں رہنے کے بعدآپ بغدادچلے گئے۔
مصرمیں قیام
کتاب “حیاتِ صحابہ ” میں مصنف کتاب “معجم الادباء”، توالی التاسین” ،اواقح ا لانوار ” سے نکل کرتے ہوئے امام شافعی ؒ آخری سفربیان کرتے ہیں کہ؛
“یاقوت نےامام صاحب کے مصر جا نے کے سبب یہ بیان کیا ہے کہ عباس بن عبد اللہ والی مصرنے ان کے ساتھ رہنے کی درخواست کی تھی۔لیکن صرف یہی ایک سبب نہیں تھابلکہ ان کو مصر جانے کا شوق اس سے بہت پہلے سے تھا جس سے ان کے اشعار بھرے ہوئے ہیں۔درحقیقت سفر مصر اصلی مقصد اپنے مذہب کی ترویج و اشاعت تھا۔حجاز و عراق میں ان کو اس مقصد میں خاطر خواہ کامیابی حاصل ہو چکی تھی ۔اب انہوں نے ایک نئے میدان کی تلاش میں مصر کا رخ کیا۔چنانچہ ربیع کا بیان ہے کہ مجھ سے امام شافعیؒ نے اہل مصر کے بارے میں در یافت کیا تو میں نے عرض کیا وہاں دو مذہب کےلوگ پائے جا تے ہیں۔مالکی اور حنفی اور یہ دونوں اپنے اپنے ائمہ کے قول کے پیروکار ہیں ۔امام شافعی ؒ نے جواب دیا کہ میں انشاء اللہ مصر جاؤں گا اور ان سامنے ایسی چیزپیش کروں گا کہ وہ دونوں مذاہب کوچھوڑ دیں گے۔ربیع کاکہناہے کہ واللہ امامشافعیؒ مصر آئے تو انہوں نے اپنی یہ بات سچ کر دکھائی ۔ اور بقول حضرت عبدالوہاب شعرانی ؒ بہت علماءسے نے اپنے قدیم مذہب سے رجوع کرکے مذہب شافعی قبول کرلیا۔”[19]
علمی خدمات:
مصنف تاریخ ِ امام شافعی ؒ ملا علی قاری کی کتاب مرقات سے اور ابن ذوراق سےاخذ کرتے ہیں کہ:
“امام شافعی کی تصنیفات سے ایک سو تیرہ کتابیں ہیں ۔ابن ذولاق کا قول ہے کہ امام شافعی ک کی تصنیف سے اصول دین میں چودہ جلدیں اور فروع میں سو سے زائد جلدے ہیں ۔شیخ ابن حجر نے امام صاحب کی چند بہت مشہور کے نام بھی بتلائے ہیں یہ ہیں۔ رسالہ قدیمیہ رسالہ جدیدیہ ،اختلاف الحدیث ، جماع الامام ،الابطال الاستحسانم احکام القرآن ،بیان الفرض ،صفۃ الامر و نہی ،اختلاف مالک و شافعی ، اختلاف العرافتین ،اختلاف الشافعی و محمد بن الحسن ،تاب علی وہ عبداللہ،فضائل قریش ،کتاب السنن ،کتاب البسوط ،کتاب الام ،سیر الاوزاعی ، سیر الواقدی ۔ان کتابوں میںسیر الاوزاعیاور سیر الواقدی مستقل کتابیں نہیں ہیں۔بلکہ یہ دونوں کتابیں کتاب الام کا ہی ایک حصہ ہیں۔”[20]
الرسالہ:
آپ ؒ نے یہ کتاب بچپن میں لکھی جو کہ آپ کی مشہور اور معروف کتاب ہے۔ [21] بہت سے تذکرہ نگاروں نے الرسالہ کو اصول فقہ کی سب سے پہلی تصنیف کرار دیا ہے۔الرسالہ عبد الرحمن بن مہدی کی فرمائش پر لکھی گئی ۔امام شافعی نے اس کتاب کی تصنیف دو بار کی ۔دوسری تصنیف چونکہ اصلاح شدہ تھی تو اس نصخے کا نام “الرسالۃجدیدہ” رکھا گیا۔الرسالہ اسلامیات کےذخیرے میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔مضامینِ کتاب میں معانی قرآن ،شرائط ، حدیث، اجماع کی حجیت ،ناسخ وہ منسوخ شامل ہیں۔[22]
کتاب الام:
کتاب الام امام شافعی کےمذہب جدید کی اہم تصنیف ہے۔یہ کتاب پندرہ جلدوں پر مشتمل ہے ۔اور اس میں شامل رسائل کی تعداد مجموعی طور پر ڈیڑھ سو ہے۔اس کتاب کو روایت آپؒ کےشاگرد ربیع بن سلیمان مرادی اورزعفرانی نے کیا ہے۔[23] مصنف تاریخ امام شافعی لکھتے ہیں:
“کتاب الام نہایت عجیب و غریب کتاب ہے۔ بڑے بڑے مصنفین کی کتابوں میں اسکے حوالجات پائے جاتے ہیں۔اور علما ء متقدمین نے اس کتاب کی بےانتہاتعریف کی ہیں ۔شاہ ولی اللہ صاحب کا
تمامترمبلغ علم یہی کتاب ہے۔اور اس کتاب کی طفیل درجہ اجتہاد کو پہنچ گئے۔اور انہوں نے استنباط مسائل میں ہر جگہ اسی کتاب کے اصول مد نظر رکھے ہیں۔”[24]
مسند امام شافعیؒ
یہ کتاب احادیث مروعہ پر مشتمل ہے جن کو خودامام شافعی اپنے تلامذہ کے روبرو سند کے ساتھ روایت کرتے تھے ،یہ امام صاھب کی اپنی تصنیف نہیں ہے بلکہ کتاب الام اور مبسوط میں جو احادیث ربیع بن سلیمان اورمزنی سے مروی ہیں ابو جعفر محمد بن مطر نے ان کا انتخاب مسند شافعی کے نام سے یاد کردیا ہے۔[25]
امام شافعی ؒ کا سب سے بڑا کارنامہ اصول فقہ کی ایجاد ہے ۔امام ابو حنیفہ ؒ اور امام مالک ؒ کے ہاں صرف فقہ کا لفظ و طریق موجود تھا ۔اس کے اصول و ضوابط متعین کرنے کا سہرا امام شافعی ؒ کے سر ہے ۔ فن کی شکل میں سب سے پہلے انہیں اس کی بنیاد رکھی۔[26]
وفات:
امام شافعی نے 204ھ جمعہ کی رات مصر میں وفات پائی ۔اور اس وقت آپ کی عمر چوّن (54) سال کی تھی آپکا جنازہ امیر مصر نے پڑھایا ،جبل مقطم کے قریب قرافہ صغریٰ میں دفن کیے گئے۔[27]
فہرستِ اسناد ِمحول
1) سنجر بن عبداللہ ،امام،مسند امام شافعی، مترجم فیض اللہ ،حافظ،ادارہ اسلامیات،کراچی،لاہور،2013ء،ص23
2) محمد عاصم اعظمیٰ ،مولانا ،سیرت امامشافعی ،انس پبلیکیشنز ،لاہور ،2015ء،ص7
3) محمود اشرف ،عثمانی ،ملفوظات امام شافعی ،مکتبہ دار العلوم ،کراچی،2007ء،ص3
4) سنجر بن عبداللہ ،امام،مسند امام شافعی، مترجم فیض اللہ ،حافظ،ادارہ اسلامیات،کراچی،لاہور،2013ء،ص23
5) نجم الدین ،مولانا،سیرۃامام شافعی،دارالاشاعت ،پنجاب 1899ء،ص4
6) عبدالسبحان، مولانا،امام شافعی مجدد قرن ثانی ،سید احمد شہید اکیڈمی،یوپی،2013 ءص30
7)ایضاً،،ص30،31
8) ابو زھرہ،اثار امام شافعی،مترجم احمد جعفری ندوی، شیخ غلام علی اینڈ سنزپرنٹرز،لاہور،1961ء،ص51
9) عبدالسبحان، مولانا،امام شافعی مجدد قرن ثانی ،سید احمد شہید اکیڈمی،یوپی،2013 ء،ص32،33
10)ایضاً،ص33
11) محمد عاصم اعظمیٰ ،مولانا ،سیرت امامشافعی ،انس پبلیکیشنز ،لاہور ،2015ء،ص15،16
12)ایضاً،ص15
13) کامران اعظم،سوبدوری،حیات امام شافعی ، زاہد بشیر پرنٹرز،لاہور ،2012ء،ص30
14) قاضی اطہر ،مولانا، سیرت ائمہ اربعہ ،ادارہ اسلامیات،لاہور ،1990ء،ص146
15) کامران اعظم،سوبدوری،حیات امام شافعی ، زاہد بشیر پرنٹرز،لاہور ،2012ء،ص35
16) عبدالسبحان، مولانا،امام شافعی مجدد قرن ثانی ،سید احمد شہید اکیڈمی،یوپی،2013 ء،ص43
17)ایضاً،ص55،56
18) کامران اعظم،سوبدوری،حیات امام شافعی ، زاہد بشیر پرنٹرز،لاہور ،2012ء،ص45
19)ایضاً،ص46
20) نجم الدین ،مولانا،سیرۃامام شافعی،دارالاشاعت ،پنجاب 1899ء،ص93
21) محمد عاصم اعظمیٰ ،مولانا ،سیرت امامشافعی ،انس پبلیکیشنز ،لاہور ،2015ء،ص141
22) یہ معلومات موالان عتیق احمد صاحب کے مضمون سے لی گئی جو کہ مفتی سراج الدین کی کتاب”فقہ شافعی تاریخ و تعارف کا حصہ”ہے
23) محمد عاصم اعظمیٰ ،مولانا ،سیرت امامشافعی ،انس پبلیکیشنز ،لاہور ،2015ء،ص142
24) نجم الدین ،مولانا،سیرۃامام شافعی،دارالاشاعت ،پنجاب 1899ء،ص93
25) محمد عاصم اعظمیٰ ،مولانا ،سیرت امامشافعی ،انس پبلیکیشنز ،لاہور ،2015ء،ص312
26) کامران اعظم،سوبدوری،حیات امام شافعی ، زاہد بشیر پرنٹرز،لاہور ،2012ء،ص112
27) قاضی اطہر ،مولانا، سیرت ائمہ اربعہ ،ادارہ اسلامیات،لاہور ،1990ء،ص184
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں