• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(پچاسویں قسط،حصّہ ہفتم )۔۔گوتم حیات

کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(پچاسویں قسط،حصّہ ہفتم )۔۔گوتم حیات

طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے میں گزشتہ رات  لکھ نہیں  سکا تھا۔۔۔جس کی وجہ سے طبعیت اور بھی بوجھل محسوس ہورہی تھی۔
آج پورا دن غنودگی کی حالت میں سو کر گزرا، کسی بھی چیز کا ہوش نہیں تھا۔ رات آٹھ بجے آنکھ کھلی، طبیعت تھوڑی بہتر محسوس ہوئی تو بستر سے اٹھ کر نہایا اور پھر کچن میں جا کر ایک کپ چائے بنائی۔
چائے پینے کے دوران موبائل چیک کیا تو مسڈ کالز کی ایک لائن لگی ہوئی تھی، مجھے تعجب ہوا ان مسڈ کالز پر، آخر ایسا کیا ہو گیا جو اتنی مسڈ کالز آئی ہوئی ہیں۔ میں نے ان تمام نمبرز پر معذرت کا میسج کیا، اس دوران میرے دوست عباس کا جواب آیا کہ تم لوگ خیریت سے ہو، جہاز کریش ہوا ہے ملیر میں۔۔۔ اس کی بات پر مجھے حیرت ہوئی، میں نے پوچھا یہ کب کی بات ہے، مجھے تو خبر ہی نہیں اس حادثے کی۔۔۔ اس کے بعد میں نے سوشل میڈیا پر جہاز کے حادثے سے متعلق خبریں چیک کیں۔ سوشل میڈیا کی ویڈیوز پر کچھ گھروں کی پچھلی طرف سے کالا گہرا دھواں اٹھتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ یہ دلخراش منظر دیکھ کر مجھے ان بدنصیب لوگوں کی یاد آئی جو اس حادثے میں لقمہ اجل بنے۔ جانے کیا بیتی ہو گی ان مسافروں پر اور جہاز کے  سٹاف پر؟ ۔مصدقہ اطلاعات کے مطابق جہاز میں عملے کے آٹھ افراد سمیت ننانوے مسافر سوار تھے۔

ایک طرف دل دہلا دینے والا یہ واقعہ تو دوسری طرف پروپیگنڈہ پھیلانے کے ماہر ہمارے لوگوں کے افسوسناک رویے۔ پہلے پہل یہ کام نجی چینلز کیا کرتے تھے لیکن اب اس دوڑ میں عام لوگ بھی شریک ہوچکے ہیں، یہ لوگ بغیر تصدیق کیے ان جھوٹی خبروں کو ڈھٹائی کے ساتھ اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کے ذریعے پھیلا کر کسی بھی شخصیت کے خلاف شروع ہو جاتے ہیں۔ آج ہونے والے طیارے کے حادثے کو بھی انہوں نے نہیں بخشا، ہر ایک نے ریلیف ادارے کے اہلکاروں کی طرف سے یہ لکھا ہوا ہے کہ “ہم زخمیوں کو مرنے سے بچا رہے تھے لیکن مقامی لوگ عورتوں کے زیورات اور دوسرا سامان لوٹنے میں لگے ہوئے تھے”۔

ذرا تصور کیجیے اس جگہ کا جہاں پر یہ افسوسناک حادثہ رونما ہوا۔ ملبے کے ڈھیر پر راکھ اور اس راکھ کے اندر بےشناخت انسانی جسموں کی لاشیں، تڑپتے ہوئے دکھائی نہ دینے والے  زخمی بدن ،جن میں ابھی سانسیں رواں ہیں اور کالا گہرا پھیلتا  ہوا دھواں، جس نے ہر ایک چیز کو سیاہ کر دیا ہے۔ کیا ایسے میں کوئی ذی ہوش شخص لوٹ مار کر سکتا ہے۔؟

میرا نہیں خیال کہ وہاں کے لوگ یہ گھٹیا کام کر سکتے ہیں۔۔۔۔ چھاؤنی کے قریب واقع وہ ملیر کا ایک پوش علاقہ ہے، حادثے کے وقت سب کچھ جل کر راکھ ہوا۔۔۔۔ ایسے لمحات میں عورتوں کے زیورات ان کے بدن سے نوچنا، راکھ کے اس ڈھیر پر زیورات لوٹنے کے لیے کیا کوئی دوربین لگا کر مردوں اور عورتوں کے جسموں کی شناخت کر رہا تھا۔۔۔؟ میں یقین نہیں کر سکتا ایسی خبر پر، جب تک کوئی ٹھوس شواہد نہ مل جائیں ۔ تمام پڑھنے والوں سے گزارش ہے کہ وہ ٹھوس شواہد کی بنیاد پر مجھے اس خبر سے متعلق حقائق سے آگاہ کریں۔

یہ دور پروپیگنڈے کا ہے۔ آپ اپنے سوشل میڈیا پروفائل کے ذریعے کسی کے خلاف کچھ بھی لکھ دیں، لوگ بغیر تصدیق کیے آنکھ بند کر کے ایسے غلط مواد کو شیئر کرنا شروع کر دیں گے۔ اگر آپ کے اندھے فولوورز زیادہ ہیں تو آپ ان کی مدد سے کسی کے بھی خلاف زہر اگل کر مطلوبہ شخصیت کا سوشل میڈیا پروفائل بند بھی کروا سکتے ہیں۔۔۔ کیونکہ اپنے جھوٹ اور منافقت کو چھپانے کا بس ایک یہی راستہ ہے ان لوگوں کے پاس۔۔۔ کاش کہ ایسے لوگوں کے فولوورز اس پروپیگنڈے کو من و وعن قبول کرنے کے بجائے خود سے کچھ تحقیق کر لیا کریں۔

پچھلے کچھ سالوں سے ایک غزل سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے۔ فیس بک، یُوٹیوب، ریختہ  سمیت مختلف ادبی ویب سائٹ پر بھی آپ سب اسے ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ پہلی بار یہ غزل جب میری نظر سے گزری تو میں نے پڑھتے ساتھ ہی اسے رد کر دیا تھا، زاہدہ حنا کے نام سے اُس غزل کو جوڑا گیا تھا، وہ میرے لیے ناقابلِ یقین تھا۔ کیونکہ وہ شاعرہ نہیں ہیں۔ اسی طرح زاہدہ حنا کے ایک انٹرویو کا کلپ جس میں وہ جون ایلیا کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں اپنی رائے دے رہی ہیں، وہ بھی لوگوں کو ہضم نہیں ہوا۔ اس ویڈیو کلپ پر لوگوں کے نازیبا کمنٹس دیکھ کر مجھے بہت دکھ پہنچا تھا۔ صاف ظاہر تھا کہ جون ایلیا کے شیدائی کسی بھی انتہا تک پہنچ سکتے ہیں۔ پہلے ان لوگوں نے جون ایلیا کو مظلومیت کا پیکر بنایا، جب اس پر بھی ان کی تسلی نہیں ہوئی تو پھر انہوں نے زاہدہ حنا کی کردار کشی شروع کردی۔ یہ شیدائی اب منظم طریقے سے سوشل میڈیا کو بروئے کار لاکر یک رخی پروپیگنڈہ کیے جا رہے ہیں۔ راتوں رات انہوں نے زاہدہ حنا کے نام سے معافی نامے کے نام پر ایک غزل بھی تخلیق کر لی ہے۔ ہر پڑھنے والا یہی سمجھ رہا ہے کہ یہ غزل زاہدہ حنا کی ہے، جبکہ حقیقت میں ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ کچھ سال پہلے میں نے جب “میڈم” سے اس غزل کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ۔۔
“نہیں، اس غزل کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے، میں نے ہمیشہ نثر لکھنے کو ہی ترجیح دی ہے، اب تک میں نے صرف دو یا تین غزلیں ہی لکھی ہیں، ان تین غزلوں کے لیے میڈم نے ایک خاص قسم کا لفظ استعمال کیا تھا، اگر میں بھول نہیں رہا تو غالباً وہ لفظ “تیسہری” (یا شاید وہ کوئی اور لفظ تھا، اس بارے میں، میں ان سے دوبارہ پوچھوں گا) کا تھا۔ جس پر میں نے اُن سے پوچھا کہ تیسہری۔۔۔ کیا مطلب؟ تو میڈم کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب ہے دو مکمل غزلیں اور ایک آدھی غزل۔۔۔”

کسی بھی چیز کو پھیلانے سے پہلے اگر پڑھنے والے تھوڑی تصدیق کر لیں تو کتنا اچھا ہو، مگر افسوس کہ یہاں دوسروں پر الزامات اور کردار کشی کرنے کو اہم فریضہ سمجھ لیا گیا ہے۔ افسوس ہی کیا جا سکتا ہے لوگوں کے ایسے منفی رویوں پر۔

اب میں یہاں پر وہ غزل نقل کر رہا ہوں جس کو زاہدہ حنا کے نام سے زوروشور سے پھیلایا جا رہا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس غزل کا حقیقی شاعر یا شاعرہ کون ہے۔ ایک ملاقات کے دوران میڈم تو مجھ سے اس بات کی تردید کر چکی ہیں کہ یہ غزل ان کی نہیں ہے۔۔۔ اس تحریر کا سہارا لیتے ہوئے میں تمام پڑھنے والوں سے گزارش کروں گا کہ غیر معیاری اور من گھڑت خبروں کو تصدیق کیے بغیر پھیلانے سے گریز کریں اور ساتھ ہی ساتھ اس قسم کی شاعری کو زاہدہ حنا کے نام سے منسوب کر کے اپنے سوشل میڈیا پروفائل کی زینت نہ بنائیں۔ نامعلوم شاعر یا نامعلوم شاعرہ کی وہ غزل پیشِ خدمت ہے جس کو پچھلے کئی سالوں سے زاہد حنا کے نام سے پھیلایا جا رہا ہے۔۔۔

“جانتی ہوں کہ وہ خفا بھی نہیں
دل کسی طور مانتا بھی نہیں
کیا وفا و جفا کی بات کریں
درمیاں اب تو کچھ رہا بھی نہیں
درد وہ بھی سہا ہے تیرے لیے
میری قسمت میں جو لکھا بھی نہیں
ہر تمنا سراب بنتی رہی
ان سرابوں کی انتہا بھی نہیں
ہاں چراغاں کی کیفیت تھی کبھی
اب تو پلکوں پہ اک دیا بھی نہیں
دل کو اب تک یقین آ نہ سکا
یوں نہیں ہے ، کہ وہ ملا بھی نہیں
وقت اتنا گزر چکا ہے حنؔا
جانے والے سے اب گلہ بھی نہیں”!

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply