عجب جذبات ہیں۔ قلم میں وہی لرزش ہے جو پہلے بوسے کے وقت ہونٹوں پر ہوتی ہے اور دل ویسے ہی تجسس، خوشی اور خدشات سے لبریز ہے جیسا ایک عاشق صادق کا لمحات وصل سے ذرا قبل ہوتا ہے۔
ایف سی کالج لاہور تک پہنچتے پہنچتے اردو ادب کو اتنا تو چاٹ چکا تھا کہ پیالہ چھلکنے کو بے تاب رہتا تھا۔ ہاسٹل میں چوہدری جمال کے میس بل کا بیڑہ غرق کرتے اور سگریٹ سے سگریٹ سلگاتے ایک دن گورنمنٹ کالج سے آئے ایک دوست نے اپنا کالج میگزین تھما دیا۔ اچھا لگا۔ میں نے پوچھا چوہدری “ایف سی” کا میگزین کون سا ہے؟ چوہدری مجھ جتنا ہی بے خبر تھا۔ معلوم ہوا کہ ایف سی کالج کا تو کوئی رسالہ ہی نہیں نکلتا۔ بس “غیرتِ قومی سے گڑ گیا اکبر”۔ میں نے اعلان کیا کہ ہم رسالہ نکالیں گے۔ یہ سنتے ہی تازہ تازہ عشق میں مبتلا رانا عبدالقدوس چونک کر اٹھ بیٹھا اور بولا کس کو نکالنا ہے؟ رانے کو فورا رسالہ نکالنے کے اسباب اور اسکی محبوبہ پر اس رسالے کے متوقع اثرات سے آگاہ کیا جس نے اس میں بھی قومی غیرت کوٹ کوٹ کر بلکہ ثابت و سالم بھر دی۔ اب ہم تین حضرات کا یہ قافلہ اردو ڈیپارٹمنٹ پہنچا اور قصہ مختصر کہ در در کی خاک چھاننے کے بعد پہنچا پروفیسر احمد عقیل روبی مرحوم کے سامنے۔ روبی صاحب معروف شاعر تھے سو دل کو تسلی ہوئی کہ بس اب تو رسالہ نکل ہی پڑا۔ مگر روبی صاحب نے ہمارے شوق کے گھوڑے کو لگام دیتے ہوے کہا “منڈیو، مواد کہاں ہے؟ رسالہ پہلے بھی مواد کی عدم دستیابی کی وجہ سے بند ہوا تھا۔ پہلے شمارے کا مواد لاؤ تو رسالے کی اجازت ملے گی”۔ تین چار دن ایف سی کالج میں ادیبوں کی تلاش نے ہمارا وہی حال کیا جو خزانے کی تلاش میں نکلنے والی شکاری پارٹی کا ہوتا ہے۔ جو پتھر اٹھاتے تھے نیچے سے جمیعت کا کارکن نکلتا تھا جو حیران تھا کہ جمیعت کا لٹریچر ہوتے ہوے ادبی رسالے کی کیا ضرورت ہے۔
تیسرے دن چوہدری کے کمرے میں جب خواہش مایوسی میں بدل رہی تھی تو رانے نے نیم دراز ہو کر سگریٹ کے دھویں کے مرغولوں میں محبوبہ کی تصویر بناتے ہوے کہا، یار دفع کرو اوروں کو خود ہی لکھ لیتے ہیں۔ چوہدری کا کمرہ فورا ایڈیٹوریل روم قرار پایا اور نو گرفتار سخنور، مشق سخن میں مبتلا ہو گئے۔ اگلے دو دن میں ہم نے ایسے ایسے شاہکار مختلف ناموں سے لکھے کہ منٹو اور فیض کی روح خوش کر دی۔ بلکہ سنا ہے کہ چوہدری کے نام سے جو افسانہ لکھا تھا وہی دکھا کر کئی سال بعد اس نے (ہماری) بھابی کو شادی پر منایا تھا۔ رانے نے جو مضمون اپنی محبوبہ کے نام سے لکھا تھا وہ تو تحریک حقوق نسواں کا چارٹر بننے کا سزاوار تھا۔ اب یہ “دس بارہ مصنفین و شعرا” کا لکھا مواد جا کر ہم نے روبی صاحب کو پیش کیا اور اس طرح انتظار میں لگ گئے جیسے کچے آموں کو مسالہ ڈال کر پیٹی میں بند کیا جاتا ہے۔ کوئی ہفتہ بعد روبی صاحب نے لب سڑک رک کر سگریٹ کا کش لگایا، کھانس کر بلغم کا ایک بڑا لوتھڑا سڑک پہ اگلا اور فرمایا کہ بھئی کالج نے رسالہ نہ نکالنے کا فیصلہ کیا ہے، فنڈز نہیں ہیں۔ ہماری محنت، ہمارے خواب اور شوق سب اس بلغم کے لوتھڑے کی شکل میں سڑک پر پڑے تھے۔
قریب اٹھارہ سال بعد جب مجاھد حسین صاحب نے مجھ سے کہا کہ بھائی آپ خود ایک سائیٹ شروع کریں تو ایف سی کالج کا ایک نوجوان سا انعام رانا شاید پھر سے جاگ گیا۔ جس شوق پر وقت، حالات اور وکالت کی گرد پڑی تھی، اسے مجاھد بھائی نے ایسے ہی نیا کر دیا جیسے سالوں سے بند کمرے میں فرنیچر پہ پڑا کپڑا کھینچ دیا جائے اور چمکتا ہوا فرنیچر ماضی سے حال ہو جائے۔ پہلا نام جو ذہن پہ چمکا، وہ ژاں سارتر کا تھا۔ موسیو کون ہیں یہ تو بوجوہ راز تھا اور آج “مکالمہ” کے ساتھ ساتھ انکی بھی رونمائی اور “اسم کشائی” ہے۔ مگر موسیو کیا ہیں؟ بس یاروں کے یار ہیں۔ موسیو نے بغیر کوئی سوال کئیے کہا جو کرنا ہے بتا دو اور یوں پہلے ہی دن سے موسیو سفر کا حصہ بن گئے۔ سھیل خان فیصل آباد سے میرے ایک پیار کرنے والے ہیں، آئی ٹی ماہر ہیں۔ انھوں نے فورا سائیٹ ڈیزائنگ کا ذمہ اٹھایا اور معاوضہ وصول کرنے سے انکار کر دیا۔ ڈاکٹر رابعہ خرم درانی ایک نفیس اور خوبصورت نثر لکھنے والی ہیں۔ کچھ دن بعد ان سے ساتھ کی گزارش کی اور وہ بھی ساتھی بن گئیں۔ محترم خالد محمود، عوامی ورکر پارٹی پنجاب کے نائب صدر ہیں، میری ادبی اور سیاسی تربیت میں انکا پرانا اور اہم حصہ ہے، گو اس بات پر وہ کافی شرمندہ ہیں کہ ان کا شاگرد نالائق نکلا۔ میری مسلسل آہ و بکا پر وہ بھی ہمارے ساتھ شامل ہوے ہیں۔ یوں پانچ لوگوں پہ مشتمل یہ ادارتی بورڈ وجود پایا ہے جو اپنی ساخت میں متنوع بھی ہے اور مختلف رنگ کے پھولوں کا حسین امتزاج بھی۔ “مکالمہ” کی ہر کامیابی ان چار حضرات کے تدبر کا نتیجہ ہو گی اور ہر قسم کی خامی اس ناہنجار کی ہی کوتاہی۔ میں اپنے رب کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے کہ اس نے مجھے لوگوں کے بے پناہ پیار سے نوازا ہے۔ یہ چاروں، سھیل، ٹیم کے چھ مزید رکن، اسکے گروپ کے سولہ سو سے زیادہ ممبر، وہ دوست جنھوں نے “مکالمہ” کیلیے اپنی پروفائل پکچر یوں بدلی کہ لگتا ہے جیسے کوئی “واقعہ” رونما ہوا ہے اور وہ سب جو نیک خواہشات رکھتے ہیں؛ میں آپ سب کی محبتوں کا قرضدار ہوں۔ دعا ہے کہ میرا رب مجھے آپکی یہ محبت، مان اور اچھا گمان برقرار رکھنے کی توفیق دے۔ آمین۔
باہمی مشورے سے اس فورم کا نام “مکالمہ” طے پایا ہے۔ ایک معاون ٹیم “مکالمہ” سائیٹ، فیس بک پیج اور فیس بک گروپ کے چلانے میں معاونت کر رہی ہے۔ میں پہلے بھی عرض کر چکا کہ نظریات کے نام پر ہمارے درمیان ایک خلیج وجود میں آ رہی ہے۔ اگر آپ اسلامسٹ ہیں تو ایک دبائیں، لبرل ہیں تو دو دبائیں؛ اس فون پر تیسری کوئی آپشن ہی نہیں۔ سو ضرورت ہے کہ کوئی ایسا پلیٹ فارم ہو جو تیسری ہی نہیں، چوتھی اور پانچویں آپشن بھی دے۔ ایسا چوپال جہاں بات، سب خواہ اپنی اپنی کریں مگر اکٹھے تو بیٹھیں۔ اسی فورم پر آپ انکی بھی تحریر دیکھیں گے جو مجھے نام لے لے کر گالی دیتے رہے، مگر انکی تحریر اچھی ہے تو یہاں چھپنا ان کا حق ہے۔ اور کیا یہ ہماری پہلی کامیابی نہیں کہ دشنام والے بھی مکالمہ بھی آ جائیں؟ میرے کچھ دوستوں نے وقتا فوقتا سوال اٹھائے کہ اگر اپنا کوئی نظریہ ہی نہ ہو تو بات کیا کرنی۔ جی بالکل نظریہ ہونا اچھی بات ہے، مگر اس نظرئیے کی بات فقط ہم خیالوں کو ہی سنانی ہے تو اتنی محنت کی کیا ضرورت ہے۔ جاگے کو اور کیا جگانا۔ ضرورت ہے کہ ایک ایسا چوپال فراہم ہو جہاں ہر کوئی آ کر اپنی بات کہ سکے۔ جہاں اسے دھتکارے جانے یا تمسخر اڑائے جانے کا خدشہ نہ ہو۔ جہاں لکھتے ہوے اسے خود پر “لیبل” لگنے کا خوف نہ ہو۔ روزنامہ سرخ اور روزنامہ سبز کے ساتھ کوئی روزنامہ سفید بھی تو ہو جہاں لوگ خود سے رنگ بھریں۔ ایک دوجے کو سمجھیں، اپنی سنائیں مگر منانے کی ضد نہ کریں۔ مباحثہ نہ کریں بلکہ مکالمہ کریں۔
مکالمہ کیا ہے؟ اگر آپ ادبی لغت کے بجائے عوامی تشریح سمجھیں تو مکالمہ دوسرے کے آگے نرمی اور تہذیب سے اپنا موقف رکھنا ہے اور اس کا موقف سمجھنا ہے۔ مکالمہ میں دوسرے کو منانے کا جذبہ نہیں ہوتا بلکہ بس بتانے کا جذبہ ہوتا ہے۔ تہذیب، دلیل اور بہترین الفاظ کے ساتھ اپنا موقف دینا اور تحمل سے دوسرے کا سننا اور سمجھنے کی کوشش کرنا، بس اسی کو کہتے ہیں مکالمہ۔ ہماری کئی نسلوں نے فقط مباہلہ، مجادلہ، مناظرہ اور مباحثہ ہی کیا ہے اور نتیجہ تقسیم، نفرت، فتوے اور دھڑے بندی ہے۔ سو کیوں نا ہم کچھ دیر کو مکالمہ ہی کر لیں۔ خلیج کو ختم تو نہیں مگر کم ہی کر لیں، نفرت کے بجائے محبت نہیں تو برداشت ہی کر لیں، اتفاق نہیں تو اختلاف کے ساتھ جینا ہی سیکھ لیں۔ بس “مکالمہ”، اسکا مقصد، اسکی رہنما پالیسی فقط اتنی سی ہی ہے۔
اللہ مجھے میری بیگم اور ہر قسم کے بد اثرات سے اپنی پناہ میں رکھے، الحمدللّٰہ میں خود کو بہت خوش نصیب سمجھتا ہوں۔ ایک شخص جو ابھی کچھ ماہ تک فقط ایک وکیل تھا، آپ نے اسے بطور لکھاری قبول کیا۔ میرے “مکالمہ” کے ساتھیوں نے میرا مان رکھا اور ہماری درخواست پر لکھنے والوں نے عنایات کیں۔ پھر اس سائیٹ کا اعلان ہوتے ہی آپ سب نے اس محبت سے خوش آمدید کہا کہ میں سوچ رہا ہوں رانا ہٹا کر اب انعام منٹو لکھا کروں۔ میں اس خوش نصیبی پر اپنے رب کا شکرگزار ہوں کہ گلیوں کے روڑے کوڑے کو محل چڑھا دیا۔ مجھے امید ہے اور میری دعا ہے کہ “مکالمہ” آپکی امیدوں پہ پورا اترے اور معاشرے کو وہ اچھائی لوٹا سکے جو اس نے ہمیں دی۔ “ہم سب”، “دلیل”، “آرچر آئی”، “حق نیوز”، “قلمکار”، “لالٹین”، “مکالمہ” اور دیگر سائیٹس نیک نیتی سے جلائی گئیں اپنے اپنے حصے کی وہ شمعیں ہیں جو اندھیروں کو ختم کرنا چاہتی ہیں۔ سو آئیے جہالت کے اندھیرے ختم کریں، روشنی پھیلائیں اور مکالمہ کریں۔
انعام رانا لاہور کے بیٹے اور لندن میں وکالت کرتے ہیں۔ انھیں لگتا ہے کہ زندگی، فقط بطور وکیل گزارنے کیلیے، بہت لمبی ہے۔ انعام رانا ایک ایسی دنیا کے خواب کی تعبیر کیلیے گوشاں ہے، جس میں انسان ایک دوسرے سے فقط انسانیت کے ناطے جڑ جائیں، انھیں خواب دیکھنے کی عادت ہے۔
Facebook Comments
Rana unleashed…
Waah Good Wakeel Babo. Khush raho. Dili khushi hoi Makalma visit krke. Aapko parha. Khoob. مکالمہ زندہ باد
بندہ ناچیز کی طرف سے تحسین اور تائید دونوں قبول کیجئیے
فقط والسلام آپ کا اپنا
مولوی انوار حیدر
بہت عمدہ اقدام اور بہت عمدہ تحریر-
میری نیک تمنائیں آپ کے ساتھ ہیں-
Rana sb ,
Apky lokhy ko prhta raha hoon agly dino apko suna bhi …..Allah ka kram ye hua k aap ka lehja javaid chaudhry ki trha punjabi bhara nai hy …maza aya sun k …Allah apko mukalma main mukaamal kamyabiyon sy nawazy ….inaam rana, frnood Aalam k likhy huy k sehro o ishq main mubtala hoon Allah ki amaan ho.Allah kry zoor e Qalam aur ziyada.
ہمیشہ کی طرح نہایت دلنشیں اور خوبصورت تحریر ،
اللہ کرے کہ آپ اسی طرح پرورش لوح و قلم کرتے رہیں ، مکالمہ کے آغاز پر نیک تمناؤں کے ساتھ ،
اعجاز مرزا
Roznama Sufaid, Zindabad!
ہمیشہ کی طرح وہ آیا اسنے دیکھا اسنے فتح کیا
اب جبکے مکالمہ کا در کھل چکا سو اندر کے جہان کا مزید مشاہدہ کر کہ مزید راۓ پیش کرینگے
ماشاءاللہ
بہت خوبصورت تحریر
اللہ پاک قدم قدم پہ کامیابی عطا فرمائے آ پکو انعام بھائی
All the best
ماشااللّہ اللہ پاک آپکو ھر قدم پر کاميابی دے
روزنامہ سرخ اور روزنامہ سبز کے ساتھ کوئی روزنامہ سفید بھی تو ہو جہاں سب اپنی مرضی کے رنگ بھر سکیں…. بہت خوب انعام بھائی جیتے رہئے اللہ پاک آپ کو ڈھیر ساری کامیابیاں عطا فرمائے, آمین
پہلے تو ایک معلوم قدر مشترک تھی۔راجپوت۔ اس تحریر کو پڑھنے کے بعد ایک اور قدر مشترک کا پتا چلا۔ وہ یہ کہ آپ بھی ہماری طرح فارمنائٹ ہوتے ہیں۔مرحوم گورنمنٹ ایف سی کالج کے کلاس رومز اور ہاسٹلوں کے کمروں کے دروازوں اور کھڑکیوں پر جا بجا ”فارمنائٹس آر گریٹ” کے اسٹکر چسپاں ہوتے تھے۔ہمارا ایف سی کالج ،جس میں ہم نے پڑھا وہ تو مشرف کے ہاتھوں مرحوم ہوچکا۔اب ”فارمنائٹس آر گریٹ” رہ گئے ہیں اور وہ ہرشعبے میں نظر آتے ہیں۔اللہ انھیں سلامت رکھے ۔ خوش رہیے۔بس ویب سائٹ پر درست اردو املا کا خیال رکھیے۔بھنڈر صاحب فلسفے کی بھاری بھرکم اصطلاحیں تو خوب برت گئے لیکن نعم البدل لکھنا نہیں آیا۔
مکالمہ شروع کرنے پر انعام بھائی آپ کو اور آپ کی ٹیم کو دل کی گہرائیوں سے مبارک اور آداب عرض ہیں ۔ دائیں اور بائیں بازو کے لوگ اپنی اپنی سائٹ بنا چکے تھے، ہم جیسے اصحاب الاعراف کے لیے ایک اچھا سٹیج مہیا کرنے پر شکریہ ۔