زبان کا پالنا (Cradle)۔۔۔حافظ صفوان محمد

اردو زبان کی بولیوں کے اختلاف کی حقیقت کے بارے میں ایک بنیادی بات یہ ہے کہ جس چیز کو ہم بطور لسانی ایمان مسلمات سے تسلیم کرکے آگے بڑھتے اور عالمانہ سادگی سے بڑے بڑے نتائج نکال لیتے ہیں وہ دہلی اور لکھنؤ کا فرق ہے (یہاں فی الحال لاہور کے فرق کو ذکر نہ ہی کیجیے)۔ صورتِ حال یہ ہے کہ دہلی میں قلعے کی بولی مختلف تھی اور اردو بازار کی بولی مختلف۔ جامع مسجد وہ بڑی جگہ تھی جو قلعے سے باہر تھی اگرچہ اس کی محراب قلعے کے سامنے تھی۔ دہلی کی اس مسجد کے نیچے کے بازاروں میں رہنے والے بازاری لوگ اپنی اپنی بولیاں بولتے تھے جن پر باقاعدہ کام  ہوا ہے۔ لسانی عدم برداشت اور نخوت کا یہ عالم تھا کہ ایک بازار کے لوگ دوسرے بازار والوں کے محاورے روزمرے کا مذاق اڑاتے تھے۔ مثال لیجیے کہ جامع مسجد کے نیچے کے بازار کے رہنے والے مرزا فرحت اللہ بیگ مولوی نذیر احمد جیسے اردو کے عالم زباندان کو ridicule کرتے نظر آتے ہیں۔ بولی نہ ہوگئی وحی ہوگئی۔

جو لوگ دہلی کی زبان (اصل میں بولی) کی مہما گاتے نظر آتے ہیں یہ شدید اوور سٹیٹمنٹ اور ہیسٹی جنرلائزیشن کا شکار ہیں۔ ان میں کوئی بھی آپ کو یہ دو باتیں نہیں بتائے گا:
(1): دہلی 1859 میں پنجاب میں شامل کیا گیا تھا اور 1911 میں پنجاب کا دارالحکومت بنا یہاں تک کہ 1991 میں انڈین آئین کی 69 ویں ترمیم تک یہ پنجاب کا شہر رہا (اس کے بعد سے یہ قومی دارالحکومتی علاقہ ہے جیسے ہمارے ہاں اسلام آباد)، چنانچہ دہلی کی ساری بولیاں جغرافیائی پہچان اور nomenclature کے اعتبار سے آج بھی پنجابی ہیں۔
(2): دہلی کی جس بولی کو برائے گفتگو پوری اردو زبان کے مترادف کے طور پر پیش کیا یا سمجھا جاتا ہے وہ “پرانی” دہلی (شاہجہان آباد) کی بولی ہے، نئی دہلی کی سرکاری زبان تو 2000 سے پنجابی ہوچکی ہے۔ دہلی کی بولی کا ذکر کرتے ہوئے ناآشنا دور افتادگان کے علم میں یہ بنیادی فرق نہیں ہوتا۔

القصہ دہلی یا لکھنؤ کی کوئی ایک متعین جامد زبان نہیں ہے۔ ایک بازار یا چند بازاروں کی اردو بازاری بولیوں اور ان کے لہجہ جاتی فرق کو سنگین “اصول” بنالینا سادگی ہے یا لاعلمی، یا اگر تجاہلِ عارفانہ ہے تو لسانی طالبانیت و داعشیت کے سوا کچھ نہیں۔ ان بولیوں کا فرق، سیاست سے ہٹ کر، صرف قیصری بیگم کی “کتابِ زندگی” سے بھی سمجھ آسکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مقصد اس ساری تقریرِ دلپذیر کا یہ عرض کرنا ہے کہ ایک شہر کے کچھ محلوں کی بولی کے چلن کو پوری دنیا میں جگہ جگہ نافذ کرنے کا رجحان درست نہیں ہے۔ صحابہ کے دور میں مکہ اور مدینہ کی بولیوں کا فرق، قرآن میں شئیء عجاب والا Collocation بولتے بوڑھے کے محاورے سے علاقے کے لوگوں کی لاعلمی، قرآن کا سات مختلف بولیوں میں نازل ہونے کا لسانی معجزہ، وغیرہ، کم سے کم مسلمانوں کہ یہ سمجھانے کے لیے کافی مثالیں ہیں کہ کہیں کی بھی بولی کسی اور جگہ کے لیے معیار نہیں ہوسکتی۔ آداب۔

Facebook Comments

حافظ صفوان محمد
مصنف، ادیب، لغت نویس

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply