سچا کون؟/عامر الیاس

پورے ملک میں ہاہاکار مچا ہوا ہے ۔ اس بار بجلی کے بل زیادہ آگئے ہیں۔ بات بھی سچ ہے ۔ جس غریب کا بل گئے سال اگست میں آٹھ ہزار روپے آیا تھا اس بار اس کا بل بیس ہزار کے قریب ہے اور جس متوسط  گھرانے نے پچھلے ماہ تیس ہزار بل بھرا تھا اس دفعہ اس کا بل پورے ساٹھ ہزار روپے آگیا ہے۔ بلوں میں اس ہوشربا اضافے کی وجہ سے بڑے شہروں میں غریب اپنے بلوں سے باہر نکل آئے ہیں اور احتجاج کر رہے ہیں جب کہ صدائے احتجاج بلند نہ کر سکنے والے متوسطین، زیور، موٹر سائیکل وغیرہ بیچ کر بجلی کی کمپنیوں کے قرض چکانے پر مجبور ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس شور شرابے میں میری نظر سے سوشل میڈیا پر گھومتی چند ایسی پوسٹس بھی گزری ہیں جن میں متمول لوگوں نےاظہار کیا ہے کہ اگرچہ بجلی مہنگی ہوئی ہے لیکن اس وقت جتنا شور بپاہے اس کی قیمت میں اتنا اضافہ نہیں ہوا ہے۔ جیسے ان کا بجلی کا بل اس دفعہ اسی ہزار روپے آیا ہے جو پہلے کی نسبت صرف دس ہزار زیادہ ہے یا پھر دو دو اے سی چلانے کے باوجود ان کے بجلی کا اوسط خرچہ پندرہ بیس فیصد سے زیادہ نہیں بڑھا ہے۔
یوں ملک دو واضح حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ غریب کا کہنا ہے کہ متمول چونکہ حکومت کا افسر ہے اور اسے مفت یا سستی بجلی ملتی ہے اس لئیے وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ جب کہ متمول کا خیال ہے کہ غریب نظام برقیات پر بہتان اٹھا رہا ہے کیوں کہ بجلی کی قیمتوں میں سو فی صد اضافہ نہیں ہوا ہے۔ ان دو متضاد رائے کی وجہ سے، اللہ نہ کرے ملک میں کسی بھی وقت خانہ جنگی چھڑ سکتی ہے، اس لئیے دونوں طبقات کو درست بات بتانا، میں اپنا فرض اولین سمجھتا ہوں تاکہ روز محشر سرخرو ہوسکوں۔ لیکن یہ میرا فرض کیسے ہے؟؟؟
خواتین و حضرات چونکہ اس بندہ ناچیز کی رسائی متمول افسران، تاجران اور اشرافیہ تک ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس ناچیز کا زیادہ وقت اپنے ان جگری دوستوں، سنگیوں اور گرائیوں کے ساتھ گزرتا ہے جن کا جینا مہنگائی نے محال کر رکھا ہے۔ اس لئیے یہ ہی وہ شاہکار ہے جو اگرچہ خود ان دو انتہاؤں کے درمیان آدھا تیتر اور آدھا بٹیر بن چکا ہے، لیکن یہ بے وقعت آپ کو اصل حقیقت سے آگاہ کر سکتا ہے۔ تو جناب سیٹ بیلٹ باندھ لیں، کیونکہ ہر دوسری حقیقت کی طرح یہ حقیقت بھی آپ کے لئیے تلخ ہو سکتی ہے۔
حضور والا، اس پر تو سب کا اتفاق ہے کہ بجلی مہنگی ہوئی ہے۔ لیکن امیر کو یہ سمجھ نہیں آرہا کہ دو پنکھوں اور دو بلبوں کا بل تیس ہزار کیسے آ سکتا ہے جب کہ غریب کو یہ سمجھ نہیں آرہا کہ دو اے سی ، فریزر ، فریج، ایل سی ڈی، کپڑے دھونے والی مشین، بجلی پر چلنے والا فلپس کا استرا، سانس اندر کھینچ کر مٹی اٹھانے والی مشین، بال سکھانے والا دوزخی پنکھا اور درجنوں برقی قمقموں کے ہوتے ہوئے متمول کا بل صرف پچاس ہزار کیسے آ سکتا ہے؟؟؟
حضور والا، آپ دونوں اپنی اپنی جگہ درست ہیں۔ لیکن کیسے؟ حوصلہ رکھیں ابھی بتاتا ہوں۔
امیر چونکہ معاشرے میں اعلی مقام رکھتے ہیں اس لئیے پہلے ان کا حق بنتا ہے کہ ان کا دل غریب بارے صاف ہو۔ اس لئیے پہلے میں انہیں سے مخاطب ہوں۔سر عرض ہے، غریب کا بل اس لئیے زیادہ آتا ہے کیوں کہ اس کا پنکھا آپ کے پنکھے کی طرح ننانوے اعشاریہ نو نو فی صد خالص تانبے کی تاروں سے نہیں بنا ہوتا ۔ مزید، سوئچ آن کرنے کے بعد غریب کے بچے کو چارپائی پر چڑھ کر ڈنڈے سے پہلے پنکھے کواینٹی کلاک وائز گھمانا پڑتا ہے ۔ تب وہ کہیں جا کر چالو ہوتا ہے۔ یوں پنکھا ہوا دینے سے بیشتر بجلی کے دو چار یونٹ کھا جاتا ہے۔
جہاں تک بلب کی بات ہے وہ ایل ای ڈی اور ایس ایم ڈی سے کئی گنا زیادہ بجلی کھاتا ہے۔ دوسرا غریب کا بلب جلتے ہوئے سسکیاں لیتا ہے، آہیں بھرتا ہے اور آنکھیں جھپکاتا رہتا ہے جس کی وجہ سے بجلی ضائع ہوتی ہے۔ اگر ہم غریب کے گھر کی پانی کی موٹر کو دیکھیں تو وہ، آن ہونے کے بعد پندرہ منٹ تک گوں گوں کرکے ریاض کرتی ہے اور اس کے بعد چند بوندیں آسمان کی طرف دھکیلنا شروع کرتی ہے۔ اس کے برعکس غریب کے دروازے پر لگی گھنٹی اتنی باعصمت و با کردار ہوتی ہے کہ اس کے بٹن کو ہلکا سا چھو لو، دس منٹ تک اس کی ٹراں ٹراں بند نہیں ہوتی۔ انہی وجوہات کی بناء پر غریب کا بجلی کا بل زیادہ آتا ہے۔
او غریبو، میں اب آپ لوگوں سے مخاطب ہوں۔ دوستو، آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ شاید آپ کی طرح امیر بکسے میں رہتا ہے اور ہر وقت اس کے گھر میں لائیٹیں جلتی رہتی ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے ۔ اس کے گھر روشن اور ہوا دار ہوتے ہیں۔ اس کا فریج بھی آپ کے فریج سے مختلف ہوتا ہے۔ آپ کے فریج کا کمپریسر ہر گھنٹے بعد صور اسرافیل پھونک کر آپ کو بتاتا ہے کہ وہ فریج کو ٹھنڈا کر رہا ہے جب کہ امیر کے ٹاپ ماؤنٹ فریج پر چمکتا ہوا پانچ کا ہندسہ اسے بتاتا ہے کہ فریج میں پڑی مچھلی اور گوشت محفوظ ہے۔ اس کے علاوہ امیر سارا سارا دن گھر میں نہیں پڑا رہتا۔ چھ بجے تک وہ خود اپنے دفتر میں رہتا ہے جب کہ اس کی زوجہ ماجدہ (جیسے تمہاری گھر والی یا بیوی ہوتی ہے ایسے امیر کی زوجہ ماجدہ ہوتی ہے) اپنے دفتر میں وقت گزارتی ہے۔ امیر کی بیٹی ببلی (جیسے تمہاری رانی ہوتی ہے ویسے امیر کی ببلی ہوتی ہے) سکول سے واپس آ کر تھوڑا آرام کرتی ہے پھروہ کلب، گھڑ سواری یا تیراکی کرنے چلی جاتی ہے۔ امیر دفتر سے نکل کر کوئی چھوٹی موٹی پہاڑی چڑھ لیتا ہے یا اپنے آپ کو چاند سمجھ کر زمین کے گرد دوڑ لگا لیتا ہے، جب کہ اس کی زوجہ ماجدہ شام کا ٹھنڈا وقت گھر میں گزار کر کلب چلی جاتی ہے، جہاں ببلی اسے جوائن کر لیتی ہے (یہ جوائن کرنا تم نہیں سمجھ سکتے کیوں کہ تمہارا بیٹا تمہیں جوائن نہیں کرتا تم سے ڈر کر چارپائی کے نیچے گھسا رہتا ہے)۔ افسر اس کے بعد کلب چلا جاتا ہے جہاں گھر کے تینوں افراد مل کر کھانا کھا لیتے ہیں یا پھر وہ دوستوں کے ساتھ کسی بڑے ریسٹورینٹ میں بیٹھ کر ملکی مسائل ( جس کا سبب وہ خود بھی ہے) کا حل تلاش کرتا ہے۔ تینوں گھر کے افراد رات گیارہ، بارہ بجے گھر واپس آتے ہیں اور پھر اے سی لگا کر سو جاتے ہیں۔ اب تم خود سوچو کہ ان کی بجلی کا خرچ کم ہونا چاہئیے یا زیادہ؟ بولو؟
سو اے ہم وطنو، تم دونوں اپنی اپنی جگہ پر سچے ہو۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس بار بجلی کے بلوں نے اکثریت کی کمر توڑ دی ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ مہنگائی ہماری بچت کو تیزی سے کھا رہی ہے اور ہماری آمدن سے ہمارے خرچے بڑھتے جار ہے ہیں۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ اگر ہمارے روپے کی بے توقیری جاری رہی تو مہنگائی نے ہمارے معاشی و سماجی روئیے بگاڑ کر رکھ دینے ہیں۔ اس کے باوجود عرض یہی ہے کہ ایک دوسرے سے لڑنا یا بحث کرنا یا اس مہنگائی کا الزام صرف مخالف سیاسی پارٹی پر تھوپنا کوئی حل نہیں ہے۔ جن کے پاس ہے انہیں چاہئیے اس مشکل وقت میں ان کے جذبات کا خیال رکھیں جن کے پاس نہیں ہے اور جن کے پاس نہیں ہے۔۔۔۔ اللہ انہیں صبر دے، ان کے لئیے بس آخرت ہے!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply