شہتیر کا شکار۔۔محسن علی خان

سخت جاڑے کا موسم تھا۔ سردی پہاڑوں سے اتر کر میدانی علاقوں میں قدم جما چکی تھی۔ صبح سے بارش کی جھڑی لگی ہوئی تھی جس کی وجہ سے ہوا میں خون جما دینے والی لہر پیدا ہو رہی تھی۔ چوہدری صاحب کے ڈیرے کا سارا بالن (لکڑیاں) بارش کے ساتھ جل تھل ہو گیا تھا۔ رات جیسے جیسے گہری ہوتی جا رہی تھی، چوہدری کو حقّہ کی طلب بڑھتی جا رہی تھی۔ چوہدری نے بے قرار ہو کر اپنے ملازم خاص میاں  فیکے کو آواز دی اور فوراً حقّہ پیش کرنے کا حکم دیا۔ میاں  فیکے نے بالن کے گیلا ہونے کا بہانہ کرنا چاہا لیکن چوہدری کی گھورتی ہوئی آنکھوں کو دیکھ کر جی حضور ابھی لایا کہہ دیا۔ مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق فیکا اپنے گھر سے بالن لینے کے لئے دوڑا۔ بارش سے بھیگتا، ٹھٹرتا، کانپتا دانت بجاتا ہوا جب گھر پہنچا تو بیوی کو بالن اکٹھا کرنے کا کہا۔ خود انگھیٹی کے پاس بیٹھ کر جسم تاپنے لگا۔
بیوی نے بالن اکٹھا کر کے باندھا اور باڑے میں رکھ دیا، فیکا بالن اٹھا کر جانے لگا تو بیوی نے کہا ایک پیالی گرم چاۓ پیتے جاؤ۔ فیکا دوبارہ انگھیٹی کے پاس بیٹھ گیا، جب چاۓ کی چسکیاں لیں تو جسم میں حرارت پیدا ہوئی، فیکا کو سکون ملا، غنودگی طاری ہوئی اور وہیں ڈھیر ہو گیا۔ بیوی نے جب شوہر کو سوتے دیکھا تو رضائی اوڑھ دی۔ کچھ ہی دیر میں فیکا خواب خرگوش کے مزے لینے لگا۔

اگلے دن باہر گلی میں بینڈ باجے کی دُھنوں سے آنکھ کھلی تو دیکھا ہمساۓ کی بارات جانے کی تیاری میں تھی۔ دیگی سالن اور زردہ کی خوشبو کو تصور میں لایا تو چوہدری کا حکم دماغ سے نکل گیا۔ جلدی سے تیار ہوا اور باراتی بن کر بارات میں شامل ہو گیا۔ رات کو بارات سے واپسی ہوئی تو چوہدری کا حکم یاد آیا۔ باڑے سے بالن اٹھایا، سر پٹ چوہدری کے ڈیرے کی طرف بھاگا۔ کیچڑ والی زمین پر پاؤں پھسلا، فیکا قلابازیاں کھاتا برساتی نالے میں جا گرا۔ جلدی سے باہر نکلا۔ منہ پر لگا کیچڑ صاف کیا اور کہنے لگا اِک تے مِنوں چوہدری دِیاں کالِیّاں نے مار دِتا جے۔ جلدی سے بکھرا بالن سمیٹا اور دوبارہ منزل کی طرف گامزن ہوا۔ ڈیرے پر رش دیکھا تو گھبراہٹ ہوئی۔ مجمع کو چیرتا ہوا آگے نکلا تو چارپائی پر چوہدری کی لاش دیکھ کر کپکپاہٹ جاری ہوگئی۔ لوگوں کی باتوں سے پتہ چلا کل رات چوہدری بالن اکٹھا کر رہا تھا تو برساتی گر گئی، ایک شہتیر نے چوہدری کا شکار کیا، چوہدری سر پر چوٹ لگنے سے اگلے جہاں کوچ کر گیا۔ فیکا جلدی سے آگے بڑھا، لاش کے ساتھ لپٹ کر دھاڑیں مار کر بین ڈالنے لگا۔ بین ڈالتے ہوۓ بس آخری بات جو مجمع کو سُنائی دیتی وہ یہ تھی۔ چوہدری نوں اودِیّاں کالیّاں نے مار دِتا جے۔

ایک لمحہ کے لئے آپ تصور کر لیں کہ حکومت چوہدری ہے اور ہم سب عوام میاں فیکا ہیں۔ حکومت نے آنے والی کرونا وائرس کی بارش کے پیش نظر لاک ڈاؤن کر کے ہمیں اپنا بالن محفوظ کرنے کا موقع دیا تھا تاکہ ہم اپنی صحت کا حقّہ سنبھال کے رکھیں۔ لیکن ہم اپنا بالن بارش کی نظر کرنے کو تُلے بیٹھے ہیں۔ پھر وہی ہو گا کہ فیکے کی طرع پھسل کر برساتی نالوں میں گر کر ہم اپنی ذمہ داری حکومت پر ڈال دیں گے۔

دوسری طرف حکومت ابھی تک گومگو کی کیفیت میں ہے۔ کبھی تاجروں، کبھی علماء کے آگے بے بس ہوتی نظر آرہی ہے۔ ابھی تک راشن تقسیم کا مربوط نظام تشکیل نہیں پا سکا۔ متوسط طبقہ بھی اب دبے لفظوں اپنے غصہ کا اظہار کرنا شروع ہو گیا ہے۔ سفید پوش لوگ جو ہاتھ نہیں پھیلا سکتے تھے وہ جھولی پھیلانے تک کی نوبت کو آنے لگے ہیں۔ اور روایتی بھکاری جو پہلے صرف اپنے اپنے مخصوص علاقوں میں تھے اب ٹولیوں کی صورت میں ہر علاقے کی طرف پیدل مارچ کرتے نظر آرہے ہیں۔ جو ہاتھ پہلے صرف مانگتے تھے اب گریبانوں کو چھو رہے ہیں۔ یہ بہت خطرناک بات ہے۔ اگر یہی معمول رہا تو ایسی دھینگامشتی ان کی فطرت ثانیہ بن جاۓ گی۔ پھر حالات بہتر ہونے کےبعد بھی وہ لوگ ایسا عمل دہرانے سے گریز نہیں کریں گے۔ یہ معاشرے کے لئے ایک الارمنگ سچویشن ہے۔ حکومت کو باقی مسائل کے ساتھ اس پر بھی جلد قابو پانا چاہیے۔

اعداد وشمار کے مطابق اس وقت تک دنیا بھر میں تقریباً تئیس لاکھ تیس ہزار کے قریب افراد میں وائرس کی تشخیص ہو چکی ہے اور اس وائرس سے وفات پانے والے افراد کی تعداد ایک لاکھ ساٹھ ہزار کے قریب ہے۔ جب کے خوش قسمتی سے صحت یاب ہونے والے افراد کی تعداد چھ لاکھ تک بڑھ چکی ہے جو کہ بہت حوصلہ افزاء بات ہے۔ امریکہ میں اس وائرس میں مبتلا افراد کی تعداد سات لاکھ ہو چکی ہے، جب کہ اسپین، اٹلی، جرمنی، فرانس اور برطانیہ میں بھی ایک لاکھ سے اوپر افراد اس وائرس کا شکار ہیں۔

حیران کن طور پر ایسے ممالک بھی ہیں جہاں صحت اور سیفٹی کا معیار بالکل اوسط درجہ کا ہے لیکن وہاں اس وائرس سے لوگ محفوظ ہیں۔ کچھ ممالک تو اپنا باڈر بھی ان ممالک کے ساتھ رکھتے جہاں اس وائرس نے کافی افراد کو متاثر کیا ہے۔
نیپال جیسے ملک کی صورتحال بہت بہتر ہے۔ یمن اور وسطی افریقہ کے بعض ممالک بھی ابھی اس نقصان سے بچے ہوۓ ہیں جو کہ بہت خوش آئند بات ہے کیونکہ ان ممالک میں پہلے ہی صحت کے مسائل زیادہ اور وسائل کم ہیں۔

پاکستان کی اگر ہم بات کریں تو جو اعدادوشمار سامنے آرہے اس کے مطابق تو حالت قدرے کنٹرول میں آگے ہیں۔ پاکستان میں آٹھ ہزار کے قریب کنفرم کیسسز سامنے آۓ ہیں جن میں سے ایک سو پچاس لوگ اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔ اب یہاں دو صورتیں ہیں۔ یا تو حقیقت میں یہی رپورٹ ہے کرونا وائرس کے مریضوں کے متعلق یا پھر صورتحال بہت گھمبیر ہے اور حکومت مختارے کو بتا نہیں رہی۔ دونوں صورتوں میں اپنے ہم وطنوں اور پوری دنیا کے باسیوں کے لئے دل سے دعا ہے کہ سب اس وباء سے محفوظ رہیں اور جو مبتلاء ہیں وہ جلد صحت یاب ہو جائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہمیں اپنی حکومت سے ہر صورت تعاون کرنا چاہیے، لاک ڈاؤن ختم کرو، مسجدیں بازار کھول دو کے نعرے لگا کر ہمیں زیادہ کالیّاں نہیں کرنی چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ، ہماری کالیّاں حکومت کو مجبور کر دے اور عوامی پریشر کا کوئی شہتیر حکومت کے سر کو لگ جاۓ۔ پھر نقصان سراسر ہمارا ہی ہو گا۔ یاد رکھیں، کسی بھی پنڈ کا میاں فیکا اپنے چوہدری کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوتا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply