جنسی شناخت ۔ جین (22) ۔۔وہاراامباکر

سائنس کا سیاسی یا سماجی نظریات سے ملاپ دھواں دار رہا ہے۔ بات جب تک پرندوں، سیاروں، پہاڑوں، دھاتوں، حرارت، حرکت، عناصر وغیرہ کی بات ہوتی رہے، کم ہی کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے لیکن جب سائنس کا رخ خود ہماری طرف ہو جائے تو معاملہ فرق ہونے لگتا ہے۔ کان کھڑے ہونے لگتے ہیں، بھویں تن جاتی ہیں۔ اگر سائنس ہمارے خیالات سے اختلاف کرنا شروع تو بات بڑھنے لگتی ہے۔

“مرد اور خواتین میں نفسیاتی فرق پرورش کا نتیجہ ہیں۔ اس کی وجہ فطرت نہیں، کلچر ہے۔ ٹھیک تربیت اور پرورش جنسی فرق مٹا دے گی۔ کوئی بھی کچھ بھی بن سکتا ہے۔ خرابی مردوں کے معاشرے کی ہے”۔ انسانی فطرت کا انکار کرنے والے سماجی انصاف کے علمبرداروں کا یہ نعرہ 1960 کی دہائی میں بلند ہوا۔ یہاں تک کہ مین سٹریم نفسیات پر اثرانداز ہونے لگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈیوڈ رائمر نے 2004 میں خودکشی کی۔ ان کی پیدائش لڑکے کے طور پر ہوئی تھی۔ ان کا نام بروس رکھا گیا۔ وہ ایک نااہل سرجن کے کئے جانے والے ختنے کی ایک خوفناک کوشش کا شکار بنے جس کو ٹھیک نہیں کیا جا سکتا تھا۔ جان ہاپکنز یونیورسٹی کے جان منی “پرورش” والے سکول آف تھاٹ سے تعلق رکھتے تھے۔ منی نے تجویز کیا کہ ہارمونل اور بیہیوریل تھراپی کی مدد سے جنسی تبدیلی کر لی جائے۔ ان کو لڑکیوں والے کپڑے پہنائے جائیں، ویسے پرورش کیا جائے۔ گڑیوں اور سلائی مشینوں کے کھلونے دئے جائیں۔ اناٹومی کی سرجری کروا لی جائے۔ بچے سمیت کسی کو اس کا بتایا ہی نہ جائے۔ بروس کا نام برینڈا رکھ دیا گیا۔ ان کے ایک آئیڈیٹیکل جڑواں بھائی برائن بھی تھے جنہوں نے نارمل زندگی بسر کی۔

منی ان سے وقتاً فوقتاً ملاقات کرتے تھے۔ باقاعدگی سے پیپر شائع کرتے تھے جو بہت زیادہ سائٹ کئے جاتے رہے۔ “یہ ایک بے مثال کامیابی ہے۔ اس بات کا واضح ثبوت کہ لڑکا یا لڑکی سوشل کنسٹرکٹ ہیں”۔ منی کا یہ دعویٰ سچ سے بہت دور تھا۔

برینڈا گڑیوں سے کھیلنے سے انکار کرتی تھی اور اپنے بھائی کے کھلونوں میں دلچسپی لیتی تھی۔ چار سال کی عمر میں ایک روز اپنے سارے کپڑے قینچی سے پھاڑ دئے۔ کردار میں ڈیپریشن، کنفویژن اور غصہ نمایاں تھے۔ چودہ سال کی عمر میں اپنے ساتھ ہونے والے اس خوفناک سلوک کا خاتمہ کر دیا۔ ہارمون کی گولیاں کھانا بند کر دیں۔ اپنا نام برینڈا سے ڈیوڈ رکھ لیا۔ زندگی میں غصہ، انکار اور ڈیپریشن نہ ختم ہوا اور پھر ایک جھگڑے کے بعد بروس سے برینڈا، برینڈا سے ڈیوڈ بننے والے اس لڑکے نے خود کشی کر لی۔

جنس کی تبدیلی کے ان تجربات کا نشانہ کئی اور لوگ بھی بنے۔ جنسی اعضاء کے نامکمل ہونے جیسے مسائل کی وجہ سے جنسی تبدیلی کا آپریشن جیسے پروسیچر کروائے جاتے رہے۔ اس پر 2005 میں کولمبیا یونیورسٹی نے تفصیلی تجزیاتی سٹڈی کی۔ اگرچہ سب کیس ڈیوڈ کی طرح کی انتہا کے نہیں تھے لیکن جس کیس میں بھی جین کے مخالف جنس اسائن کی گئی، وہاں پر زیادہ تر جنسی ڈسفوریا کے مسائل رہے۔ جبکہ جہاں پر جین کے مطابق جنس اسائن ہوئی اس میں سے کوئی ایک کیس بھی ایسا نہیں نکلا۔

ان رپورٹس نے ان مفروضات کو دفن کر دیا (گرچہ کچھ لوگ ابھی بھی اس سے ہٹنے کو تیار نہیں) کہ جنسی شناخت پروگرام کی جا سکتی ہے یا سوشل اور کلچرل طریقے سے اثرانداز ہوا جا سکتا ہے۔ ماسوائے چند بہت ہی کم کیسز کے، جینیاتی جنس ہی ٹھیک انتخاب ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فطرت کی اہم ترین دوئی صرف ایک سوئچ سے؟ اور پھر ٹرانس جینڈر؟ یہ کیسے؟ اور ہر کلچر اس سے واقف ہے کہ جینیاتی شناخت خود ایک تسلسل میں ہے۔ مثلاً، ایک جنس میں اگر ایک طرح کا رویہ زیادہ ہے تو یہ اس جنس کے ہر فرد میں ایک طرح کا نہیں۔ کسی فرد میں دوسری جنس سے بھی زیادہ ہے۔ گڑیوں سے کھیلنے والے لڑکے اور گاڑیوں سے کھیلنے والے لڑکیاں عام ہیں۔ جینیاتی لحاظ سے اس میں کوئی تضاد نہیں۔ ماسٹر سوئچ اور جینز کی ہائیرارکی میں تنظیم جینیاتی ڈیزائن کا حصہ ہے۔ SRY جین آن کریں تو نر بن گیا، آف کریں تو مادہ۔ لیکن جنس کے تعین اور جنسی شناخت کے درمیان اور بہت کچھ ہے۔ درجنوں ٹارگٹ ہیں جسے اس جین نے فعال کرنا ہے۔ ان کو آن یا آف کرنا ہے۔ جیسے کسی ریلے ریس میں بھاگتے وقت ڈنڈی اگلے بھاگنے والے کے سپرد ہوتے ہے۔ یہ اگلے جین مزید چیزوں کو ریگولیٹ کرتے ہیں۔ ہارمون، رویے، سوشل پرفارمنس، یادداشت، کلچرل رول، ایکسپوژر۔ جسے ہم جنس کہتے ہیں یہ ایک جینیاتی اور ڈویلپمنٹ کے بہتے جھرنوں کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ یہ جین اس کے سرے پر ہے۔ “اس کیک کو بنانے کے لئے پہلے چار کپ آٹا لیا جائے”۔ اگر یہ نہیں کریں گے تو پھر جو بنے گا، وہ کیک نہیں ہو گا لیکن اس پہلے قدم سے آگے بے تحاشا ویری ایشنز بنائے جا سکتی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور جس طرح سوائر سنڈروم میں وائے کروموزوم کے ہوتے ہوئے بھی جینز خاتون ہی بناتی ہیں کیونکہ ایک سوئچ فعال ہونے سے رہ جاتا ہے، اسی طرح اس کے فعال ہونے کے باوجود اگلے کاسکیڈ میں کسی کا غیرفعال رہ جانے کا اپنا مطلب نکلتا ہے۔ کسی اور جین کا کوئی اور ویری انٹ جو کسی ہارمون کے اخراج کو ہی بدل دیتا ہے، دماغ کے لئے سگنل تبدیل کر دیتا ہے۔ اس کو شناخت کا سوائر سنڈروم کہا جا سکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس تنظیم کی ہائیرارکی ہمیں جینیاتی کاسکیڈ کی تنظیم کے بڑے اہم اصول کا بتاتی ہے۔ فطرت اور تربیت کی پرانی بحث کی جنگ لمبی ہے اور تلخ ہے۔ اس میں کچھ لوگ بیچ کی راہ لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ شناخت میں فطرت اور تربیت دونوں ہیں۔ جین اور ماحول، اندرونی اور بیرونی اِن پٹ سے ملکر شناخت بنتی ہے۔ اس کو “بے وقوفوں کا صلح کا معاہدہ” کہا جا سکتا ہے کیونکہ اس کی کوئی تُک نہیں بنتی۔ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ہم ہائیرارکی میں کونسی سطح کی بات کر رہے ہیں۔

شخصیت میں جنس کے پہلو میں SRY کا سوئچ اوپر لگا ہے اور شخصیت کی آبشار کی ہزاروں ندیوں تک اس کا پانی پہنچتا ہے۔ اس کاسکیڈ کی اوپر والی سطح پر فطرت اپنا کام قوت سے کرتی ہے جو یک طرفہ ہے۔ اس جگہ پر جنس کا تصور سادہ ہے۔ اگر ہم اس کی پوزیشن تبدیل کرنا سیکھ جائیں، کسی ڈرگ یا جینیاتی طریے سے تو ہم خواتین اور مرد کی پروڈکشن کو کنٹرول کر سکتے ہیں اور وہ مکمل طور پر خاتون یا مرد کی تقریباً تمام شناخت لے کر نکلیں گے۔ اس نیٹ ورک میں ہم جتنا نیچے چلتے جائیں، مکمل جینیاتی ویو کا کام کم ہوتا جاتا ہے۔ اس کے میدانوں میں انفارمیشن کئی جگہ سے آ رہی ہیں۔ تاریخ، معاشرہ، کلچر کی لہریں آ کر جین سے ٹکراتی ہیں۔ کچھ ایک دوسرے کو کینسل کر دیتی ہیں، کچھ ایک دوسرے کو مزید طاقتور۔ صرف کوئی ایک فورس طاقتور نہیں۔ لیکن ان سب کے ملکر بننے والے اثرات ایک منفرد اور اونچ نیچ والا منظر بناتے ہیں۔ اس منظر کو ہم فرد کی شخصیت کہتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply