داؤد فیملی اور ہمارے منفی رویے/سلمٰی اعوان

لہجہ بڑا گلوگیر سا تھا۔ فون پر آواز جیسے بتا رہی تھی کہ کہیں آنسوؤں سے آنکھیں بھی بھیگی ہوئی ہوں گی۔ زینب میری ہم عمر ہی نہیں بچپن کی دوست بھی ہے۔ درمیان میں بنیروں کی سانجھ والا گہرا تعلق بھی تھا جو خونی رشتوں سے بھی بڑھ جاتا ہے۔ زندگی کا ایک حصہ کراچی گزارنے کے بعد شوہر کی وفات کے بعد لاہور آ گئی تھی۔ آج وہ مجھ سے موبائل فون پر بات کر رہی تھی۔ شہزادہ داؤد اور اس کے جواں سال بیٹے کی موت کی خبر پر مجھ سے اپنا دکھ بانٹ رہی تھی۔

شہزادہ داؤد اور میرے محسن (بیٹے ) کی پیدائش ایک ہی ماہ میں ہوئی تھی۔ ڈاکٹر عمر (شوہر) نے بڑے صاحب حسین داؤد کو شہزادہ کی مبارکباد دیتے ہوئے اپنے بیٹے کی پیدائش بارے بھی بتایا تو جانتی ہو حسین داؤد نے اپنی محبت کا اظہار اپنے اس ملازم سے کیسے کیا۔ اس ماہ عمر کی تنخواہ میں ڈبل بونس کا اضافہ تھا۔

میں جانتی تھی زینب کا شوہر ڈاکٹر عمر کیمیکل انجنئیر داؤد ہرکولیس میں اپنی محنت اور فرض شناسی کی وجہ سے کلیدی پوسٹ پر متعین تھا۔

تم نے سوشل میڈیا پر لوگوں کے تبصرے دیکھے اور سنے ہوں گے ۔ کس طرح انہوں نے چند کروڑوں کے ٹکٹ کا جان کر اس خاندان کی دھجیاں اڑائی ہیں۔ منافقت سے بھری ہوئی باتیں، جاہلانہ تبصرے جوش و خروش سے بھری ہوئی احمقانہ وڈیوز جو پاگل پن کا اظہار کرتی تھیں۔ میں تو گنگ روتے ہوئے یہ سب دیکھتی اور سوچتی تھی کہ اخلاقیات، تہذیب اور شائستہ رویے کس طرح اس سوشل میڈیا کے طوفانی ہجوم کے سامنے بے بس ہو گئے ہیں۔ ان جاہلوں کو تو یہ معلوم ہی نہیں کہ داؤد خاندان اپنے کارکنوں، ان کے بچوں کی تعلیم پر لاکھوں کیا کروڑوں خرچ کرتے تھے۔ میرے بیٹے کی پی ایچ ڈی کے لیے فنانسنگ کمپنی نے کی تھی۔ اسی طرح کے ہزاروں کیس ہیں۔

زینب کی دل گرفتگی اتنی شدید تھی کہ میں خود اس کی زد میں آ گئی تھی۔ تاہم دل جوئی کے لیے کہنا پڑا تھا۔ میری جان دراصل قصور ان بے چارے لوگوں کا نہیں۔ ان کی تو تربیت ہی نہیں ہوئی۔ تم جانتی ہی ہو کہ ملک کے حالات کس قدر ظالم ہو گئے ہیں۔ ایک غربت، اس پر زندگی کی عام سہولتوں کا فقدان، بے روزگاری جیسے سنگین مسائل جن کا انھیں سامنا ہے۔ اب ایسے میں ناامیدیوں اور مایوسیوں میں گھرے 80 فی صد لوگ شتر بے مہارے ہو رہے ہیں۔ تو میری جان ان سارے واقعات کو ذہن میں رکھو۔

مگر زینب کی آواز میں تلخی کم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ یقین مانو اس محنتی اور ایمان دار خاندان نے ریاست کو ہمیشہ ٹیکس کی پوری ادائیگی کی اور کرتے ہیں۔ ہمارے چور سیاست دانوں، نودولتیوں، فراڈیوں کی طرح ٹیکس چوری نہیں کرتے۔ فلاحی کاموں میں ان کا کردار ہے۔ خدا نے انہیں دولت سے نوازا ہے۔ روپے پیسے کی ریل پیل دی ہے تو کہیں اس کا اگر اظہار ہو گیا تو اس حد تک لوگوں کا ردعمل سمجھنے سے ذہن قاصر ہے۔

شہزادہ داؤد بڑا دلبر اور بڑی ایڈونچر سی طبیعت والا بچہ تھا۔ ہم نے اس کا بچپن دیکھا ہے وہ خطرات سے کھیلنے کا عادی تھا۔ سلمان داؤد معصوم سا بھولا بھالا بچہ باپ کی طبیعت کا الٹ تھا۔ شاید کہیں جی دار باپ کی خواہش اسے اپنے جیسا ہی بنانے کی آرزو مند ہو۔ شاید اسی لیے وہ اسے اپنے ساتھ لے کر جانا چاہتا ہو۔ علامہ اقبال کے بڑے بیٹے منیب اقبال نے بھی سلمان داؤد کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ میرے بھتیجے کا کلاس فیلو تھا اور اکثر ہمارے گھر آتا جاتا رہتا تھا۔ اچھی عادات والا بچہ تھا۔

کتنی ہی دیر وہ میرے ساتھ اپنے دکھ کو بانٹتی رہی۔ میں نے مقدور بھر اس کی دل جوئی کی۔ فون کا سلسلہ منقطع ہوا تو میرے اردگرد سوچوں کا طوفان تھا۔ تاریخ میرا مضمون ہے۔ قوموں کے عروج و زوال کی داستانوں سے مجھے مکمل آگاہی ہے۔ دور پار کے ملکوں کو چھوڑ کر اگر میں اپنے بڑے بے مثال ہمسایہ ملکوں کی طرف بھی جاتی ہوں تو یہ جانتی ہوں کہ وہ پاکستان سے بھی زیادہ دردناک حالات سے گزر کر یہاں تک پہنچے ہیں۔

مگر پھر بھی جانے کیا بات ہے بے چینی اور اضطراب ہمہ وقت گھیرے رکھتا ہے۔ کہیں امید نظر نہیں آتی ہے۔ ایسے میں آسمان کی طرف دیکھنا بھی ایک معمول ہے اور یہ کہنا بھی معمول ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میرے پروردگار میرے ملک کے لیے ”کن“ کہنا تیرے لیے اتنا دشوار کیوں بن گیا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply