درخت باتیں کرتے ہیں ۔۔ربیعہ سلیم مرزا

جہاں ندی ہوتی ہےوہاں جنگل بھی ہوتا ہے۔ایک خوبصورت ندی کے قریب ایک قدیم اور وسیع جنگل تھا ۔ جنگل میں کچھ درختوں کی عمر سو سال سے بھی زیادہ تھی۔پرانے درخت بوڑھے اور مہربان تھے۔ ان کی گھنی چھاؤں میں جانور اور راہ گیر سستاتے۔ ان کا پک جانے والا پھل  زمین پر ٹپکتا، جس سے گزرنے والے اکثر اپنا پیٹ بھر لیتے۔

گھنے پتوں میں پرندے آرام کرتے اور انکی محفوظ پناہ میں گھونسلے بناتے ۔تیز بارش میں بوڑھا درخت گھونسلوں کو ڈھانپ لیتا۔انہیں بارش سے بچاتا ۔جنگلی طوطے، کوّے، کبوتر آتے جاتے، گھڑی دو گھڑی شاخوں پر بیٹھ کر دم لیتے، کچھ اپنی سناتے، کچھ درخت کی سنتے، اس سے بوڑھے درخت کو تمام جنگل کے حالات کا پتہ رہتا۔

کچھ دن پہلے سے ایک بوڑھے درخت کی کھوہ میں ایک خرگوش جوڑا آکر ٹھہرا ، جس کے دو بچے جوجو اور بنٹی تھے۔خرگوش جوڑے نے پرانے درخت کی جڑ میں بنی ایک قدرتی کھوہ کو اپنا گھر بنایا تھا۔کچھ تو قدرتی طور پہ وہ سوراخ گہرا تھا۔کچھ انہوں نے اپنے پیروں سے کھود کھود کر نرم اور بڑا کرلیا تھا ۔ ماں باپ ان کے لئے کھانا ڈھونڈنے جاتے تو بوڑھا درخت ان بچوں کا خیال رکھتا انہیں بہلاتا، اپنے پھل کھلاتا۔

ایک دن ان کے ماں باپ کھا نا ڈھونڈ نے نکلے تو واپس نہیں آئے ۔دونوں بچے ایک بڑے درخت کی کھوہ میں منہ جوڑے بیٹھے تھے ۔ان کی خوبصورت لال آنکھیں اندھیرے میں چمک رہی تھیں۔باہر ہوا چلنے سے ہلکا سا پتہ بھی کھڑکھڑاتا تو اور ڈر کر دبک جاتے ۔ اس رات وہ دونوں بہت اکیلے تھے۔

سارا دن گزرا پھر رات بھی گزر گئی مگر بنٹی اور جوجو کے ماما پاپا نہیں آئے ۔ پھر کئی دن گزر گئے ۔ اب بوڑھا درخت بھی پریشان رہنے لگا۔ جب اسے سُن گُن ملی کہ جنگل میں کچھ شکاریوں نے جال لگائے تھے اور جانوروں کو پکڑ کر ساتھ لے گئےوہ سمجھ گیا کہ ان کے ساتھ کچھ برا ہوا ہے ۔

دن گزرتے گئے ۔بچےاب بڑے ہو رہے تھے ۔وہ درخت کی شاخوں پر کھیلتے کودتے، اسکا پھل کھاتے۔ ۔درخت پہ جوجو اور بنٹی کو کھیلنے کے لئے کچھ اور دوست بھی مل گئے ۔ ان میں چڑیا، کبوتر طوطا اور کوا اکثر ان کے لئے مختلف پھل لاتے۔ ان سے باتیں کرتے ۔ تسلی دیتے۔ یونہی دن گذرتے گئے ۔خرگوش بچے اب کافی بڑے ہو گئے تھے ۔

ایک دوپہر ایک آدمی درخت کے پاس آیا اور اسے غور سے دیکھنے لگا۔اس نے ایک بھاری کلہاڑا بھی اٹھا رکھا تھا۔ اس نے درخت کو ٹھوک بجا کر دیکھا اور خوش ہو کر بولا، ” لکڑی تو بہت مضبوط ہے،میرا گھر بھی اچھا بن جائے گا ” اور جلانے کے لئے بھی خوب لکڑی ملے گی۔

بوڑھا درخت کانپ گیا۔اسے ان تمام جانوروں اور پرندوں کی فکر ہوئی جن کا وہ خیال رکھتا تھا۔درخت کے دوستوں میں سے صرف چڑیا درخت پہ تھی وہ اڑ کر بھاگ گئی ۔اس سے پہلے کہ وہ آدمی درخت پہ کلہاڑا چلاتا۔۔کہیں سے بہت سے کوے اور دوسرے پرندے آگئے اور لکڑہارے کے سر پر منڈلانے لگے ۔کائیں کائیں۔، چوں چوں کی تیذ آوازوں سے انہوں نے لکڑہارے پر حملہ کر دیا

وہ اپنے پنجوں اور چونچوں سے لکڑہارے کو ٹھونگ رہے تھے۔شور سن کر خرگوش کے بچے باہر نکلے اور معاملے کو سمجھتے ہی انہوں نے لکڑہارے کی ٹانگوں کو اپنے تیز دانتوں سے کاٹنا چاہا۔لکڑہارے نے یہ ماجرا دیکھا تو خوفزدہ ہو کر بھاگ گیا ۔
تمام جانوروں اور بوڑھے درخت نے سکون کی سانس لی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بنٹی اور جوجو بوڑھے درخت کی شاخوں پر اچھلنے اور کودنے لگے۔انہیں کھیلتے دیکھ کر بوڑھا درخت بھی خوش ہو گیا۔ سب نے سکون کا سانس لیا اور اللہ کا شکر ادا کیا جس نے ان کے گھر اور دوست کو بچا لیا۔
بچو! درختوں کی مدد بھی کریں اور ان کی قدر بھی کریں ۔
یہ بہت خاص اور مہربان ہوتے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply